طالبان دورِ حکومت: حقائق (1)
اس قدر تعصب، اس قدر بغض اور نفرت۔۔ یوں لگتا ہے جیسے ہی طالبان نے بے سروسامانی کے عالم میں اللہ پر توکل رکھتے ہوئے، اسی افغان سرزمین پر ایک اور عالمی طاقت" امریکہ" کو شکست کیا دی ہے، یار لوگوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ دنیا کے تمام ظالموں، قاتلوں، فرعونوں کے مظالم ایک ساتھ جمع کرکے ان کی تمام سیاہی طالبان کے چہرے پر مل دیں اور انہیں چنگیز خان، ہلاکو اور نادرشاہ سے بھی زیادہ ظالم بنا کر پیش کریں۔
گذشتہ ڈیڑھ سو سالہ صحافت اور دانشوری کی تاریخ میں ایسا رویہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ انسانی تاریخ میں ایک بہت بڑا اور حیران کن واقعہ ہوا ہے، جنگوں کی تاریخ بھی ایسے کسی واقعہ کی مثال پیش نہیں کرتی کہ پوری دنیا کے دو سو ممالک اور چھ ارب سے زیادہ انسان ایک جانب ہوں اور صرف پچاس ہزار طالبان دوسری جانب اور میرا اللہ کامیابی اور نصرت کا تاج پچاس ہزار فرزندانِ اسلام کے سروں پر سجا دے۔ لیکن دلوں میں جلن اور کڑھن کا عالم ویسے ہی خوف کی پیداوار ہے جسکا ذکر علامہ اقبال نے اپنی نظم ابلیس کی مجلس شوریٰ کے آخری حصے میں ابلیس کے خوف کی صورت بیان کیا ہے:
عصر حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں
الحذر آئین پیغمبر سے سو بار الحذرحافظِ ناموسِ زن، مرد آزما، مردِ آفریں جھوٹ کی فیکٹری جو 1995ء میں طالبان کے افغانستان میں برسراقتدار آنے کے بعد لگائی گئی تھی، آج اسی فیکٹری کی شائع شدہ تحریروں اور بنائی گئی ویڈیوز اور حقائق سے دُور تراشے گئے طالبان کے تصور کو دوبارہ مزید خوفناک بنا کر پیش کیاجارہا ہے۔ عالمی میڈیا کو تو احساس ہو چکا ہے اور امریکہ اور مغربی دنیا میں توایسی آوازیں اب شدت سے بلند ہونا شروع ہوگئیں ہیں کہ "بند کرو یہ بکواس اورختم کرو یہ جھوٹ کا کاروبار، تمہیں ایک ہزار ارب ڈالر ضائع کرنے، ہزاروں سپاہیوں کی لاشیں اٹھانے، لاکھوں انسانوں کو مستقل جسمانی معذور کروانے اور کئی لاکھ سپاہیوں کو ذہنی معذوری کا شکار کروانے کے باوجود بھی اگر عقل نہیں آئی تو کب آئے گی"۔
یہ الفاظ امریکہ کے اٹہتر سالہ عالمی صحافی ایرک مارگولس (Eric Margolis) کے ہیں، جس کے مضامین اہم امریکی اخبارات کے علاوہ لاتعداد دوسرے ممالک میں بھی شائع ہوتے ہیں جن میں پاکستانی روزنامہ ڈان بھی شامل ہے۔ وہ مستقل طور پر امریکہ اور برطانیہ کے ٹاک شوز میں مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے ماہر کے طور پر بلایا جاتا ہے۔ وہ بیک وقت لندن کے انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجک سٹڈیز اور اسلام آباد کے انسٹیٹیوٹ آف ریجنل سٹڈیز سے منسلک ہے۔ اس نے افغانستان اور کشمیر کے بارے میں دو بیسٹ سیلر کتب تحریر کیں ایک 1999 میں شائع ہوئی جس کا نام تھا "War at the top of the world" (دنیا کی چوٹی پر لڑائی)، جبکہ دوسری کتاب زیادہ دلچسپ ہے جسکا عنوان ہے "American Raj: The West and the Muslim World" (امریکی راج: مغرب اور اسلامی دنیا)۔
"راج"کا لفظ برطانیہ کی نوآبادی کے لئے استعمال کیا جاتا تھا لیکن اس مصنف نے "امریکی راج" کا لفظ استعمال کرکے امریکہ کو جدید دور کی ایک سامراجی نوآبادیاتی طاقت کا طعنہ مارا ہے۔ ایرک مارگولس نے افغانستان پر حملے کی تیاری کے دوران اس جھوٹ کی فیکٹری میں تخلیق ہونے والے جھوٹوں کی تفصیل درج کی ہے۔ اس نے کہا ہے کہ امریکہ نے جھوٹ بولنے کی یہ روایت برطانیہ سے لی ہے۔
برطانیہ نے بھی افغانستان کے بارے میں لاتعداد جھوٹ بولے تھے اور بالآخر ذلت آمیز شکست کے بعد چرچل کو لکھنا پڑا "All wars are aceompanied by a body guard of lies. تمام جنگیں اپنے ہمراہ جھوٹ کے پہرے دار ساتھ رکھتی ہیں"۔ ایرک کے نزدیک سب سے بڑا جھوٹ یہ تھا کہ اسامہ بن لادن نے گیارہ ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں تین ہزار افراد مارے تھے۔ امریکی ٹیلی ویژن پر اسامہ بن لادن کی جعلی ویڈیو چلائی گئی، جس میں وہ گیارہ ستمبر کی تعریف کرتا ہے اور اسے بیروت پر اسرائیلی حملے کا بدلہ بتاتا ہے۔
طالبان کے کیمپ جو امریکی ٹیلی ویژن سکرینوں پر دکھائے جاتے تھے وہ دراصل پاکستان میں کشمیری مجاہدین کے کیمپ تھے جنہیں تمام صحافی بخوبی آزاد ی سے دیکھ سکتے تھے۔ وہ لکھتا ہے کہ جب افغانستان میں سول وار کے دوران ملا محمد عمر نے ایک چھوٹا سا طالبان کا گروہ تشکیل دیا تو اسکے دو مقاصد تھے، ایک یہ کہ تجارتی قافلوں کومجاہدین جبّہ کمنداں کے حملوں اور بھتہ خوری سے محفوظ رکھنا اور دوسرا خواتین کو انہی جبّہ کمنداں کی جنسی زیادتی سے بچانا۔
طالبان ایک چھوٹے سے گاؤں میں بغیر کسی دوسرے ملک کی مدد کے منظم ہوئے، انہیں کسی طاقت کی حمایت حاصل نہ تھی، لیکن تھوڑے ہی عرصے میں انہوں نے پورے افغانستان میں امن قائم کیا۔ آج کا سچ یہ ہے کہ، امریکی پریس تو اس غلط فہمی، جھوٹ اور پروپیگنڈے سے باہر نکل آیا ہے اور فراخدلی سے امریکی شکست بھی تسلیم کر رہا ہے اور اپنے جھوٹ کا اعتراف بھی کر رہا ہے۔ لیکن میرے ملک کا دانشور، صحافی، نام نہاد ادیب اور تجزیہ نگار اپنی نفرت کی عینک اتار رہا ہے اور نہ تعصب کے قلم سے دستبردار ہو رہا ہے۔
آپ کو انکی تحریروں میں کہیں اس حیرت انگیز معجزے پر خوشی کے تاثرات نہیں ملیں گے، بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو آج بھی بیس سال پہلے اپنے ہی لکھے ہوئے جھوٹ دہرا رہے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ طالبان نے افغانستان میں ایک ظالمانہ نظام قائم کر رکھا تھا جس میں خواتین کو تعلیم کی اجازت تک نہیں تھی اور طالبان کا اقتدار دراصل پشتونوں اور سنیوں کا ظالمانہ اقتدار تھا جس میں اقلیتیں تباہ و برباد تھیں۔ یہ تمام جھوٹ طالبان کے اقتدار کے ان پانچ برسوں میں اسلام فوبیا کے شکار مغربی اور پاکستانی صحافیوں نے تحریر کیے تھے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ مگر ایک بدنیتی سے اب انہیں دوبارہ دوہرایا جا رہا ہے۔
طالبان دور میں سب سے پہلے تعلیم کے بارے میں کوئی اورنہیں بلکہ امریکی سرکاری گواہی یہ ہے کہ مشہور امریکی ماہر تعلیم میرین لائیڈ (Marian Lloyd) نے کرانیکل آف ہائیرایجوکیشن چھپنے والے مضمون میں کابل یونیورسٹی کے بارے تحریر کیا
The university which has been closed for much of the past 15 years, reopened in March 1997 under the administration of Taliban".
یونیورسٹی جو گذشتہ 15 سالوں میں بیشتر وقت بند رہی تھی، اسے دوبارہ مارچ 1997ء میں طالبان حکومت نے کھول دیا"۔ اس کے بعد خواتین اور مردوں کی علیحدہ علیحدہ کلاسوں کا اہتمام کیا گیا اور 1999ء کے موسم سرما میں یونیورسٹی اور کالج کی سطح پر خواتین کے کلاسیں شروع ہوگئیں۔ کابل یونیورسٹی میں خواتین کی تعلیم کے حوالے سے گیارہ فیکلٹیز کا آغاز کیا گیا۔ طالبان دور میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم کا ذکر اقوام متحدہ کی 1999ء کی رپورٹ میں باقاعدہ درج ہے۔ یہی نہیں، بلکہ طالبان کوجنہیں آج ایک بار پھرخواتین دشمن بنا کر پیش کیا جارہا ہے، انہی کے دور میں کئی برسوں کے بعد 8 مارچ 2000ء کو خواتین ڈے منایا گیا۔ اس میں سات سو کے قریب خواتین شریک ہوئیں جن میں ڈاکٹرز، نرسیں، پروفیسر، انجینئرز اور دیگر شعبوں سے خواتین شامل تھیں۔ اس تقریب کو شریعہ ریڈیو نے باقاعدہ نشر کیا اور ملا محمد عمر مجاہد کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا۔
کابل یونیورسٹی کے چانسلر مولوی پیر محمد روحانی نے انٹرویو دیا جو اسی اقوام متحدہ کی رپورٹ میں موجود ہے۔ چانسلر نے بتایا کہ قندھار، ہرات اور جلال آباد میں طالبان نے نرسنگ کی تعلیم کے لیے سکول قائم کیے۔ یہ سکول پاکستان کے مشہور ڈاکٹر اور یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے سربراہ ڈاکٹر جاوید اکرم نے اپنی نگرانی میں قائم کئے۔ طالبان نے یونیسیف کے نمائندوں کے سامنے عورتوں کی تعلیم کے بارے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے جو بات کی تھی وہی اصل ہے اس نے کہا "ہمارے پاس خواتین کی تعلیم کے مسلے کا حل تو ہے لیکن ہمارے پاس اس بات کا کوئی حل نہیں جو دنیا ہم سے چاہتی ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے تعلیم حاصل کریں"۔
گویا دنیا کا طالبان سے جھگڑا خواتین کی تعلیم کا نہیں بلکہ مخلوط تعلیم کا تھا اور اسی بات کا مروڑ ہے جو لبرل سیکولر دانشوروں کے پیٹ میں ہر روز اٹھتا ہے۔
جاری ہے۔۔