Tuesday, 07 May 2024
  1.  Home/
  2. Rao Manzar Hayat/
  3. Circus

Circus

سرکس

ملک کے حقیقی حالات کیا ہیں، اس پر موجودہ صورتحال میں غیر جانبدار بحث ممکن نہیں رہی۔ پاکستان کے سوا دنیا کا کوئی ایک ملک گنوا دیجیے جو کوشش کر رہا ہو کہ اس نے ترقی نہیں کرنی۔

کسی بھی بین الاقوامی ادارے کی مستند ترین رپورٹ اٹھا کر پڑھ لیجیے، آپ کو اپنا ملک، خاک آلود سانچے میں ڈھلا ہوا نظر آئے گا۔ اب تو دل نہیں چاہتا کہ کسی مستند بین الاقوامی ادارے کی کوئی بھی رپورٹ پیش کروں۔ حددرجہ دگرگوں معاملات سے دل اکتا سا چکا ہے۔

معاشی ترقی پر خیر کیا بات کرنی۔ محترم شہباز شریف، پیپلزپارٹی اور فضل الرحمن صاحب کی شراکتی حکومت نے اٹھارہ ماہ میں ہر لحاظ سے ملکی معیشت کا بھرم ختم کر ڈالاہے۔ ایک مجہول سا بیانیہ دینے کی کوشش کی ہے کہ ہم نے سیاست قربان کرکے ریاست کو بچا لیا ہے۔

اس نقطے پر ا گر دلیل سے بات کی جائے تو آپ کو ذاتی مصائب میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ذمے داری سے عرض کر رہا ہوں کہ ملک کی معیشت دم توڑ چکی ہے۔ ڈھائی برس میں ملک میں ایک بھی نیا کارخانہ نہیں لگ سکا، صنعت کا پہیہ رک چکا ہے بلکہ ٹوٹ چکا ہے۔ اب معیشت کی بحالی کے لیے کون سا ادارہ کام کرنے کی اہلیت رکھتا ہے، تو آج کی تاریخ میں تو شاید ایک بھی نہیں۔ یہ المیہ اب پوری دنیا کو معلوم ہے۔

دشمن ممالک ہماری ناکامی پر قہقہے لگا رہے ہیں۔ یقین مانیے! میرے پاس قلم کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ لکھنے کے سوا کوئی اور کام ڈھنگ سے آتا بھی نہیں ہے۔ ہاں! سچ لکھنے پر تو سات دہائیوں سے پابندی ہی چلی آرہی ہے۔

یہ کوئی ایک دو سال یا دو دھائیوں کا معاملہ نہیں، ستر برس کے ناکام سفر نے ملک کو دلدل میں غرق کر ڈالا ہے۔ جس سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ متانت اور سنجیدگی تو نظام سے ختم کر دی گئی ہے۔ اب صرف برہنہ خواہشات ہیں اور ان کی تکمیل کے لیے طاقت کا ننگا استعمال۔ یہی کہانی ہے، یہی سچ ہے۔ دوبارہ عرض کروں گا کہ یہ سب کچھ قیام پاکستان سے جاری و ساری ہے۔

جو لکھ رہا ہوں، اس میں کوئی بھی نئی بات نہیں جو آپ کو پہلے سے معلوم نہ ہو۔ مگر کیا کروں، درد دل بھی رکھتا ہوں، اس ملک سے عشق کے سوا میرے پاس کوئی جذبہ نہیں ہے۔ کالم لکھنا بھی بند کرنا چاہتا ہوں، اس لیے کہ جو لکھتا ہوں، وہ پچاس فیصد بھی چھپ نہیں پاتا۔ ایسا لگتا ہے کہ پورانظام ہی مفلوج ہے۔

کیا آپ کے علم میں ہے کہ بریگیڈیئر ایوب خان کو تقسیم برصغیر کے وقت مسلمان مہاجرین کی حفاظت سے پاکستان منتقلی کا کام سونپا گیا تھا۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ جب پنجاب میں خون ہی خون تھا، تو یہ شخص کہاں تھا؟ ان فسادات میں چودہ لاکھ کے قریب لوگ قتل ہوئے۔ مگر اس شخص کی سنگین لاپروائی، غیرذمے داری بلکہ جرم کی کوئی انکوائری ہی نہیں ہوئی تو سزا کیسے ملنی تھی۔

قیام پاکستان کے وقت سے ہی جب ایک درمیانے درجے کے افسر کے حوصلے اتنے بلند ہوجائیں، تو اسے نظام کو یرغمال بنانے سے کون روک سکتاتھا۔ جنرل ایوب خان کی حد درجہ مصنوعی اور مبالغہ آمیز "ترقی" نے پاکستان توڑنے کی بنیاد رکھ دی تھی، مورد الزام یحییٰ خان ٹھہرا، ہتھیار ڈالنے کا کلنک جنرل اے اے کے نیازی کے ماتھے پر لگا مگر سچ یہ ہے کہ سقوط ڈھاکا کی بنیاد ایوب خان نے رکھی دی تھی۔

کیا کوئی اسے کٹہرے میں لے جانے کی جرأت کر پایا، حمود الرحمن کمیشن بھی اسے زیرتفتیش نہیں لایا، شاید اس کے پاس اس کا مینڈیٹ ہی نہیں تھا۔ جو سرکاری ملازم، قائداعظم کو یہ کہہ سکتا ہے کہ سر! سویلینز ملکی معاملات درست طریقے سے نہیں چلا پا رہے، تو اس کے لیے حلف اٹھاناکوئی معنی نہیں رکھتا۔

ابتدا سے ہی ملک کو درست ڈگر پر نہیں چلایا گیا۔ خواص اس ملک کو راجواڑے کی طرح چلاتے رہے۔ اور یہ چلن آج بھی چل رہا ہے۔ کوئی سرکاری ادارے ہیں نہ اعلیٰ ترین عہدیدار، نہ سیاست ہے اور سیاست دان، سب کا ہدف دولت کمانا ہے اور قانون سے بالاتر رہنا ہے، عام آدمی کو دبانا ہے۔

اس آئین کی پاسداری انھوں نے ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں کی۔ لوگوں کے بنیادی حقوق کو سلب کرنے کی روایت، آئین کی منظوری کے چند گھنٹے بعد کی ہی رہی۔ یا شاید چند دن بعد میں۔ بہر حال، بنیاد کو ہی صحیح طریقے سے استوار نہیں کیا گیا۔

وہ لوگ اور جماعتیں شریک سفر ہی نہ تھیں، جو قیام پاکستان کو گناہ قرار دیتے رہے، وہ سب کو دھوکا دے کر پاکستان کے اقتدار پر قابض ہوگئیں۔ اس نازک معاملے پر ہمارے ہاں کوئی سنجیدہ بات کرنے کے لیے تیار نہیں اور ہونا بھی نہیں چاہیے۔

اس لیے کہ اس طبقے اور اس کے حاشیہ نشینوں کے سامنے پورا نظام بے بس ہے۔ کوئی ادارہ ان کے خلاف کوئی جائز اور قانونی قدم بھی نہیں اٹھا سکتا۔ احتساب کا ادارہ، کسی مذہبی جماعت کے قائد کو تفتیش کے لیے دفتر بلانے کی ہمت نہیں کر سکا۔ لہٰذا، ریاستی ادارے شتر مرغ کی طرح، ریت میں سردبا کر سوگئے۔ معاملہ ویسے کا ویسا ہی بربادی کی ڈگر پر چلتا رہا۔ اور پھر یک دم، پردہ سیمی پر ایک اور منظر پیش کروا دیا گیا۔

جس میں ہیرو کو ولن اور ولن کو ہیرو بنا دیا گیا۔ یہ ڈھائی سال قبل کی عرض داشت نہیں۔ یہ ستر برس سے ہو رہاہے۔ وہ لوگ جنھوں نے پاکستان اپنی جدوجہد سے بنایا تھا۔ انھیں غدار اور ملک دشن کا خطاب تک دیا گیا۔ ملک کے آئینی سربراہان کی ملک بدری کو ایک معمول بنا دیا گیا۔

جس سیاسی لیڈر نے تھوڑی سی بھی مزاحمت کی، اسے نشان عبرت بنا دیا گیا۔ یہاں یہ سوال بھی ہے کہ کیا ملک کے سارے وزرا اعظم ہی غلط تھے۔ دہائیوں سے یہ سن سن کر کان پک چکے ہیں کہ فلاں وزیر اعظم اور اس کے ساتھیوں نے ملک کو برباد کر ڈالا، فلاں کی آل اولاد ارب پتی ہوگئی ہے۔

یہ ذلت کا تمغہ صرف عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ہر وزیراعظم کے لیے کیوں مخصوص ہے؟ کیا انھیں تخت پر بٹھانے والے، پھر اتارنے والے معصوم ہیں۔ نہیں صاحب! یہ تالی دونوں ہاتھوں سے نہیں بلکہ کئی ہاتھوں سے بجتی ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ اس کی آواز سنائی نہیں دیتی۔

ملک کی موجودہ سیاسی تاریخ میں البتہ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ اداروں کی کشمکش، اندرونی لڑائیاں اور آئین کی حدود سے باہر کام کرنے کی روایت کو سوشل میڈیا نے سب کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے۔ آنے والے دور میں اس کے کیا اثرات ہوں گے۔ اس پر کچھ بھی عرض کرنا قبل از وقت ہے۔

سب کچھ ایک طرف، مگر جو سیاسی شعور اور آگاہی، نوجوان نسل کو حاصل ہو چکی ہے۔ شاید وہ ملک کی قسمت بدل ڈالے۔ شاید کا لفظ استعمال کر رہا ہوں۔ اس لیے کہ مجھے تو ملک، خوشحالی اور ترقی کے مدار میں داخل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ لیکن یہ سب کچھ نوجوان نسل کے لیے بے معنی ہے۔

ان میں سے اکثریت، اپنے مستقبل کو خود بہتر بنانا چاہتی ہے۔ مگر ملکی نظام ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ ریاست کا سسٹم خاندانی سسٹم میں تبدیل ہوگیا ہے، طاقتور اور متمول خاندانوں نے سسٹم کو یرغمال بناکر عوام کے لیے ترقی کے مواقع چھین لیے ہیں۔

اگر وزیراعظم کے بعد کسی نے اس کی جگہ سنبھالنی ہے تو وہ خاندان سے ہی ہوگا۔ آل شریف، آل زرداری، آل مفتی محمود اور آل ولی خان اس کی واضح مثالیں ہیں۔ نوجوان نسل کو تو شاید گورنر جنرل غلام محمد، اورسکندر مرزا کا نام تک معلوم نہ ہو۔ جنھوں نے اپنے اقتدار کی خاطر ہر وہ سازش کی، جس سے ملک کا شیرازہ بکھرنے کا آغاز ہوا۔ قیامت یہ بھی ہے کہ غلام محمد اور سکندر مرزا تو دنیا سے رخصت ہو گئے۔

مگر ان کی سوچ آج بھی پورے نظام پر حکومت کر رہی ہے۔ اقتدار پر قبضہ کرنے سے لے کر اقتدار سے نکالنا، سب کچھ اب صرف اور صرف سازش کے ذریعے ممکن ہے۔ عام لوگ تو صرف تماشائی ہیں، ویسے ہی جیسے سرکس دیکھنے والے شائقین، ہاتھی کو سائیکل چلاتے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ واہ کیا کمال نظارہ ہے۔ مگر وہ یہ نہیں دیکھ پاتے کہ ہاتھی کو سائیکل مجبوری میں چلانا پڑ رہا ہے۔

اس کے پیچھے ایک بندہ ہنٹر لے کر کھڑا ہوتا ہے۔ بڑے جانور کو سیدھا رکھتا ہے۔ شیر جیسے طاقتور جانور کو آگ کے ہالے میں سے چھلانگ لگانے کے پیچھے بھی ایک سرکس ماسٹر کا ڈنڈا ہوتاہے جو شیر کو چوہا بنا دیتاہے۔

ہمارا ملک بھی ایک سرکس ہے۔ جس میں ڈنڈے کے ڈر سے ایک پہیے کی سائیکل چلا رہا ہے۔ ریچھ، چھوٹی سی ٹرین پر سفر کر رہا ہے، جادوگر منہ سے آگ نکال رہا ہے۔ پتہ نہیں، ہمارے مقدر سے اس سرکس نے کب ختم ہونا ہے۔ شاید کبھی نہیں!

Check Also

Aurat Ki Zindagi Ke Adwar

By Sanober Nazir