وہ جو بیچتے تھے دوائے دل
گفتگو اور تقریر کا فن ان کی جاگیر تھی۔ سحرالبیان۔ سٹیج پر کھڑے ہوتے تو سماں باندھ دیتے، محفل میں گفتگو کرتے تو لوگ ہمہ تن گوش رہتے۔ ساٹھ کی دہائی میں کالجوں میں شعلہ بیان اور تقریر پر قدرت رکھنے والوں کا طوطی بولتا تھا۔ انٹرکالجیٹ مباحثوں کا دور دورہ تھا اور پورا سال اسی دن کا انتظار ہوتا تھا۔ اردو اور پنجابی مباحثوں کے چند قافلہ سالار ہیں کہ جنہوں نے فن خطابت نے کمال حاصل کیا اور پھر اس کمال تک کوئی اور نہ پہنچ سکا۔
اردو میں افتخار فیروز اور تنویر عباس تابش دو نمایاں نام ہیں جبکہ پنجابی میں شاہ صاحب کا طوطی بولتا تھا۔ انکے ساتھ اور بہت لوگ تھے جیسے عاشق کنگ اور گجرات کے غضنفر گل۔ شاہ صاحب، جنہیں میں نے کبھی اس کے علاوہ کسی یا نام لہجے میں نہیں پکارا۔ دوستی میں بلا کا تکلف، رازداری میں وہ حیثیت کہ زندگی بھر کسی اور شخص سے اس قدر کھل کر باتیں نہ کی ہوں، لیکن محبت کا یہ عالم کہ والد صاحب کے بعد زندگی میں کوئی ایک شخص اگر میرے لئے رات کے پچھلے پہر آنسوؤں کے ساتھ اللہ کے حضور گڑگڑایا ہے تو وہ شاہ صاحب تھے۔ سید محمود ضیغم۔ میری زندگی کے لاتعداد رابطوں، تعلقات، رشتوں اور روحانی سفر کی منازل کے مرکزی کردار۔
مجھ پر میٹرک کے بعد الم غلم پڑھنے کے بعد کسی متعدی مرض کی طرح الحاد سوار ہوگیا تھا۔ یوں لگتا تھا قضاوقدر نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اس مرض کو بڑھنے نہیں دینا۔ میری اس کایا کلپ پر سب سے پہلے فکرمند ہونے والی ذات میرے والد گرامی کی تھی۔ میری اس حالت کو دیکھتے، مسکراتے اور پھر فرماتے "تم کہیں نہیں جا سکتے، واپس لوٹو گے"، اور پھر کس اعتماد سے کہتے "میں نے تمہیں درود کی لوریاں دے کر پالا ہے"۔
انکے یہ فقرے میرے سر سے گزر جاتے لیکن آج محسوس کرتا ہوں میرے والد کی دعاوں کی بدولت اللہ نے قدم قدم پر الحاد کی سمت میرا راستہ روکنے کے لیے لوگ کھڑے کر دیے تھے۔ شاہ صاحب ان سب افراد کے درمیان ایک بنیادی کڑی تھے۔ گجرات کے مرحوم آفتاب مفتی کا ڈیرہ وہ جگہ تھی جہاں کیمونسٹ تحریک کی ذہنی آبیاری ہوتی تھی۔ اکبر علی کمیونزم کا درس دیتے اور ساتھ ساتھ الحاد، مذہب دشمنی اور مادہ پرستی پر نوجوانوں کا یقین پختہ کرتے۔
آفتاب مفتی تازیانہ رسالہ نکالتے تھے اور ان کی دوستی شاہ صاحب سے بہت گہری تھی جو جماعت اسلامی کے ہفت روزہ الحدید کے ایڈیٹر تھے۔ جماعت اسلامی اور الحدید کا دفتر ہمارے محلے منتقل ہوا تو شاہ صاحب کا دفتر مفت چائے پینے والوں کا ایک ٹھکانہ بن گیا۔ میں مفتی آفتاب اور ایک دو اور کیمونسٹ ملحدین اس دفتر کے مستقل مہمان ہو گئے۔ سارا وقت بحث چلتی، جوش جذبات میں پتہ نہیں کیا کچھ منہ سے نکل جاتا اور شاہ صاحب قرون اولی کے کسی صوفی بزرگ کی طرح مسکراتے رہتے۔ نوجوان، کلین شیو، جماعت اسلامی کی شدت پسندی کے امین، لیکن سر سے پاؤں تک ایک صوفی۔
مجھے اس وقت تو یہ راز نہ کھلا کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے، لیکن وقت کی منزلیں طے کرتا آج جب بڑھاپے کے اس عالم میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو یوں لگتا ہے کہ شاہ صاحب کو شاید اس وقت اس بات کا اندازہ تھا یا نہیں لیکن بعد کے انکے رویے اور میرے ساتھ ایک تسلسل نے انہیں تو یقینا اور مجھ جیسے لاعلم شخص کو بھی یہ محسوس کرا دیا تھا کہ وہ کسی تکوینی نظام سے جڑے ہوئے ہیں اور ان کی مجھ پر ڈیوٹی ہے۔
شاہ صاحب کے دفتر میں ہی میری ملاقات شیخ ظہور احمد سے ہوئی۔ مجھے فلسفے اور جدلیات کی بحثوں میں الجھا ہوا دیکھا تو مولانا مودودی کی کتاب "تنقیحات" تھما دی اور خاص طور پر ان کا مضمون "عقلیت کا فریب" تھوڑے تعارف کے بعد پڑھنے کو کہا۔ اب میں ان کے جال میں آ چکا تھا۔ میری کم نظری اور علم کی سطحیت مجھ پر واضح ہوتی جا رہی تھی۔ وہی الحدید کا دفتر تھا جہاں چائے کے پیالے پر کبھی طوفان کھڑا ہو جاتا تھا، اب میں ایک بے دام اسیر کی طرح اسلام کی اس روشنی کا متلاشی بن چکا تھا جو ذہنوں سے عقلیت کے فریب زدہ جالے اتار دیتی ہے۔ اسکے بعد شاہ صاحب اپنی دھن میں مگن ہو گئے اور میں لاہور پڑھنے کے لئے آ گیا۔
پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد میں مارچ 1980ء میں سیدھا بلوچستان یونیورسٹی میں لیکچرر ہوگیا اور کوئٹہ کو مسکن بنا لیا۔ 1984ء میں سول سروس کا امتحان پاس کیا، سندھ پوسٹنگ ہوئی لیکن بلوچستان ایسا پسند آیا کہ درخواست دے کر تبادلہ کروایا۔ شادی، نوکری، بچے، زندگی، مصروفیت، یوں گم ہوا کہ ان دوران بیس سال تک شاہ صاحب سے کوئی رابطہ نہ ہو سکا۔ 1975ء میں گجرات چھوڑا تھا اور پھر ایک دن 1995ء میں شاہ صاحب اچانک نمودار ہوگئے۔ میں سبی میں ڈپٹی کمشنر تھا۔ یہ سول سروس کا وہ وقت ہوتا ہے جب ظاہری کروفر، اختیارات، سرمایہ کی ناجائز دستک، غرض بگاڑ کا سارا سامان موجود ہوتا ہے۔ اس سارے سازوسامان کے ساتھ دنیا کا ایک اور رنگین روپ بھی میرے بگاڑ کے لیے کافی تھا۔
میں شاعری کرتا اور ٹیلی ویژن پر ڈرامے لکھتا تھا۔ رنگ، روشنی اور شوبز کی چکاچوند جب سول سروس کے اختیارات سے باہم گلے ملتی ہے تو اس شیطانی شکنجے سے آدمی نکل نہیں پاتا۔ شاہ صاحب تو عین اس وقت وہاں آن ٹپکے تھے جب امریکی حکومت نے مجھے سرکاری طور پر امریکہ کی درجن بھر ریاستوں کے مطالعاتی دورے پر بلایا تھا۔ یہ وہی پروگرام ہے جس کے تحت گورنر جنرل غلام محمد اور صدر غلام اسحاق خان امریکہ یاترا کرکے آئے تھے۔ انہیں دنوں بنارس سے ہندو پنڈتوں سے ستاروں کا علم، زائچوں کی دنیا کا احوال اور بے شمار چمتکار حاصل کرکے میرا ایک دوست میرے پاس ہی آ کر ٹھہرا ہوا تھا۔ ہر روز نیا چمتکار ہوتا اور میں ایک اور دنیا کی طرف راغب ہونے لگتا۔ ایسے میں شاہ صاحب کی اچانک آمد میری زندگی کا رخ بدلنے اور واپس اسی پٹری پر مستحکم کرنے کے لیے تھی۔ لیکن اب کی بار شاہ صاحب کا ہتھیار کتاب یا صاحب کتاب لوگ نہ تھے۔
مجھے مقابلے کے لئے ایک مسلسل روحانی قوت کی ضرورت تھی اور دعا کو ہاتھ چاہئے تھے۔ کسی اہل نظر کی نگاہ کامل ہی میرے حالات درست رکھ سکتی تھی۔ امریکہ یاترا ہوئی اور پتہ نہیں اللہ نے کیسے مجھے انکار کی جرأت بخشی کہ مجھے تو یہاں تک کہہ دیا گیا تھا کہ امریکہ تمہارا گھر ہے۔ لیکن میں سب ترک کرکے وطن واپس آگیا۔ چالیس سال کی عمر میں ایک شخص جس روحانی روشنی کی تلاش میں ہوتا ہے، شاہ صاحب نے انگلی پکڑ کر عین مجھے اس مرشد کے دروازے پر جا پہنچایا کہ مجھے ایسے لگا کہ جیسے وہ مدتوں سے میرے انتظار میں تھے۔ اس کے بعد سے اب تک کا سفر میرے لیے بہت آسان ہوگیا تھا۔
کوئی سوچ سکتا ہے کہ میں سول سروس میں بھی رہوں اور حکومتِ وقت پر شدید تنقید والی کالم نگاری بھی کروں۔ ٹیلی ویژن پر گفتگو بھی کروں اور نوکری کے مدارج بھی طے کرتا رہوں۔ اس ساری کشمکش میں میرا اللہ مجھے محفوظ کرتا چلا جائے۔ شاہ صاحب کے دوبارہ زندگی میں آنے کے تین سال بعد میرے والد اللہ کے حضور جا پہنچے، لیکن ایک لمحے کے لیے بھی مجھے محسوس تک نہ ہوسکا کہ میں کسی مسلسل دعاگو سے محروم ہوگیا ہوں۔
میرے لیے راتوں کو جاگ کر دعا کرنا اور میرے حال سے مسلسل واقف رہنا انکا خاصا تھا۔ انکے ساتھ اڑتالیس سال کا ساتھ ہے۔ کونسی مشکل ہے کہ جہاں شاہ صاحب اچانک کہیں سے مدد کو نہ آن پہنچے ہوں۔ ایران میں جب پرویز مشرف کے خلاف گفتگو کرنے پر مجھے واپس بلایا جا رہا تھا تو پتہ نہیں شاہ صاحب کو ایران کے سفر کا خیال کیسے آگیا اور میری واپسی سے لے کر پاکستان کی انکوائریوں تک ہر لمحہ وہ میرے ساتھ کھڑے رہے۔
زندگی ایک ایسے برگد سے محروم ہوگئی ہے کہ جس کے سائے تلے گذشتہ تین دہائیوں سے سکون ملتا تھا۔ رات دیر تک جس شخص کی صحبت میں وقت گزرتا، جس سے ملنے، بات کرنے بلکہ اسے دیکھنے تک کی ایک تڑپ دل میں ہر وقت موجود رہتی۔ ایسا شخص اگر اچانک چلا جاتا تو شاید میں برداشت نہ کر پاتا۔ اللہ نے میرے جیسے کمزور شخص کے لیے عجیب و غریب بندوبست کیا تھا۔ شاہ صاحب ایک سال پہلے گلے کے سرطان کا شکار ہوئے۔ آپریشن کے بعد قوت گویائی جاتی رہی۔ مسکراہٹ اور محبت برقرار رہی مگر انکی سحرالبیانی سے ہم محروم ہوگئے۔ آپریشن ایسا تھا کہ پھر زخم نہ بھر سکا۔
آخری دو ماہ بس نڈھال سے ہوگئے۔ چند لمحوں کے لیے آنکھیں کھولتے اور خاموش ہوجاتے لیکن انکا چہرہ دیکھ کر ہمیں تسلی ہو جاتی۔ اپنے درمیان انکی موجودگی کا احساس قائم رہتا اس لیے کہ اس چہرے کی مسکراہٹ نے ساری زندگی دکھوں میں ساتھ دیا تھا، زخم پر مرہم رکھی تھی۔ زندگی کا المیہ ہے کہ جس کی دعاؤں کی چھاؤں میں زندگی گزرتی ہے ایک دن اس کے لیے دعا کو ہاتھ اٹھانا پڑ جاتے ہیں۔