پارلیمنٹ میں پاکستان کے نظامِ عدل پر ایک سوال
آج سے تقریباً دو سال قبل، 12 فروری 2021ء کو شاہراہِ دستور پر واقع پاکستان کے نظامِ عدل کی امین سب سے بڑی عدالت، سپریم کورٹ کے کورٹ روم نمبر 1 میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی بنچ ایک مقدمے کی سماعت کر رہا تھا۔
بنچ میں جسٹس مشیر عالم، جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس اعجازالاحسن شامل تھے۔ کیس اراکینِ اسمبلی میں 50 کروڑ روپے کی تقسیم سے متعلق تھا جو انہیں ترقیاتی سکیموں کے لئے الاٹ کئے گئے تھے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ایک بیان میں یہ اعلان کیا تھا کہ اراکینِ اسمبلی کو ترقیاتی سکیموں کے لئے کسی قسم کے کوئی فنڈ نہیں دیئے جائیں گے۔
مقدمے کی سماعت کے دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کی صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی عدالتی تاریخ میں بھی نظیر نہیں ملتی۔ اس طرح کا واقعہ آج تک کسی چھوٹے سے سول جج کی عدالت میں بھی نہیں پیش آیا۔ پاکستان کا نظامِ عدل "Adversarial" ہے جس کا مطلب ہے کہ عدالت دو مخالف گروہوں کے پیش کردہ حقائق کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہے۔ ان میں سے عین ممکن ہے ایک ریاست ہو اور دوسرا کوئی عام ملزم، یا پھر ایک مدعی اور دوسرا مدعا علیہ، عدالت ان دونوں کے بیانات، شہادتوں اور پیش کئے گئے حقائق کو پرکھ کر فیصلہ کرتی ہے۔
کسی بھی مقدمے کے بارے میں اگر کسی جج کے پاس کسی بھی قسم کی کوئی ذاتی معلومات موجود ہوں یا وہ زیرِ مقدمہ جرم میں وقوعے کا گواہ ہو تو پھر اس جج کو اس بات کی اجازت نہیں ہوتی کہ وہ اپنا بیان صفحۂ مثل پر لائے یا اپنی شہادت ریکارڈ کروائے۔
پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے عدالتی نظام ہائے کار میں ایسے جج کے لئے دو راستے دیئے گئے ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ مکمل طور خاموش رہے اور اس کا اظہار نہ کرے بلکہ صرف اپنے سامنے آئی شہادتوں پر توجہ مرکوز رکھے، یا پھر خود کو اس مقدمے سے الگ کر لے جبکہ دوسرا راستہ یہ کہ وہ اس مقدمے کی شنوائی کسی دوسرے جج کے سپرد کر دے اور اس کے بعد اسی عدالت میں اپنے آپ کو بحیثیت گواہ پیش کرے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اس پر جرح بھی ہو سکے۔ لیکن اس دن سپریم کورٹ کے فل بنچ کے سامنے ہوا یوں کہ مقدمے کی سماعت کے دوران ایک معزز جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک دستاویز کی فوٹو کاپیاں نکالیں اور انہیں بنچ کے ممبران کے درمیان تقسیم کرنے کے بعد ایک کاپی اٹارنی جنرل خالد جاوید کو بھی دے دی۔
سب کے سب ورطۂ حیرت میں چلے گئے کہ یہ سب کیا ہے تو معزز جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فرمایا کہ یہ کاغذات مجھے واٹس ایپ کے ذریعے موصول ہوئے ہیں اور مجھے اس بات کا بالکل نہیں علم کہ یہ درست بھی ہیں یا نہیں، لیکن پھر بھی میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ پاکستان کے قوانین کے مطابق عدالت میں ہر دستاویز اس حلف نامے کے ساتھ پیش کی جاتی ہے کہ یہ اصلی ہے اور کسی بھی عدالت میں بیٹھے ہوئے ایک مجسٹریٹ سے لے کر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تک سب اس بات پر فیصلہ کرتے ہیں کہ جو دستاویزات ان کے روبرو پیش کی گئی ہیں وہ درست بھی ہیں یا نہیں۔
عدالت میں جعلی دستاویز پیش کرنے کی سزا تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 465 میں درج ہے جو زیادہ سے زیادہ دو سال ہے۔ اسی لئے ایک عام مدعی بھی عدالت میں ایسی دستاویز پیش نہیں کرتا جن کے بارے میں اسے مکمل یقین نہ ہو کہ یہ اصلی ہیں۔ لیکن اس کے برعکس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بغیر کوئی حلف نامہ ساتھ لگائے، یہ کہتے ہوئے دستاویزات عدالت میں پیش کیں کہ مجھے بالکل نہیں علم کہ یہ درست بھی ہیں یا نہیں۔
آپ لوگ اسے خود چیک کر لیں۔ ایسا فقرہ کسی بھی عدالت میں کسی عام شہری نے بولا ہوتا تو اس کے ساتھ اوّل تو مخالف وکیل ہی ایسا سلوک کرتے کہ وہ اپنی دستاویزات لپیٹ لیتا اور اگر وہ اسے پیش کرنے پر بضد ہوتا تو جج اس سے یہ ضرور کہتا کہ جائو پہلے اس کی تصدیق کرکے آئو یا پھر اس کے ساتھ ایک حلف نامہ جمع کرائو کہ یہ واقعی اصلی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے اس عمل پر چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے پانچ صفحات پر مشتمل ایک فیصلہ لکھوایا جس میں یہ حکم دیا گیا کہ
"To uphold the principle of unbiasness and impartiality, it would be in the interest of justice that the Honorable Judge (Faiz Essa) should not hear matters involving the Prime Minister of Pakistan, (Imran Khan)"
"غیر جانبداری اور عدم تعصب کے اُصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ عزت مآب جسٹس (قاضی فائز عیسیٰ) وزیر اعظم پاکستان (عمران خان) کے بارے میں کسی بھی مقدمے کی سماعت نہ کریں"۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کا پانچ رکنی بنچ جسے "لارجر بنچ" کہا جاتا ہے اس کا یہ فیصلہ آج بھی نافذالعمل (Operative) ہے، کیونکہ اس کے خلاف کسی نے کسی بھی قسم کی نظرثانی کی درخواست داخل نہیں کروائی۔ اس کے مخالف یہ دلیل دی جاتی ہے کہ 1989ء میں ایک بارہ رکنی فل کورٹ نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ ججوں کا ایک بنچ کسی دوسرے بنچ کو یہ حکم نہیں دے سکتا کہ وہ جج حضرات فلاں مقدمے کو نہ سنیں۔ اس دلیل کے بھی مخالف یہ دلیل ہے کہ چیف جسٹس گلزار احمد کا یہ فیصلہ اس کے 32 سال بعد آیا اور یہ حکم چیف جسٹس نے کسی دوسرے بنچ کے بارے میں نہیں دیا، بلکہ اپنے ہی بنچ کے ایک رکن کے ایک روّیے کے عدالتی مضمرات کے حوالے سے دیا ہے۔
اس پورے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو کل سینٹ اور قومی اسمبلی کے اس اجلاس میں سپریم کورٹ کے پندرہ ججوں میں سے صرف ایک جج جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کی شرکت آپ کو کسی اچھنبے یا حیرانی کا باعث نہیں لگے گی۔ یوں تو اسے ایک کنونشن کا نام دیا گیا تھا مگر اس کنونشن میں معزز جج قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے سامنے جو تقاریر ہوئیں ان میں پاکستان کے عدالتی ماضی اور عدالتی نظام کو تحقیر کا نشانہ بنایا گیا۔
ان کے پہلو میں بیٹھے آصف زرداری نے پاکستان کے پورے عدالتی نظام پر ایک ایسا الزام لگایا ہے کہ جس کا جواب دینا سب سے پہلے جسٹس فائز عیسیٰ پر لازم ہے کیونکہ وہ بذاتِ خود اس الزام کے براہِ راست گواہ ہیں اور انہیں یہ الزام کسی واٹس ایپ میسج کے ذریعے نہیں ملا بلکہ انہوں نے خود سنا ہے۔ آصف زرداری کے اس الزام کی ریکارڈنگ اسمبلی سیکرٹریٹ میں بھی موجود ہے اور بائیس کروڑ عوام نے بھی اسے براہِ راست سنا ہے۔
آصف زرداری نے ایک متکبرانہ لہجے میں کہا "کس طرح میں نے فل بنچ بنوایا، یہ ایک لمبی کہانی ہے"۔ اس سوال کا جواب اب پاکستان کے پورے عدالتی نظام پر ایک قرض ہے اور یہ قرض جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر کئی گنا زیادہ ہے۔ کیا وہ آج بھی اپنی گذشتہ روایات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھیں گے کہ میرے سامنے آصف زرداری نے ایک جج نہیں بلکہ پورے عدالتی نظام کی توہین کی ہے۔ اس مقدمے کی سماعت کے لئے فل کورٹ تشکیل دیا جائے اور میں اس فل کورٹ کے سامنے اپنے آپ کو گواہ کے طور پر پیش ہوں گا۔