’’ٹوٹ بٹوٹ‘‘ سے ’’انکل سرگم‘‘ تک
ہم دونوں ایک دوسرے کے لیئے اجنبی نہیں تھے، لیکن مدتوں ملاقات نہ ہو سکی تھی۔ وہ میرے لیئے بچپن ہی سے اس جادوگر کی طرح تھا، جس کی پٹاری میں موجود لاتعداد کردار باہر آکر رقص کرنے لگتے تھے۔ یہ رقص ایک ایسی زندگی تھا، جس نے اس ملک کے کروڑوں بچوں کو اپنا دیوانہ بنا رکھا تھا۔ لیکن اس کے کردار جب گفتگو کرتے تو وہ ایسی باتیں کہہ جایا کرتے، جو بڑے بڑے فصیح البیان مقرروں، اور جان ہتھیلی پر رکھے ہوئے انقلابیوں کے منہ سے بھی ادا نہ ہوپاتیں۔ پھر ایک دن اچانک ایسا ہوا کہ وہ میرے دوست کالم نگار جاوید چوہدری کے ہمراہ کوئٹہ میں میرے گھر آنکلا۔ عالم حیرت میں ڈوبے ہوئے میں نے آنکھیں ملیں اور اس سے اتنا ہی کہہ سکا "اوہ انکل سرگم" اور پھر یوں لگا جیسے ہم سالوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔ وہ ایسے لوگوں میں سے تھاجس سے تعلق، زمان و مکاں کی گنتی سے ماورا ہوتا ہے۔ اس سے دوستی ہوگئی، تو یوں لگتا تھا جیسے ہماری زندگی میں کبھی کوئی ایسا لمحہ آیا ہی نہیں تھاجب ہم ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے۔
اس ملک میں انکل سرگم اور ضیاء الحق دونوں کے طلوع کا ایک ہی سال ہے۔ جبر کی گرمی میں ٹھنڈی ہوا ساتھ چل رہی ہو تو وہ حدّت کو کم کر دیتی ہے۔ فاروق قیصر نے انکل سرگم اوراپنے دیگر کرداروں، ماسی مصیبتے، رولا، ہبیگا، شرمیلی اور گورا صاحب سے اس دور میں وہ کچھ کہلوایا، جو عام سنجیدہ گفتگو میں ممکن ہی نہیں تھا۔ دنیا بھر میں ادب کی تاریخ مرتب کرنے والے اس بات پر متفق ہیں کہ بہترین ادب ہمیشہ جبر کے موسموں میں ہی تخلیق ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر پاکستان ٹیلی ویژن کی تاریخ سے ضیاء الحق کے دور کو نکال دیا جائے تو حسینہ معین، بانو قدسیہ، اشفاق احمد، امجد اسلام امجد، نور الہدیٰ شاہ، انور مقصود، عبد القادر جونیجو، فاطمہ ثریا بجیا اور ایسے کئی لازوال لکھنے والوں کا سراغ تک نہیں ملے گا۔ لیکن میری فاروق قیصر سے محبت اور عقیدت کی وجہ ان سب سے مختلف تھی۔ میرے لیئے وہ اردو ادب کے ان چند محسنوں میں سے ایک تھا جو بچوں کے لیئے کردار تخلیق کرتے رہے ہیں۔ وہ قومیں کبھی ترقی نہیں کر پاتیں جو اپنے بچوں کے لیئے لکھنے والوں سے محروم ہوتی ہیں۔ زمیندار ڈگری کالج گجرات میں میرے انگریزی ادب کے استاد حامد حسن سید، بلا کے عالم تھے۔
ہماری گریجویشن کی انگریزی ادب کی کتاب میں ایک مشہور ادیب چارلس لیمب (Charles Lamb)کا ایک مضمون "Dream children"تھا جو اس تصور پر لکھا گیا تھا کہ بچے اپنے بزرگوں کی ایسی کہانیاں سننا چاہتے ہیں جو ان بزرگوں کے بچپن سے متعلق ہوں۔ اس مضمون کو پڑھانے سے پہلے حامد حسن سید نے بڑے دبدبے سے کہا "If you dont love Charles Lamb; I will hate you" (اگر تم چارلس لیمب سے محبت نہیں کرو گے تو میں تم سے نفرت کروں گا)۔ اتنا بڑا فقرہ اور ایک ایسے استاد کے منہ سے جو سراپا محبت تھا۔ چارلس لیمب سے محبت کرنے کی وجہ سید صاحب نے جو بتائی وہ یہ تھی کہ لیمب نے شیکسپئر کے وہ کلاسیک ڈرامے جو عالمی ادب کا سرمایہ اور انگریزی ادب کا جھومر ہیں، انہیں بچوں کے لیئے آسان زبان میں تحریرکیا۔ اس کی یہ کتاب 1807ء میں شائع ہوئی۔ ایسا کرتے ہوئے اس نے ڈراموں کے کرداروں کی عظمت، کہانی کی ڈرامائی پراسراریت اور زبان و بیان، ان سب کو تو خوبصورت آسان انداز میں منتقل کیا، لیکن بچوں کی اخلاقی تربیت کا چارلس لیمب کو اسقدر خیال تھا اور اس کے ذہن میں اس کی اہمیت اس قدر تھی کہ اس نے ان ڈراموں کے جنس زدہ حصوں کو بیان تک نہیں کیا۔ انگریزی ادب کا یہ وہ کارنامہ ہے، جس نے بچوں کے لیئے لکھنے کی ایک عظیم روایت کو جنم دیا۔ دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں بچوں کو ادب، فلم، تھیٹر، ڈرامہ، کارٹون، پتلی تماشہ اور شاعری سے کبھی علیحدہ نہیں کیا گیا۔ ان کے لیئے ہر کسی نے لکھا۔ دنیا کے ہر بڑے ادیب نے اس عظیم ذمہ داری کو ضرور نبھایا ہے۔ اقبال جیسا فلسفی شاعر بھی اپنی پہلی کتاب بانگِ درا کے آغاز میں ہی بچوں کی انگلی پکڑ کر لاتعداد نظمیں سناتا ہوا نظر آتا ہے۔
کسقدر حیرت کی بات ہے کہ برصغیر پاک و ہند کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں بچوں کے لیئے کتب لکھنے کی ابتداء سیکولر لبرل حضرات کے معتوب، بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں ہوئی اور وہ چار کتب "خالقِ باری"، "ایزدِباری"، "اللہ باری" اور "صفتِ باری"اردو ادب میں بچوں کے ادب کی پہلی کتابوں میں سے ہیں۔ اورنگ زیب عالمگیر کے بعد کئی سو سال طویل خاموشی رہی اور پھرمحمد حسین آزاد، الطاف حسین حالی اور اسماعیل میرٹھی کی صورت میں ابھرنے والے گروہ نے بچوں سے محبت کرتے ہوئے ان کے لیے نظمیں تحریر کیں جو مدتوں نصابی کتب میں پڑھائی جاتی رہیں اور سر اور تال سے گائی بھی جاتی رہیں۔ لیکن بچوں کے لیئے کسی انوکھے کردار کی تخلیق اور پھر اسے بچوں کی زندگیوں کا حصہ بنانا یہ صرف اور صرف ایک شخصیت کے کمالِ فن کا نتیجہ تھا اور وہ تھے جناب "صوفی غلام مصطفیٰ تبسم"جنہوں نے "ٹوٹ بٹوٹ" کے کردار کو تخلیق کیا اور اس کے حوالے سے ایسی لازوال نظمیں لکھیں جو بچوں کی زندگیوں کا حصہ بن گئیں۔"ٹوٹ بٹوٹ" ایک جیتا جاگتا کردار تھا جو ہر بچے کے خوابوں، تخیل اور تصورات میں اپنی صورتیں بناتا رہتا تھا۔ ہر بچے کا اپنا ایک "ٹوٹ بٹوٹ" تھا جسے اس کے تصور نے تخلیق کیا ہوتا تھا۔ خود صوفی تبسم کے بقول یہ ان کے دوست عبد الخالق کا بیٹا تھا جو عموماً عجیب و غریب حرکتیں کرتارہتا، جس سے اس کردارنے جنم لیا۔ فاروق قیصر نے "انکل سرگم" کا کردار بھی رومانیہ میں گرافک آرٹ کے اپنے استاد موہن لعل کو دیکھ کرتخلیق کیا تھا۔ بڑے ادیب، فنکار، اور تخلیق کار کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے بنائے ہوئے کردار کو ایسی اعلی سطحی تنوع اور تخلیق کی ایسی بے شمار جہتوں سے آراستہ کرتا رہتا ہے کہ وہ ہر لمحہ ایک نئے روپ میں جلوہ گر ہوتے رہتے ہیں۔ فاروق قیصر نے بھی ایک عظیم تخلیق کارکی طرح انکل سرگم کے گرد کرداروں کی ایک ایسی کہکشاں آباد کر دی تھی کہ جس نے پاکستان میں پتلیوں کی سب سے بڑی برادری کو جنم دیا۔
فاروق قیصر ہی وہ تخلیق کار تھا جو صوفی تبسم کے ٹوٹ بٹوٹ کے تصوراتی اور خیالی خاکے کی عملی تصویر بنا سکتا تھااور یہ میری بہت بڑی خواہش بھی تھی۔ اس سے آخری ملاقات اسلام آباد ائیر پورٹ پر ہوئی، وہ ٹینا ثانی کے ہمراہ کراچی جا رہا تھا۔ میں نے اس سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ، اگر تم ٹوٹ بٹوٹ کو انکل سرگم کی طرح "مجسم" کردو تو یہ بہت بڑا کام ہوگا۔ ایک دم بولا میں نے صوفی صاحب سے ٹوٹ بٹوٹ کے تصور کے بارے پوچھا تھا، اور انہوں نے ایک کاغذ پر ٹوٹ بٹوٹ کی تصویر بنا کر بھی مجھے دی تھے جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ مجھے بہت پہلے ایسا کرنا چاہیے تھا، لیکن مجھے "انکل سرگم" نے مصروف ہی بہت رکھا۔ کہنے لگا اگر میں ٹوٹ بٹوٹ کا پتلی کردار تخلیق کرتا تو ایسے کرنے میں صوفی صاحب کی وہ بے شمار نظمیں رہنما بن جاتیں جو انہوں نے ٹوٹ بٹوٹ سے متعلق لکھی ہیں۔ جہاز لیٹ ہو رہا تھا، ہمارا قیام اس لاؤنج میں بڑھتا چلا گیا۔ ہم دونوں نے بچوں کے لیئے تخلیقی ادب کی کمیابی پر مسلسل کئی گھنٹے ماتم کرنے میں گزار دیئے اور پھر اسکی فلائٹ کا بلاوا آگیا۔ اس نے دستی سامان ہاتھ میں پکڑا، مجھ سے گلے ملا اور روانہ ہو گیا۔ آج وہ اس دنیا کے ٹرانزٹ لاؤنج سے بھی رخصت ہو گیا، لیکن اس دفعہ وہ اپنا دستی سامان یہیں چھوڑ گیاہے۔ اس کے دستی سامان میں انکل سرگم، ہیگا اور ماسی مصیبتے جیسے کرداروں کے علاوہ اس کی شاعری کی کتابیں، میرے پیارے اللہ میاں، ہورپچھو، گالم گلوچ اور میٹھے کریلے بھی موجود ہیں۔ جانیوالے کا یہ دستی سامان بتا رہا ہے کہ اس کے بعد آنے والوں کے پاس چھوڑ جانے لیئے اتنا سامان بھی موجود نہیں ہے۔