طالبان دورِ حکومت: حقائق (3)
دنیا بھر کے اخبارات جس طرح مسلسل طالبان حکومت کے خلاف لکھتے رہے، اسقدر زہرناک جھوٹ توسرد جنگ کے دوران سوویت یونین کے خلاف بھی نہیں لکھا گیا۔ اسی جھوٹ کو پاکستان کا دانشور اور صحافی، حقیقت سمجھ کر اپنی رپورٹوں اور اپنے کالموں میں آج تک استعمال کرتا چلا آ رہا ہے۔ اس جھوٹ میں طالبان پر سب سے بڑا الزام یہ لگایا جاتا تھا کہ انکی حکومت ایک وسیع البنیاد حکومت نہیں ہے۔ یہ صرف قندھار سے اٹھنے والے سر پھرے پشتون طالبان ہیں جن کے ساتھ صرف پشتون ہیں اور وہ بھی صرف سنی مسلک سے تعلق رکھنے والے۔
یہ اعتراض اس جنگ زدہ افغانستان کے بارے میں اٹھایا جاتا ہے جس میں تاجک، ازبک اور ہزارہ مل کر طالبان دور حکومت میں ان سے مسلسل جنگ کر رہے تھے۔ جنگ بھی ایسی کہ جس میں امریکہ، بھارت اور ایران کی صرف مالی اور اسلحہ کی امداد ہی شامل نہ تھی بلکہ جب مزار شریف پر طالبان نے قبضہ کیا تو وہاں گیارہ ایرانی پاسداران بھی مارے گئے تھے جن کے بارے میں ایران نے دعویٰ کیا کہ یہ اس کے سفارتکار تھے۔
یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ کل اگر مظفرآباد میں گیارہ بھارتی مارے جائیں اور بھارت یہ دعویٰ کرے کہ وہ دراصل ہمارے سفارت کار تھے۔ اسی واقعہ کے بعد ایران نے ہرات کے بارڈر پر فوج لاکر کھڑی کر دی تھی اور سفارتکاروں کا انتقام لینے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں تھیں۔ ان حالات میں ملا محمد عمر مجاہد نے ایک تاریخی فقرہ کہا تھا جو آج بھی ایک حقیقت کے طور پر روشن ہے کہ " افغانستان ایک گوند کا تالاب ہے جو اس میں آیا واپس نہیں گیا"۔
اس کے بعد ایران مذاکرات کی میز پر آیا تھا اور انتقام لینے کے بجائے صرف ایرانی پاسداران کی لاشوں کی حوالگی پر مذاکرات ختم ہو گئے تھے۔ ایسے ماحول میں دنیا طالبان سے یہ توقع رکھتی تھی کہ وہ ایک وسیع البنیاد حکومت قائم کریں گے۔ لیکن اس کے باوجود طالبان نے جس طرح اقلیتی گروہوں کے افراد اور دیگر مسالک کے لوگوں کو حکومت میں شامل کیا، اس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔
کابل کی مرکزی حکومت میں منصوبہ بندی، تعلیم اور سماجی بہبود کی وزارتیں بدخشانی فارسی خوان اقلیت کے ہاتھ میں تھیں۔ پشتون علاقوں میں فارسی بولنے والے گورنر لگانے کا تصور تو کبھی تاریخ میں بھی نہیں تھا، لیکن طالبان نے پشتون اکثریتی صوبہ پکتیا کے صوبے کا گورنر ایک فارسی خوان کو لگایا۔ اسی اقلیت کے زیرِ کنٹرول فوج کی ایک انفنٹری ڈویژن تھی جس میں شیعہ مسلک کے سپاہیوں کی اکثریت تھی اور وہ طالبان دور حکومت میں سنیوں کیساتھ مل کر ان افغان گروہوں سے لڑتے تھے جنہیں بیرونی ممالک کی مدد حاصل تھی۔ طالبان کے خلاف یہ پراپیگنڈہ مغربی اخباروں اور بھارت اور ایران کے پریس میں ہوتا تھا۔
طالبان حکومت کے بارے میں عموماََیہ تاثر دیا جاتا ہے جیسے یہ چند "مُلّا" تھے جنہوں نے وہاں بزور قوت مخالف جہادی گروہوں کی آپس کی لڑائی ختم کروا کے امن تو قائم کر دیا تھا، لیکن یہ "جاہل طالبان" جدید طرزِ حکمرانی سے بالکل نابلد اور ناآشنا تھے۔ انہیں جدید دور کے ریاستی امور سے کوئی سروکار نہ تھا۔ ایک پسماندہ ملک ان کے حوالے ہوگیا تھا اور انہوں نے ویسے ہی رہنے دیابس چپ چاپ مساجد میں درس دیتے رہے۔ اس سے زیادہ جھوٹا اور بے بنیاد پروپیگنڈہ نہیں ہوسکتا۔
طالبان نے حکومت میں آتے ہی سب سے پہلا اقدام یہ کیا کہ انہوں نے پورے افغانستان کو ٹیکس فری قرار دے دیا۔ اس سے پہلے افغان قوم نہ صرف حکومتی ٹیکس، بلکہ بھتہ خوروں کے شکنجے میں بھی تھی۔ صرف زکوٰۃ اور عشر دو ٹیکس وصول کیے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ مدتوں سے عائد کسٹم ڈیوٹی (گرمک) تک ختم کر دی گئی تھی۔ تمام افغان جہادی گروہوں اور قبائلی سربراہوں کا ایک مستقل ذریعہ آمدنی منشیات، خصوصا پوست کی کاشت تھی، جس کی آمدن کو جہاد کے لیے استعمال کرنے کے لئے فتوے بھی دئیے جاتے تھے۔
اس وقت افغانستان میں یورپ کے بڑے بڑے تاجر اور، نائجیریا، ایتھوپیا، صومالیہ اور سوڈان کے چھوٹے چھوٹے بیشمار اسمگلر موجود تھے اور یہ کاروبار زوروں پر تھا جس کی وجہ سے افغانستان میں گندم کی جگہ پوست کاشت ہوتی تھی۔ طالبان نے صرف ایک حکم نامہ جاری کیا اور دنیا نے تسلیم کیا کہ افغانستان جو دنیا میں نوّے فیصد افیون سپلائی کرتا تھا، وہاں اس کا بازار مکمل طور پر بند ہوگیا۔
طالبان کو کھیلوں کا دشمن بنا کر پیش کیا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے "بزکشی" جیسے خونی کھیل پر پابندی لگائی تھی اوراسے افغان روایات پر حملہ تصور کیا گیا۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے سپین میں بل فائٹنگ پر پابندی لگائی گئی تھی۔ طالبان کے زمانے میں فٹ بال کے کھیل کو بہت عروج ملا۔ اس پر بھی یار لوگوں نے یہ کہہ کر تمسخر اڑایا کہ طالبان کسی کو نیکر پہن کر فٹ بال کھیلنے نہیں دیتے۔ ڈریس کوڈ کسی قوم کا طرّہ امتیاز ہوتا ہے۔
یہ اعتراض وہ متعصب لوگ لگاتے ہیں جن کے گالف کورٹ میں کوئی کھلاڑی جسم پر پورے کپڑے تو دور کی بات ہے ننگے پاؤں بھی نہیں گھس سکتا۔ جب تک وہ مخصوص جوتے اور لباس نہ پہنے اس کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے۔ یہی قانون پولو کے کھیل میں گھڑسواروں پر لاگو ہوتا ہے۔ لیکن دنیا میں مضحکہ صرف طالبان کا اڑایا جاتا ہے کہ انہوں نے فٹبال کیلئے پوری ٹانگوں کو ڈھکنے کی شرائط عائد کر دی تھی۔ اسی مضحکہ خیز گفتگو کا مقصد صرف طالبان کا سخت، درشت اور غیر مہذب چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرنا مقصود تھا۔ صحت کا شعبہ ایسا تھا جسے پندرہ سالہ جنگ نے بالکل اجاڑ کر رکھ دیا تھا۔ پورے ملک میں نہ ہسپتال تھے اور نہ ڈاکٹرز۔
کابل یونیورسٹی کا میڈیکل کالج سالوں سے بند تھا، جیسے کھولا گیا۔ اس کے ساتھ خواتین لیڈی ڈاکٹرز کی تعلیم کے لیے علیحدہ میڈیکل کالج قائم کیا گیا جسے پاکستانی ڈاکٹرز نے قائم کیا۔ ہر ضلع یا اولسوال میں ایک مستشفیٰ (چھوٹا ہسپتال) قائم کیا گیا جو دراصل جنگ زدہ اجڑی عمارتوں کی تعمیر نو سے ممکن ہوا۔ زراعت کے معاملے میں اسلام کیاس بنیادی اصول کو مد نظر رکھا گیا کہ پانی کا معاوضہ نہیں لیا جائے گا۔ امن آیا تو وہ افغان کارکن جو ٹیوب ویل کھودنے میں شاندارمہارت رکھتے تھے، جنہوں نے پاکستان میں ہجرت کے دوران کراچی سے کوئٹہ اور ژہوب تک بلوچستان کی سرزمین اسی فن سے سرسبز و شاداب بنا دی تھی، یہ لوگ واپس گئے تو انہوں نیجا بجا اپنی مہارت سے ہزاروں ٹیوب ویل کھودے۔
پوست کی کاشت ختم ہوئی تو کھیتوں میں گندم اگنے لگی اور افغانستان اپنی تاریخ میں پہلی دفعہ گندم میں خودکفیل ہوا۔ پاکستانی سمگلروں کا کاروبار بند ہوا۔ سپن بولاک سے قندھار تک کا پورا راستہ شاید ہی کسی نے اسقدر سرسبز دیکھا ہو۔ ننگر بار میں کامہ ڈیم، ہرات میں سلمیٰ ڈیم، لوگر کا چراغ والسوالی ڈیم اور مولانا زیارت ڈیم، سروبی ڈیم، امن وامان نہ ہونے کی وجہ سے تباہ حال تھے۔
تقریبا بیس سال بعد نہروں اور کاریزات کی صفائی کروائی گئی اور آبپاشی کا نظام درست کیا۔ افغانستان میں پاکستان سے کھاد کی اسمگلنگ ایک بہت بڑا کاروبار تھا یہی وجہ ہے کہ مزار شریف کا کھاد کا کارخانہ پاکستان اسٹیل مل کی طرح صرف 700 تھیلے روزانہ بناتا تھا جب کہ اس کی اہلیت 4000 تھیلے تھی۔ یہی کارخانہ اب استعداد سے زیادہ یعنی پانچ ہزار تھیلے روزانہ بنا رہا تھا۔ دریائے ہلمند وہ خوبصورت دریا ہے جس کے اردگرد وسیع بے آباد علاقہ ہے۔ دور دراز ہونے اور ایران پاکستان بارڈر کی وجہ سے اس پر کبھی کوئی توجہ نہ دی گئی۔ اس پر کبھی کوئی آبپاشی نہیں ہوئی تھی۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس دریا سے دس کلومیٹر لمبی نہر طالبان نے کدال اور بیلچے سے کھود کر علاقے کو سرسبز کیا۔ آبی ذخائر کی بدحالی اور جنگ کے ماحول کی وجہ سے ان سے بجلی بھی حاصل نہیں کی جا رہی تھی۔ امن آیا تو طالبان نے نفلوڈیم، ماہبیر ڈیم، کجلی ڈیم، کامہ ڈیم اور ایسے کم از کم بارہ ڈیموں کو مرمت کیا۔ نہریں جاری کیں اور نفلو ڈیم سے 100 میگاواٹ، سروبی سے 30 میگاواٹ اور ماہبیر سے 80 میگاواٹ بجلی حاصل کرنا شروع کی اور یوں کابل اور جلال آباد کے شہر اور علاقے جو حکمت یار اور احمد شاہ مسعود کی خانہ جنگی کی وجہ سے تاریکی میں ڈوبے رہتے تھے، روشن ہو گئے۔
جاری ہے۔۔