Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Rao Manzar Hayat
  3. Baqir Khani

Baqir Khani

باقر خانی

مرزا آغا باقر، بنگال کا مشہور جرنیل تھا۔ اس کے علاوہ مرشد قلی خان دوئم کا داماد بھی تھا۔ مرزا باقر کی وابستگی بنگال کے نواب سراج الدولہ سے بھی بہت قریبی تھی۔ باقر چٹاگانگ میں مقیم تھا۔ اتفاق دیکھیے کہ ایک دن اس کی اتفاقیہ ملاقات خانی بیگم سے ہوئی۔ جس کا تعلق آرام باغ سے تھا۔ بیگم اپنے زمانے کی مشہور ترین رقاصہ تھی۔ اس کی خوبصورتی اور دلکشی کے افسانوی قصے بنگال تو کیا، اودھ اور دہلی تک زبان زد عام تھے۔

مرزا آغا باقر نے صرف ایک بار اس کا رقص دیکھا اور وہیں اپنا دل ہار بیٹھا۔ عشق اور محبت کی یہ داستان چھپی نہیں رہ سکتی تھی۔ پور ے صوبے میں اس کے چرچے ہونے لگے۔ آغا باقر خانی بیگم کے ساتھ شادی کرنا چاہتا تھا۔ دونوں اس نکاح کے لیے تاریخ بھی طے کر چکے تھے۔ قدرت نے اگر محبت اور رنگ کا جذبہ رکھا ہے تو اسی کے برابر حسد، جلن اور انتقام کی آگ کو بھی انسانی ذہن میں برپا کر ڈالا ہے۔ زینول خان بذات خود شہر کا کوتوال تھا اور اس کا والد جہاندار خان دربار میں وزیر تھا۔ یعنی حسب نسب اور دنیاوی معاملات میں آغا باقر اور زینول خان ہم پلہ تھے۔

خانی بیگم کوتوال سے شدید نفرت کرتی تھی۔ زینول کو اس کا بھرپور علم تھا۔ ایک دن خانی بیگم پالکی میں سفر کر رہی تھی تو کوتوال شہر نے اس پر قاتلانہ حملہ کر دیا۔ یہ مکمل اتفاق تھا کہ آغا باقر نے اس حملے کو ناکام بنایا بلکہ زینول کو اپنی تلوار سے زیر کر دیا۔ مگر وہ ایک شریف النفس انسان تھا۔

لہٰذا اس نے کوتوال کو ہرانے کے بعد کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ کوتوال کے دو مصاحب، اس کے والد جہاندار خان وزیر کے پاس پہنچے اور اسے بتایا کہ مرزا آغا باقر نے آپ کے بیٹے کو قتل کروا دیا ہے۔ یہ سن کر جہاندار خان غصے سے پاگل ہوگیا اور اس نے باقر کو گرفتار کرکے ایک شیر کے پنجرے میں نظر بند کر دیا۔ روایت ہے کہ مرزا باقر نے شیر کو مر ڈالا۔ اسی دوران وزیر کو یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اس کا بیٹا یعنی کوتوال شہر زندہ ہے۔ مجبوراً باقر کو آزاد کر دیا گیا۔

مگر بات اب آگے بڑھ گئی۔ زینول اور اس کے والد نے خانی بیگم کو اغوا کیا اور اسے جنوبی بنگال میں منتقل کر دیا۔ آغا باقر اپنے سپاہی لے کر پیچھا کرتا ہوا اس مقام پر پہنچا تو ایک جنگ شروع ہوگئی۔ قدرت کا انتقام دیکھیے کہ جہاندار خان نے اپنے بیٹے زینول کو غلطی سے قتل کر دیا۔ قتل ہونے کے تھوڑی سی مدت پہلے اس نے خانی بیگم کوبھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جنگ ختم ہوئی تو خانی بیگم مر چکی تھی۔ جہاندار خان موقع سے فرار ہو چکا تھا۔ آغا باقر نے، اپنی ہونے والی اہلیہ کو بکلہ چندردوپ میں دفن کیا اور اس کے اوپر ایک خوبصورت مقبرہ تعمیر کروایا۔

اس جگہ کا نام باقر گنج مشہور ہوگیا۔ سانحہ کے بعد آغا باقر اپنے گھر تک محدود ہوگیا۔ اس نے دوستوں سے ملنا جلنا اور باہر نکلنا بالکل موقوف کر دیا۔ کئی کئی دن اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلتا تھا اور شدید تنہائی کا شکار ہو چکا تھا۔ ایک دن ایک دوست اسے ملنے آیا تو مرزا آغا باقر کی خراب صورت حال کو دیکھ کر آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ دیرینہ تعلق کا واسطہ دے کر وہ آغا باقر کو باہر لے کر گیا۔ اور دونوں دوست ایک ایسی جگہ پر بیٹھ گئے جہاں حد درجہ ماہر باورچی کھانا بنا کرامراء کو پیش کرتے تھے۔ باورچی نے نئی ترکیب سے، ایک روٹی بنائی اور اسے آغا باقرکے سامنے پیش کر دیا۔

آغا باقر نے لقمہ لیا تو حکم صادر فرمایا کہ باورچی کو پیش کیا جائے۔ باورچی کانپتا ہوا پیش ہوا۔ پوچھنے لگا کہ حضور یہ روٹی آج میں نے پہلی بار بنائی ہے۔ آپ اس کو چکھنے والے پہلے انسان ہیں۔ اگر کوئی کوتاہی ہوگئی ہو تو مجھے معاف کر دیجیے۔ اس کے جواب میں آغا باقر نے کہا کہ پوری زندگی اس سے لذیز اور خستہ روٹی اس نے کبھی نہیں کھائی۔ روٹی کا نام پوچھا تو باورچی نے کہا کہ حضور کہ آپ ہی وہ شخص ہیں جس نے پہلی بار یہ تناول کی ہے، لہٰذا اس کا نام بھی آپ ہی تجویز کیجیے۔ آغا باقر نے تھوڑی دیر سوچااور روٹی کا نام اپنے اور اپنی دلربا کے نام پر باقر خانی تجویز کر دیا۔

یہ باقر خانی اس قدر لذیز تھی کہ بہت تھوڑے سے عرصے میں یہ پورے ہندوستان میں پھیل گئی۔ یہاں تک کہ غیر ملکی تاجر اسے آرمینیا اور مشرق وسطیٰ تک لے گئے۔ کشمیر، بہار، لکھنو اور حیدر آباد میں اس کو حد درجہ شہرت حاصل ہوئی۔ اور یہ لوگوں کی غذا کا حصہ بن گئی۔

باقر خانی پاکستان میں آج بھی بنائی جاتی ہے اور اس کی لذت خاص مقام رکھتی ہے۔ اس کہانی کو سنانے کا مقصد ایک تو یہ ہے کہ حسن، عشق ایک ایسا لازوال جذبہ ہے جس سے کوئی بھی شخص کسی بھی مقام پر سرشار ہو سکتا ہے۔ یہی وقت اس مخصوص انسان کے لیے جاوداں ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جلن، حسداور ظلم کا وہ غلیظ جذبہ بھی برہنہ ہوتا ہے جو اپنی آگ بجھانے کے لیے انسانی خون کو بہانے میں بھی کوئی عار نہیں سمجھتا۔ کہنے کا مقصدیہ ہے کہ دنیا میں اگر مثبت جذبے موجود ہیں تو اس کے بالکل متضاد منفی ظلم بھی کھل کر سامنے آتے ہیں۔

قدرت کا یہ توازن معاشرے اور قوموں میں ترتیب سے بدلتا رہتا ہے۔ انسان کی ذہنی ساخت اتنی پیچیدہ ہے کہ معلوم نہیں پڑتا کہ کس وقت وہ بربادی کے راستے پر چل پڑے۔ یہ انسانی رویے نا صرف شخصیات کی حد تک موجود ہوتے ہیں بلکہ قومیں بھی اس لپیٹ میں آ جاتی ہیں۔ اب یہ مکمل قسمت ہے کہ آپ کس معاشرے میں پیدا ہوئے اور کس معاشرے میں رہنے پر مجبور ہوئے۔ معمولی سی مثال دینا چاہتا ہوں۔ مغرب کے کسی ملک میں چلے جایئے۔ آپ کو لوگوں کی اکثریت ایک دوسرے پر نظر پڑتے ہوئے مسکراہٹ کا تبادلہ کرتی نظر آئے گی۔ اگر آپ کسی ڈیپارٹمنٹل اسٹور پر کسی بھی اجنبی شخص یا خاتون کے لیے دروازہ کھول دیں تو دس بار آپ کا شکریہ ادا کرے گی۔

اگر گاڑی چلاتے ہوئے آپ ساتھ والی گاڑی کو راستہ دے ڈالیں تو وہ بندہ مسکرا کر شکریہ ضرور ادا کرے گا۔ اس طرح کے بہت واقعات ہیں جو کسی بھی معاشرے کے خوشگوار تاثرقائم کر دیتے ہیں۔ لندن میں کسی پولیس والے سے راستہ پوچھ لیتے ہیں تو وہ تمام کام چھوڑ کر آپ کی مدد کرنے کو تیار ہو جائے گا۔ سینٹرل لندن میں ٹریفک کا اژدہام رہتا ہے مگر ایمبولینس کے لیے تمام ٹریفک بھرپور طریقے سے راستہ فراہم کرتی ہے۔

مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ مغربی دنیا میں اخلاقیات کو حد درجہ اہمیت حاصل ہے۔ انسانوں سے اچھا سلوک تو خیر نظر آتا ہی ہے، مگر جانوروں سے سلوک بھی ازحد بہتر ہے۔ کئی بار دیکھنے کو ملا ہے کہ سڑک پر ہرن اور اس کے بچے خراماں خراماں سڑک کو عبور کرتے نظر آئے۔ تو ہر طرح کی ٹریفک خود بخود رک گئی۔ جب تک ہرنوں کی ڈار نے سڑک کو مکمل طور پر عبور نہیں کر لیا ٹریفک دوبارہ شروع نہیں ہوئی۔ بالکل عام سی باتیں کر رہا ہوں۔ مگر جب اپنے معاشرے پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے اس میں غصہ، کرختگی، ایک دوسرے کے ساتھ بدتمیزی اور جلن کا جذبہ حد درجہ زیادہ نظر آتا ہے۔

مثال دینا بھی بہت ضروری ہے۔ لاہور شہر کی عرض کر رہا ہوں۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ معمولی سے ٹریفک حادثے کے بعد لوگ دیوانوں کی طرح ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے ہوتے ہیں اور کئی بار تو گتھم گتھا نظر آتے ہیں۔ یہاں ہر شخص نے منفی جذبہ اپنی ناک پر رکھا ہوتا ہے۔ تھوڑا سا موقع ملنے پر وہ اس ادنیٰ جذبے کو لوگوں کے سامنے کند تلوار کی طرح فوراً لے کر آتا ہے۔ آپ ہوٹل میں جائیں۔ تو نظر آتا ہے کہ اکثر لوگوں کو ویٹر کو بلانے کی تہذیب نہیں ہے۔ پڑھے لکھے نظر آنے والے لوگ بھی کئی بار بدتمیزی سے ویٹر کو مخاطب کرتے ہیں۔

چھوٹی سی بات پر شکریہ ادا کرنے کا رواج تو شاید ہمارے اندرونی جوہر میں موجود ہی نہیں ہے۔ ہر شخص کرختگی، بدتمیزی اور غصیلی آنکھوں سے دوسروں کو گھورتا نظر آتا ہے۔ عام لوگوں کی بات چھوڑیئے۔ ہمارے سرکاری ملازم، قاضی، سیاسی عمائدین اور مذہبی رہنما بھی ایک دوسرے سے منفی مسابقت میں مصروف کار نظر آتے ہیں۔ عام آدمی سے اچھی طرح بات کرنا تو خیر ہمارے مزاج کا حصہ ہی نہیں ہے۔ یہاں تو عام آدمی سے ہاتھ ملانا بھی گوارہ نہیں کیا جاتا۔

ایسے لگتا ہے کہ ہم میں سے اکثریت زینول خان کوتوال کی طرح ہو چکی ہے جو ہر چیز کو اپنے بازو کی طاقت سے جبراً حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ میں سیاست دان تو وہ کوتوال شہر ہیں جو الیکشن میں جعل سازی کرکے حکمران بن بیٹھتے ہیں۔ مگر صدیوں کے وقت کو کشید کرکے دیکھا جائے تو مرزا باقر اور خانی بیگم کے نام سے منسوب باقر خانی آج بھی زندہ و جاوید ہے۔ مگر اس زمانے کا ظالم کوتوال شہر زینول خان ذلت کی گہرائیوں میں گم ہو چکا ہے۔ دائمی فیصلہ ہمیشہ وقت ہی کرتا ہے۔

Check Also

Lahu Ka Raag

By Mojahid Mirza