Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Rao Manzar Hayat
  3. Daleel Ki Dunya

Daleel Ki Dunya

دلیل کی دنیا

ہمارے سماج میں، دلیل کی بنیاد پر بات یا کام کرنا، حد درجہ مشکل بنا دیا گیا ہے۔ لایعنی گفتگو بہر حال پسند کی جاتی ہے۔ مگر ایک کام ہم نے بہت باریکی سے سیکھ لیا ہے اور وہ ہے سطحیت پسندی۔ مقصد گریہ کرنا نہیں ہے۔ صرف، اس گہری نیند سے بیدار کرنا ہے، جو بگاڑ کو دیکھنے نہیں دے رہی۔ اداروں، سیاست کے بونے کرداروں اور بیدار مغز افراد کی اکثریت نے زبوں حالی کی وجوہات پر توجہ کرنی چھوڑ دی ہے۔

نتیجہ کیا ہوا ہے کہ جو فرد بھی مروجہ جعلی ضابطوں سے ذرا مختلف بات کرتا ہے۔ اس پر سرخ دائرہ لگا دیا جاتا ہے۔ پورا نظام، اس آواز اٹھانے والے انسان کو فنا کرنے پر تل جاتا ہے۔ نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا گھمبیر مسئلہ بن چکا ہے۔ جس پر کسی قسم کی نکتہ چینی کرنی بھی خطرے سے خالی نہیں۔ اٹھانے کو تو متعدد سوالات ہیں جن کے جوابات تلاش کرنا ضروری ہیں۔ مگر ایک سلگتا ہوا سوال تو اب، سانپ کی طرح ہر سوچنے والے کے وجود کو ڈستا ہے۔

وہ یہ کہ کیا ہمارے ملک، نظام یا معاشرہ میں سچ بولا جا سکتا ہے؟ حقیقت کو برمحل تسلیم کیا جانا ممکن ہے؟ کیا ہمارے رویے تعصب سے اتنے دور ہیں کہ ہم کسی بھی معاملہ پر زمانے کے ساتھ چلنے کی استطاعت رکھتے ہیں؟ اس سوال یا منسلک سوالات کا شاید صرف ایک جواب فی الفور ذہن میں آتا ہے۔ کہ جی نہیں! ہم سچ، حقیقت اور جدید رویوں کا سامنا کرنے کی اسطاعت ہی نہیں رکھتے! یہ معاملہ کوئی ستر، اسی برس پرانا نہیں ہے۔ بلکہ بتدریج زوال، ڈھائی سو برس کا شاخسانہ ہے۔

ڈھائی سے تین ہزار برس کی تاریخ پر گہری نظر ڈالیے تو آپ کو یہ اندازہ ہو جائے گا کہ برصغیر، کرہ ارض کا سب سے خوشحال خطہ تھا۔ پوری دنیا سے، تمام مذاہب اور پیشوؤں سے تعلق رکھنے والے ان گنت افراد، صرف اور صرف رزق کی تلاش میں برصغیر آنا فخر کی بات سمجھتے تھے۔ اتنے وسیع خطے میں طاقتور مرکزی حکومت، صرف چند مرتبہ ہی قائم ہو پائی ہے۔ اشوک، چندر گپت موریا اور چند مغل بادشاہوں کے علاوہ، بہت کم ایسے مواقع دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں ایک "مضبوط حکومت" پورے برصغیر پر قائم ہو۔ مگر ایک حیرت انگیز نکتہ سامنے آتا ہے۔

پورے ہندوستان میں مذہبی تعصب کا نام ونشان تک نہیں تھا۔ برصغیر میں، مسلمان، ہندو، جین، بدھ، سکھ اور دیگر مذاہب پر چلنے والے، بڑے آرام سے زندگی گزار رہے تھے۔ یہ ہرگز ہرگز معمولی بات نہیں ہے۔ مسلمانوں کے ایک ہزار برس کے اقتدار اعلیٰ نے بھی، مذہب کے حوالے سے اس سماجی توازن کو بالکل نہیں چھیڑا۔ اکبر اعظم کا ذکر نہیں کرنا چاہتا۔ اس لیے کہ وہ رواداری کے ایک سنہرے دور پر ایستادہ ہے۔

دہلی سلاطین سے لے کر، تمام مغل بادشاہوں کے درباروں میں، ہر مذہب کے افراد موجود تھے اور بہت زیادہ اہمیت کے حامل تھے۔ اورنگ زیب عالمگیر کا ذکر کروں گا۔ اس بادشاہ کے ساتھ تاریخ نے انصاف نہیں کیا۔ اس کے مشیر خاص اور فوج کے اہم عہدوں پر ہندو موجود تھے۔ اورنگزیب نے ریاست کے معاملات میں، وہ سختی نہیں کی جس کا ملبہ مورخین نے اس پر ڈال دیا ہے۔

پورے معاشرے میں ایک ترتیب تھی، جس میں سب لوگ معمول کے مطابق سانس لے رہے تھے اور یہی ہمارے سماج کی کامیابی کا نسخہ تھا۔ اس کے بالکل برعکس، یورپ میں مسیحی بادشاہ، فرقہ پرستی کے عذاب میں مبتلا تھے۔ مشرق وسطی کے معاملات، اس دور میں بھی جنگ سے آلودہ تھے۔ صلیبی جنگوں اور منگولوں کی پھیلائی ہوئی بربادی، کبھی بھی برصغیر تک نہیں پہنچ پائی۔ برصغیر، اپنی مضبوط معیشت اور تمدن سے آراستہ وہ ہیرا تھا جس کی چمک پوری دنیا کے لیے خیرہ کن تھی۔

مگر یہ امن، کس طرح تبدیل کیا گیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور سے، ایک خاص حکمت عملی کے زیر انتظام پوری سوسائٹی میں ایک دوسرے سے نفرت کے وہ بیج بوئے گئے، جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ نکتہ بہت نازک ہے۔ اس وقت، برطانیہ ایک سپر پاور تھا۔ اس لیے انگریز حکمرانی کرنے کو موروثی حق سمجھتے تھے۔

اس کہ طرز عمل کی پشت پر، تاج برطانیہ کی بے مثال معاشی، تحقیقی، سائنسی اور عسکری قوت موجود تھی۔ انگریزوں نے پورے خطے میں، لسانی، مذہبی، طبقاتی اور سماجی دراڑیں ڈالنی شروع کر دیں۔ مسلمان سمجھ ہی نہیں پائے کہ کھیل کیا ہے؟ اور اس میں کیسے شریک ہونا ہے؟ 1857کی جنگ آزادی کے بعد معاملہ اور خرابی کی طرف چلا گیا۔ مسلمان ایک ایسے خول میں چلے گئے، جس میں جدید تعلیم اور سائنس کی مکمل نفی تھی۔ مغربی تعلیم کے اس بائیکاٹ نے ایک زندہ قوم کو ایسے عذاب میں مبتلا کر دیا، جس میں سے آج تک ہم نکل نہیں پائے۔ مسلمانوں کے مدارس کے ابتدائی دور پر نظر ڈالیے تو تکلیف بڑھ جاتی ہے۔ ان قابل احترام مدرسوں نے نئے علوم کی مکمل طور پر نفی کر ڈالی۔ یعنی مسلمان، تعلیم سے دور ہوتے گئے۔ یہ درست ہے کہ انھیں مذہبی تعلیم تو حاصل ہوئی مگر سائنس اور تحقیق کی دنیا سے مونہہ موڑ گئے۔

یہ اتنا بڑا سانحہ ہے۔ جسے بیان کرنا مشکل ہے۔ ہندؤ اکابرین اس کھیل کے دائرے کو بہت جلدی سمجھ گئے۔ انھوں نے ایک منظم تحریک کی طرح، انگریزی زبان، جدید تعلیم اور سائنس کی طرف توجہ دی۔ نتیجہ یہ کہ وہ مسلمانوں کو ہر طریقہ سے کوسوں میل پیچھے چھوڑ گئے۔ برا نہ منایئے گا۔ یہ فرق آج بھی موجود ہے۔ مانیے یا نا مانیے۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ ڈیڑھ سو سال کی ذہنی مفلسی سے ہم لوگ، یعنی مسلمان آج تک باہر نہیں نکل سکے۔

سرسید وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے مسلمانوں کو جگانے کی کامیاب کوشش کی۔ اگر سرسید نہ ہوتے، ان کی بنائی ہوئی درسگاہ نہ ہوتی۔ تو شاید، قائداعظم کو وہ نوجوان نسل ہی نہ دستیاب ہوتی جس نے ووٹ کی طاقت سے دنیا کا عظیم ملک یعنی پاکستان بنا ڈالا۔ سرسید کی سوچ کی جس طرح، اس زمانہ کے مذہبی حلقوں نے تضحیک کی وہ ہماری تاریخ کا ایک المیہ ہے۔ ویسے یہی سلوک، علامہ اقبال اور قائداعظم کے ساتھ برتا گیا۔ کیا یہ سچ نہیں کہ قائداعظم کی سب سے فعال مخالفت، مسلمانوں نے ہی کی تھی۔ یہ تاریخی غلطیاں ہیں، جو شدت سے آج بھی متوازن آوازوں کے خلاف جاری و ساری ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد، ہمارے معالات بہتری کی طرف گئے یا زوال کا دور جاری رہا؟ قائداعظم کی سوچ ہم سب کے سامنے ہے۔ مگر ان کی گیارہ اگست کی تقریر کو ملکی ریڈیو پر سنسر کر دیا گیا۔ تقریر کا اصل مسودہ، پاکستان بننے کے بعد، دہلی ریڈیو سے منگوایا گیا۔ قائد کو ان کی تقریر پر، ہمارے مذہبی، لسانی اور سماجی اکابرین نے آڑے ہاتھوں لیا۔ پاکستان بننے کے بعد، ہم ایک خلا میں معلق ہو گئے۔ ہماری اصلی تاریخ تو موہنجوڈارو، ٹیکسلا سے کشید تھی۔ مگرحقائق سے دوری، ہمارے ریاستی طرز عمل کی بنیاد بن گئی۔

محمد بن قاسم سے اپنی شناخت شروع کی۔ جس کا، اس خطے سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا۔ مگر ہم نے ناسمجھی میں، ایک ایسا راستہ اختیار کر لیا جس کی بنیاد میں نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ نفرت، ہمارے پورے معاشرے میں ریاستی عمل دخل سے ایسے سموئی گئی کہ رگوں میں برصغیر کی روایتی محبت کی جگہ، بداعتمادی اور نفرت کے نیلے خون نے دوڑنا شروع کر ڈالا۔ جو ریاستی بیانیہ، انیس سو پچاس کی دہائی میں بنانا شروع کیا۔ وہ آج عفریت بن کر ہمارے وجود کو ختم کرنے کے در پے ہے۔

ماتم اس بات کا ہے کہ ہمارے سیاسی اور غیر سیاسی حکمرانوں نے مسئلہ کو کم کرنے کے بجائے، اس پر مزید عداوتوں کا تیل چھڑکا۔ چلیے کشمیر کا ذکر کر لیجیے۔ دونوں متحارب ملکوں نے اس کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے بجائے ریاستی طاقت کا استعمال کرنا شروع کر دیا۔ متعدد جنگیں ہوئیں، ہزاروں لوگ مارے گئے ￿ مگر کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہو پایا۔ جس شخص نے یہ بات کرنے کی جرأت کی، کہ جناب، کشمیر کے مسئلہ کو دانائی اور امن کی بنیاد پر حل کریں۔ اسے غدار اور وطن دشمن بنا دیا گیا۔ نفرتوں کے اس سیلاب نے اتنے زہر آلود پودوں کی آبیاری کی کہ پاکستان ہی دو لخت ہوگیا۔ مگر ہم نے، اس سانحہ سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔ ہوا کیا کہ ہمارے حکمرانوں نے، صرف اپنے مفادات کی نگہبانی کے لیے پورے سماج کی ایسی سوشل انجینئرنگ کر ڈالی، جس کے نتائج سے وہ بے خبر تھے۔

فرقہ پرستی، شدت پسندی اور طاقت کے بے جواز استعمال کو ریاستی چھتر چھاؤں میں پروان چڑھایا گیا اور آج یہ جن، ہمارے معاشرے کے اعصاب کو بھرپور طریقے سے گھائل کر چکاہے۔ ذرا، پاکستان کے خلاف لڑنے والے افراد، کی باتیں تو سنئے۔ ٹی ٹی پی کا بیانہ تو پرکھیئے، آپ کو اپنی پہاڑ جیسی غلطیاں صاف نظر آنے لگیں گیں۔ مگر قیامت یہ ہے کہ چند سیاسی جماعتیں، آج بھی وہی غلطیاں کر رہی ہیں جو مسلمان اکابرین نے جنگ آزادی کے بعد کی تھیں۔ اس وقت بھی ہم سے جدت پسندی کو دور کر دیا گیا تھا اور آج بھی یہ بھیانک کھیل، مختلف ناموں سے مسلسل کھیلا جا رہا ہے۔ دلیل کی دنیا میں واپسی کا کوئی راستہ ہے؟ کم از کم مجھے تو نظر نہیں آتا! شاید ہم اب اس قابل ہی نہیں رہے کہ دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل سکیں؟

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari