پاکستانی اینگلو انڈین
سعادت حسن منٹو کا افسانہ "ٹوبہ ٹیک سنگھ" اس کی اکثر تحریروں کی طرح تخلیقِ پاکستان کے ماحول کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔ منٹو جیسے لاتعداد ادیب، شاعر، دانشور اور سیاستدان اپنے اندرونی بغض کی وجہ سے اسے بٹوارہ کہتے تھے۔ منٹو کے اس افسانے میں لاہور کے پاگل خانے کی فضاہے جس میں ہندو اور مسلمان پاگلوں کا بھی آپس میں تبادلہ ہو رہا ہوتا ہے۔ پاگل خانے کے لاتعداد کرداروں میں کچھ ایسے کرداروں کا بھی تذکرہ ہے جنہیں برصغر پاک و ہند کی تقسیم کا نہیں بلکہ انگریزوں کے چلے جانے کا دُکھ ہوتا ہے۔
منٹو لکھتا ہے "یورپین وارڈ میں اینگلو انڈین پاگل تھے۔ ان کو جب معلوم ہوا کہ ہندوستان کو آزاد کر کے انگریز چلے گئے ہیں تو ان کو بہت صدمہ ہوا۔ وہ چُھپ چُھپ کر گھنٹوں اس اہم مسئلے پر گفتگو کرتے رہتے کہ پاگل خانے میں اب ان کی حیثیت کس قسم کی ہو گی۔ یورپین وارڈ رہے گا یا اُڑا دیا جائے گا۔ بریک فاسٹ ملا کرے گا یا نہیں۔ کیا انہیں ڈبل روٹی کی بجائے بلڈی انڈین چباتی تو زہر مار نہیں کرنا پڑے گی"۔
اینگلو انڈین دراصل گورے مردوں اور ہندوستانی عورتوں کے ملاپ سے پیدا ہونے والی نسل تھی جو خود کو نسلاً اور تہذیباً گورے کے ساتھ وابستہ کرتی تھی۔ نوآبادیاتی دَور میں دُنیا کے ہر خطے میں ایسے نمک حرام پائے جاتے تھے، جو اپنی زمین کا کھاتے تھے مگر غیر ملکی فاتح آقائوں سے محبت کرتے تھے۔ نوآبادیاتی دَور ختم ہوا، لیکن ملکوں کو فتح کرنے اور ان پر حکمرانی کرنے کا دستور آج بھی موجود ہے۔ اب معاشی اور تہذیبی طور پر ملک فتح کئے جاتے ہیں اور مفتوح ملکوں میں ایک ایسا گروہ ضرور تخلیق پاتا ہے جو "اینگلو انڈین" جیسی سوچ رکھتا ہے۔
میرے ملک میں یہ لوگ ایسے ہیں، جنہیں اپنے گلی محلوں سے بُو آتی ہے، اپنے خاندان اور علاقے کے لوگ ناشائستہ اور غیر مہذب لگتے ہیں۔ ساری برُائیاں انہیں پاکستان میں نظر آتی ہیں اور تمام اچھائیاں اور خوبصورتیاں انہیں مغرب کے ممالک میں نظر آتی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے غریب رشتے داروں، کم پڑھے لکھے بہن بھائیوں اور پرانی تہذیب اوڑھے والدین سے بھی دُور رہنا پسند کرتے ہیں۔ ان کی بہترین مثال اس نوجوان کی ہے جس کا دیہاتی والد جب اپنے بوسیدہ لباس میں اس سے ملنے ہاسٹل چلا آیا تو اس نے دوستوں سے اس کا تعارف اپنے نوکر کی حیثیت سے کروایا۔
یہ "محبت" پاکستانی بیوروکریٹس، چیف کالج کے پڑھے ہوئے سیاستدانوں، انگریز آرمی کے ماحول میں پلے بڑھے فوجی افسروں اور گذشتہ زمانے کے شاعروں، ادیبوں اور آج کے دَور کے کالم نگار اور دانشوروں میں پائی جاتی ہے۔ ایسے لوگ دُنیا کے ہر غریب ملک میں موجود ہوتے ہیں جو اپنے ہی ملک کو گالی دیتے ہیں، اپنے ہی لوگوں سے نفرت کرتے ہیں اور اپنی ہی تہذیب کی بُرائیاں بیان کرتے ہیں۔ ان کی پہچان اس وقت کھل کر سامنے آتی ہے جب کوئی بڑی عالمی طاقت ان کے ملک پر حملہ آور ہوتی ہے۔ ویت نام سے فلپائن اور میکسیکو تک ایسے حرام خوروں کی کوئی کمی نہ تھی، جنہوں نے اپنے ملک کی بجائے فاتح عالمی طاقتوں کا ساتھ دیا اور ان کے ساتھ مل کر اپنے ہم وطنوں کو قتل کیا۔
افغانستان میں وہ افراد جو 1979ء میں روسی افواج کی آمد پر ان کے ساتھ ہو گئے تھے، وہی لوگ اور ان کی نسلیں 2001ء میں امریکی اور نیٹو افواج کے قبضے کے بعد ان کے ساتھ مل گئیں۔ 15 اگست 2021ء کو جب کابل فتح ہوا تو یہی وہ لوگ تھے جو اپنے آقائوں کے جہازوں سے لپٹ کر ملک چھوڑ گئے۔ اپنے وطن سے نمک حرامی اور امریکی وفاداری کا اس سے بڑا انعام اور کیا ہو سکتا ہے کہ امریکہ نے چودہ دنوں میں ان ڈیڑھ لاکھ لوگوں کو کابل سے نکالا۔
گزشتہ دنوں تحریکِ لبیک پاکستان کی عوامی قوت کو دیکھ کر یوں لگتا ہے یہ لوگ دہل کر رہ گئے ہیں۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کہ ایک سیاسی پارٹی جس کے دامن میں تئیس لاکھ ووٹ ہوں اور پولیٹیکل سائنس کی زبان میں جب وہ ایک "پریشر گروپ" میں ڈھلتی ہے تو وہی ریاست جو انہیں کالعدم قرار دیتی ہے، چند ماہ بعد اسے اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ اس عوامی دبائو کا سامنا نہیں کر سکتی اور پابندی واپس لے لیتی ہے۔
ریاست کو معلوم تھا کہ یہ پہلی عوامی مذہبی جماعت ہے جس کی صفوں میں چند ایک کے سوا، کوئی "مولوی" یا "پیر" نہیں ہے۔ مولوی اور پیر تو خادم حسین رضوی صاحب سے ناراض تھے کہ اس نے ان کی سلطنتیں تباہ کر کے عام آدمی کو حرمتِ رسولؐ کی پہرے داری پر اکٹھا کیا۔ اس پارٹی کا کوئی مسلح جتھہ یا گروہ نہیں ہے، دہشت گردی یا دھماکوں سے یہ ہمیشہ دُور رہی ہے۔ البتہ یہ لوگ ہجوم (Mob) اور جمِ غفیر (Crowd) کی سیاست سے آشنا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی "سٹریٹ پاور" بن کر اُبھرے ہیں۔ ہجوم، بھیڑ یا جمِ غفیر میں پولیس سے جھڑپیں دُنیا کے ہر ملک میں معمول ہیں۔ اس میں لوگ بھی مرتے ہیں اور پولیس والے بھی۔
ہجوم کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ پولیس والوں نے جن لوگوں کو مارا ہوتا ہے ضروری نہیں کہ انہوں نے ہی پولیس والوں کو بھی مارا ہو۔ اس لئے دونوں جانب بے گناہوں کے مارے جانے کا اندیشہ بہت ہوتا ہے۔ اسی لئے دُنیا بھر میں جمِ غفیر کے ہنگاموں "Mob protest" پر نہ ایسے مقدمے بنتے ہیں اور نہ تنظیمیں کالعدم ہوتیں ہیں۔ پاکستان میں اس کی سب سے بڑی مثال بینظیر کی ہلاکت کے بعد پھوٹنے والے ہنگامے تھے جس میں پولیس کے مرنے والوں کی تعداد آج تک کے ہنگاموں میں سب سے زیادہ ہے۔
تحریکِ لبیک پاکستان کی بڑھتی ہوئی عوامی مقبولیت کا خوف اس "پاکستانی اینگلو انڈین" طبقے میں نظر آ رہا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو عوامی رائے کا احترام صرف اسی وقت کرتے ہیں جب یہ ان کے مطلب کی ہو۔ یہ ملک چھوڑنے کی باتیں کرتے ہیں اور مثالیں ان سول اور ملٹری بیوروکریٹس اور سیاست دانوں کی دیتے ہیں جنہیں اس ملک نے عزت دی لیکن یہ بددیانت لوگ لوٹ مار اور رشوت کا مال لے کر بھاگ نکلے۔ یہ اس ملک سے بھاگنے والوں کے قصوں کو رنگین بنا کر میرے ملک کو بدنام کرتے ہیں۔
وہ لوگ جو جھوٹی ایف آریں کٹوا کر، کبھی قادیانی، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے نام پر بیرون ملک پناہیں لیتے رہے۔ یہاں تک پاکستانی شاعر افتخار نسیم جو امریکہ میں ہم جنس پرستوں کی انجمن کا سربراہ تھا، یہ اس سے سر ٹیفکیٹ لے کر ہم جنس پرست بن کر ملک چھوڑتے رہے۔ یہ اچھی خاصی زمینداری چھوڑ کر وہاں نالے صاف کرتے ہیں، ترکھان اور حجام بنتے ہیں۔ ان پاکستانی "اینگلو انڈین" میں وہ دانشور بھی شامل ہیں جنہیں اس قوم نے عزت دی، سر پر بٹھایا، ان دانشوروں جیسا لائف سٹائل یورپ کے امیر ترین لوگوں کو بھی نصیب نہیں۔ پھر بھی انہیں اس ملک میں گھٹن محسوس ہوتی ہے۔ میرا ایک ہی بیٹا ہے۔ ان لوگوں سے متاثر ہو کر اس نے چند سال پہلے آسٹریلیا جانے کا سوچا، نیشنیلٹی بھی لے لی۔ کہنے لگا وہ مواقع کی سرزمین (Land of opportunity) ہے۔
میں نے کہا وہ شکست کی سر زمین (Land of Surander) بھی ہے۔ کبھی تم اپنی بیٹیوں کے ساتھ ان گلیوں میں گھوم سکو گے، جن کے ہر کونے پر جوڑے بوس و کنار کر رہے ہوں، وہ دن دیکھ سکو گے، جب تمہاری اولاد تمہارے ڈانٹنے پر پولیس بلا لے، بیٹی یا بیٹا اپنے بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کو گھر لا کر شب باشی کرے اور تم کچھ نہ کر سکو۔ تمہیں راہ چلتے لوگ مسلمان ہونے کی وجہ سے گھوریں، تمہاری بیوی حجاب لے کر چلے اور کوئی گورا اس پر چاقوئوں سے وار کر دے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ صبح تم کام پر نکلو تو فرانس کی طرح ہر چوراہے پر تمہاری سب سے مقدس ہستی پیغمبر حق ﷺ کے خلاف گستاخانہ خاکے لگے ہوں اور تمہیں چُپ چاپ سر جھکا کر گزرنا پڑے۔
اللہ کا شکر کہ اس نے اس پاکستان کی سرزمین کو ترجیح دی۔ لیکن میرے ملک کا یہ "اینگلو انڈین" طبقہ مغرب میں محکومی اور بے غیرتی کی زندگی کے باوجود ایسے ملکوں میں رہنے کے خواب دیکھتا ہے جہاں اسے صرف اس لئے گالی دی جاتی ہے کہ وہ "مسلمان" ہے۔