Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Orya Maqbool Jan/
  3. Saneha Bait Al Muqaddas Aur Muslim Asriyati Mumalik Ke Secular Hukmaran

Saneha Bait Al Muqaddas Aur Muslim Asriyati Mumalik Ke Secular Hukmaran

سانحہ بیت المقدس اور مسلم اکثریتی ممالک کے سیکولر حکمران

جب کبھی مسلمانوں کے کسی خطے پر کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے، کوئی ظلم کی داستان رقم ہوتی ہے تو پاکستان کا سیکولر، لبرل دانشور، اور اس کی پیروی میں مخصوص اخباری لکھاری یا ٹیلی ویژن نیوز اینکرنتھنے پھلا کر دو گھڑے گھڑائے سوالات کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ سوال صرف اسلام اور مسلمانوں سے اپنی نفرت اور بغض کے اظہار اور مسلمانوں کو بحیثیت امت بدنام کرنے کے لیے کہے جاتے ہیں۔ پہلا یہ کہ کہاں ہے مسلم اُمّہ اور دوسرا سوال ہوتا ہے کہاں ہے "اوآئی سی" (اسلامی کانفرنس)۔ برونائی سے لیکر مراکش تک پچاس سے زیادہ ممالک ایسے ہیں، جن میں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے۔ لیکن ان تمام ممالک پر گذشتہ ایک سو سال سے سیکولر، لبرل حکمران مسلط ہیں۔ یہ حکمران، خواہ وہ بادشاہ ہوں یا جمہوری رہنما، فوجی ڈکٹیٹرہوں یا فوجی آمر سب کے سب کلمہ طیبّہ پڑھتے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے یورپی یونین کے انتیس ممالک کے عیسائی حکمران بپتسمہ لے کر عیسائی ہوتے ہیں، حلف اٹھاتے ہوئے انجیل مقدس پر ہاتھ رکھتے ہیں۔ لیکن کسی نے کبھی یورپی یونین کو طعنہ نہیں دیا کہ کہاں تھے تمہارے عیسائی حکمران اور عیسائی ملّت، جب آرمینیا کے عیسائی، مسلمانوں سے لڑ رہے تھے۔

مسلمان حکمرانوں کا یورپی ممالک کے حکمرانوں میں سے کسی بھی سیکولر، لبرل حکمران سے موازنہ کر لیں آپ کو دونوں اپنی طرزِ زندگی میں مختلف نظر نہیں آئیں گے۔ بے نظیر، نواز شریف، زرداری، مشرف اور عمران خان کی زندگیوں کو لے لیں اور جرمنی کی انجیلا مرکل، فرانس کے میکرون، برطانیہ کے بورس جانسن اور سپین کے جنرل فرانکو، انکی بود و باش کا مطالعہ کر لیں، آپ ان کے نام بدل دیں، مذہب تبدیل کر دیں، آپ کو ان کی باقی تمام طرزِ زندگی، اخلاقیات، معاشرت اور معاشیات غرض خاندانی زندگی، کسی میں بھی فرق نظر نہیں آئیگا۔ پچاس سے زیادہ وہ ممالک جہاں مسلمان اکثریت سے رہتے ہوں، ان کے آئین، وہاں نافذ قوانین، معیشت میں سودی بینکاری کی بالادستی، نظامِ تعلیم کی سیکولر بنیادیں، اللہ کی بجائے انسانوں کی حاکمیت، خواہ ڈکٹیٹر شپ کے ذریعے ہو یا الیکشن کے ذریعے، ان تمام معاملات میں بھی ان میں اور یورپ کے دیگر ممالک میں کوئی فرق نظر نہیں آئے گا۔ آپ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور دیگر ممالک کے آئین اٹھائیں اور پھر ان ممالک کے آئین اٹھائیں، جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، دونوں کا شق وار مطالعہ کریں، آپ کو چند ایک دفعات کے علاوہ کہیں کوئی فرق نظر نہیں آئیگا۔

مسیحی یورپ کے سیکولر، لبرل حکمرانوں کی اسرائیل کی حکومت کے سامنے بے بسی اور لاچاری بھی ہم سے مختلف نہیں ہے۔ ان ملکوں میں بسنے والے عیسائیوں کے تمام مقدس مقامات یروشلم میں ہیں اور یہودیوں کے قبضے میں ہیں۔ یورپ کا ایک عام شہری جب ان مقامات کی زیارت کے لیے جاتا ہے، جہاں سیدنا عیسیٰ ؑ پیدا ہوئے، جہاں پلے بڑھے، جس پہاڑی پر کھڑے ہوکر وہ وعظ کرتے تھے اور جن گلیوں میں صلیب لے کر گزرے تھے، تو وہ حیران و ششدر رہ جاتا ہے کہ ٹورسٹ گائیڈ سیاحوں کو ایک ایسی تاریخ سنا رہا ہوتا ہے، جس کے خلاف پوری عیسائی دنیا دو ہزار سال تک یہودیوں سے لڑتی رہی۔ اسرائیل میں تقریباً دو لاکھ عیسائی آباد ہیں جن کی اکثریت یروشلم میں ہے، لیکن انہیں اپنے مقدس مقامات پراتنا بھی اختیار حاصل نہیں کہ اپنی مرضی سے اسے آراستہ کر سکیں۔ آٹھ سال پہلے ان کے مقدس ترین مقام "نیٹویٹی" (Nativity) چرچ میں جس طرح قتل عام کیا گیا، اسے خون میں نہلادیا گیا، اس سانحہ پر عیسائی اکثریت کے یورپی ممالک کے سیکولر، لبرل حکمران اس ظلم پر اتنی بھی آواز نہ اٹھا سکے، جتنی مسلمان اکثریتی ممالک کے سیکولر، لبرل حکمران آج اٹھا رہے ہیں۔

اسی طرح جب کشمیر، فلسطین، روہنگیا وغیرہ میں مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے تو سیکولر، لبرل گروہ ایک اور طعنہ دیتا ہے، کہاں ہے اسلامی کانفرنس (OIC)۔ دنیا میں اسلامی کانفرنس کی طرح کی لاتعداد علاقائی تنظیمیں موجود ہیں اور یہ سب کی سب اسلامی کانفرنس کی طرح ہی مردہ اور بے کار ہیں۔ ان میں کئی علاقائی تنظیموں کا پاکستان رُکن بھی ہے۔ کبھی کسی نے سوال اٹھایا کہ"سارک" جس کے ممبران بھارت اور پاکستان ہیں، وہ کشمیر میں ظلم کیوں نہیں رکواتی، افریقین یونین اس وقت کہاں تھی، جب اس کے صدر قذافی کے ملک پر ظلم ہو رہا تھا، یورپی یونین بوسنیا میں دس سال مسلمانوں کا قتل عام دیکھتی رہی، آرگنائزیشن آف امریکن سٹیٹس چلّی سے لے کر گرانیڈا تک امریکہ کی جارحیت برداشت کرتی رہی اور شنگھائی کارپوریشن میں بھی تو بھارت اور پاکستان دونوں شامل ہیں، وہ کشمیر میں ظلم کیوں نہیں رکواتی۔ ان تمام تنظیموں سے سوال اس لیے نہیں کیا جاتا، کیونکہ یہ اپنے وجود کے اعتبار سے بھی سیکولر ہیں اور نام کے اعتبار سے بھی۔ آج اگر اسلامی کانفرنس کا نام بدل کر تنظیم برائے شمالی افریقہ، مشرقِ وسطیٰ، جنوبی ایشیا و مشرق بعید رکھ دیا جائے تو ہر سیکولر، لبرل دانشور ٹھنڈا ہو کر بیٹھ جائے گا۔ اس سیکولر، لبرل گروہ کی ایک اور منافقت بھی ہے۔ یہ فلسطین اور کشمیر پر صرف طعنہ دینے کے لیے "اُمت" کا نام لیتا ہے، لیکن اس گروہ نے کبھی یہ سوال نہیں کیا، کہ کہاں تھی مسلم اُمّہ جب روس افغانستا ن میں داخل ہو ا، امریکہ اور اسکے اڑتالیس حواری ممالک نے افغانستان پر حملہ کر دیا، عالمی طاقتیں عراق میں گھس گئیں، پندرہ لاکھ لوگ قتل کر دیئے۔

یہ سیکولر طبقہ ہمیشہ ان ظالم عالمی طاقتوں کی حمایت میں کھڑاہوتا رہا ہے، اور ایسے تمام مسلمان جو اپنا گھر بار چھوڑ کر ان علاقوں کے مظلوموں کیلئے لڑنے جاتے تھے تو انہیں دہشت گرد، فسادی، شدت پسند کہہ کر نہ صرف بدنام کرتااور انہیں گرفتار بھی کرواتا رہا ہے۔ یہ طبقہ اسقدر ظالم ہے کہ اگر کوئی ان ملکوں کے مظلوموں، مہاجروں، یتیموں اور بیواؤں کی مدد بھی کرنا چاہے تو ان پر عرصۂ حیات تنگ کر واتاہے اور پوری کوشش کرتا ہے کہ شام، افغانستان اور عراق کے جنگ زدہ مہاجروں، یتیموں اور بیواؤں تک امداد نہ پہنچ سکے۔ یہ ہے وہ روّیہ جو مسلمان اکثریتی ممالک کے سیکولر حکمرانوں کا بھی ہے اور ان دانشوروں کا بھی جن کے روبروآج بیت المقدس میں مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔ رمضان میں ان پر فائرنگ ہوئی اور اب اس وقت اسرائیل اور فلسطینی آبادی کے درمیان جنگ جاری ہے۔ فلسطینی مسلمان گذشتہ ستر سال سے یہ جنگ لڑتے چلے آرہے ہیں۔ ان ستر سالوں میں کم از کم پچاس سال، فلسطینیوں کی یہ جنگ صرف ایک قوم پرست جنگ کے طور پر لڑی جس میں جارج بش جیسے عیسائی رہنمابھی شریک تھے، لیکن مسلمان کثریتی ممالک کے سیکولر حکمرانوں نے اس وقت بھی انکا کھل کر ساتھ نہیں دیا تھا، کیونکہ یہ حکمران امریکہ اور سوویت یونین کی جھولیوں میں بیٹھے مصلحت کی نیند سو رہے تھے، اور آج بھی ان کا یہی عالم ہے۔

برونائی سے لے کر مراکش تک اس مسلم اکثریتی علاقے کے پاس کم از کم نصف کروڑ مسلح افواج ہیں اور ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ایٹم بم ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیڑھ ارب مسلمان ایسے ہیں جن کی اکثریت جذبۂ جہاد سے سرشار ہے۔ اس صورت میں طعنہ زن سیکولر، لبرل گروہوں سے میری ایک درخواست ہے:آپ ان تمام مسلم اکثریتی ممالک کے سیکولر حکمرانوں سے کہیں کہ وہ ایک اعلان کر دیں، کہ جس کسی نے بھی فلسطین جا کر اسرائیل سے لڑنا ہے، اس کے لیے تمام بارڈرز کھلے ہیں۔ حکومت کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گی، بلکہ انہیں تمام ممالک راستہ دیں گے۔ میرا دعویٰ ہے کہ صرف ایک دن میں اس مسلم اُمہّ کا وہ چہرہ نظر آجائیگا جو ہر مسلمان کے دل میں دھڑکتا ہے جس کے بارے میں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا، "مسلمان جسد واحد ہیں، ایک عضو کو تکلیف ہو دوسرا تڑپنے لگ جاتا ہے"۔

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.

Check Also

Be Ghari Azaab Hai Ya Rab

By Shahzad Malik