پاکستان کی ضمیر فروش اشرافیہ
جس طرح آج سے بیس سال قبل گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد امریکہ کے عسکری اور سول ماہرین سر جوڑ کر بیٹھے اورپھر ایک نتیجے پر پہنچے کہ "پاکستان کی مدد کے بغیر، افغانستان میں داخل ہونا ایک ڈراؤنا خواب ہوگا"۔ ویسے ہی آج افغانستان سے نکلنے کے بعد، امریکی اسٹبلشمنٹ اس خوف کا شکار ہے کہ کہیں چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی نوعیت اسقدر مضبوط نہ ہوجائے کہ ہمیں پاکستان سے دیس نکالا مل جائے۔ اگر کبھی ایسا ممکن ہوا تو یہ امریکی منصوبہ بندی کے ستر سالوں کی سب سے بڑی ناکامی اور امریکی اثر و رسوخ کی سب سے بڑی شکست ہوگی۔ خطے میں امریکی اثر و رسوخ، جنگ عظیم دوم کی فتح کے بعد ہی سے شروع ہوگیا تھا۔
امریکہ نے یورپ کی اتحادی عالمی طاقتوں سے جنگ میں شریک ہونے سے پہلے، ایک خفیہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ جنگ میں انکا ساتھ، اس شرط پر دے گا کہ برطانیہ اور فرانس اپنے زیرِ تسلط نو آبادیاتی علاقوں کو آزاد کردیں گے۔ یہ اس لیے کہ اب ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکہ کے براعظموں میں آزاد ہونے والے ملکوں پر فوجی قوت سے نہیں، بلکہ معاشی بالادستی سے حکمرانی کی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ جس دن 1944ء میں اتحادی افواج نے نارمنڈی فتح کیا، اس کے فوراً بعد ہی امریکہ نے بریٹن ووڈذ (Bretton woods)کے ماؤنٹ واشنگٹن ہوٹل میں اپنے 44 اتحادی ممالک کی ایک کانفرنس بلائی جو یکم جولائی سے بائیس دن تک چلتی رہی۔ اس کانفرنس کی کوکھ سے ایک نئے عالمی مالیاتی نظام نے جنم لیا، کاغذی کرنسی کی حرمت سامنے آئی، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف وجود میں آئے اور پوری دنیا پر براستہ معیشت امریکی بالادستی کا پرچم گاڑ دیا گیا۔
یہ پرچم اسوقت، ان خطوں پر نہیں لہرایا جاسکا، جہاں کیمونسٹ نظریات کے تحت "پرولتاریہ" یعنی غریب آدمی کی آمریت نافذ تھی، جیسے روس اور مشرقی یورپ وغیرہ۔ فرانس اور برطانیہ اپنے اپنے ملکوں میں سکڑ کر رہ گئے اور نئے آزاد ممالک کو امریکہ اور سوویت یونین دونوں نے گھیرنا شروع کر دیا۔ پاکستان امریکی ترغیبات کے جال میں پہلے دن سے ہی آگیا۔ اس خطے میں جہاں روس، چین، بھارت اور افغانستان جیسے ممالک امریکہ کے مخالف کیمپ موجود تھے، پاکستان اور امریکہ کی دوستی امریکہ کیلئے نئے امکانات کی ایک کھڑکی تھی۔ ایران میں مصدق انقلاب اور شاہ ایران کی عوام میں جڑیں نہ ہونے کی وجہ نے پاکستان پر امریکہ کا انحصار اور بڑھا دیاتھا۔ یحییٰ خان نے امریکی ایما پر اسکے وزیر خارجہ ہنری کسنجر کو خفیہ طورپر چین سے رابطہ کرنے میں مدد دے کر امریکہ کو اس خطے میں مزید کھل کر کھیلنے کیلئے ایک بہت بڑا میدان مہیا کر دیا۔
فروری 1972ء میں جب اچانک امریکی صدر رچرڈ نکسن، چین کے رہنما ماؤزے تنگ سے ملے تو اسے دنیا میں ایک بہت بڑا دھماکہ تصور کیاگیا۔ اب امریکہ اس خطے میں اچھا خاصہ موجود ہوگیااور اردگرد چھیڑ خانی بھی کرنے لگا تھا۔ اسی چھیڑخانی کو روکنے کیلئے سوویت یونین نے اپنی افواج افغانستان میں داخل کردیں، جس کا نتیجہ بدترین شکست، کیمونسٹ نظریے کا زوال اور سوویت یونین جیسی عالمی طاقت کا لاتعداد حصوں میں بکھرنے کی صورت میں برآمد ہوا۔ اب امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بھی بن چکا تھا۔ ایک ایسی قوت جس کا حکم بیک وقت تمام ممالک پر چلتا تھا۔ سوویت یونین کی افواج نو سال، ایک ماہ، تین ہفتے اور ایک دن افغانستان میں رہنے کے بعد نکلیں تو پھر 15فروری 1989ء سے لے کر 30 اگست 2021ء تک امریکہ 32سال، 6ماہ اور پندرہ دن خطے میں دندناتا رہااور آخر کار ویسے ہی رسواء ہوا جیسے روس افغانستان میں ہوا تھا۔
آج امریکہ یہاں موجود تو ہے، لیکن شاخ نازک پر آشیانہ والا معاملہ ہے۔ امریکہ یہاں صرف اور صرف چین کو عالمی سطح پرمزید ابھرنے سے روکنا چاہتا ہے۔ اس اہم ہدف کے حصول کیلئے اس کے عسکری اور دیگر ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ "ایسا کرنا پاکستان کی مدد کے بغیر ایک لا حاصل اور ناکام کوشش ہوگی"۔ وہ پاکستان سے ہرگز نکلنا نہیں چاہتا، وہ یہاں رہنا چاہتا ہے۔ وہ یہاں سے نکل گیا تو اس کی پرچھائیں تک اس خطے میں نظر نہیں آئیں گی۔ اس وقت امریکہ کے تمام تھنک ٹینک، اسٹبلشمنٹ، خفیہ ادارے اور مالیاتی گروہ اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان سے نکلنا، پاکستان کو مکمل طور پر آزاد ہونے دیناہے۔ اسے اپنے شکنجے میں رکھنا چاہیے تاکہ یہ کبھی بھی چین کے ساتھ ایک خود مختار ملک کی حیثیت سے تعلقات استوار نہ کر سکے۔
آج سے ٹھیک دس سال قبل جب امریکہ نے یہ فیصلہ کیا کہ اسے افغانستان سے نکلنا ہے اور اپنی تمام توانائیاں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے پر صرف کرنی ہیں، تو لاتعداد رپورٹیں اور کتب سامنے آئیں، جن میں سب سے اہم کتاب 2013ء میں شائع ہوئی جس کا نام تھا "No Exit From Pakistan" یعنی "پاکستان نہیں چھوڑنا"۔ اس کا مصنف امریکی پالیسی ساز اداروں میں سے اہم ترین ادارے "جان ہاپکنز" (Johns Hopkins)یونیورسٹی کے عالمی مطالعہ جات کے شعبے میں پروفیسر ہے۔ اس کا نام ڈینیل ایس مارکی (Daniel S Markey)ہے۔
یہ شخص 2003ء سے 2007ء تک امریکہ وزارتِ خارجہ میں پالیسی اینڈ پلاننگ کے شعبے سے وابستہ رہا ہے۔ اس کے بعد وہ 2007ء سے 2015ء تک پاکستان، بھارت اور جنوبی ایشیا کے حوالے سے جان ہاپکنز یونیورسٹی کے شعبے کا سینئر فیلو بھی رہا ہے۔ امریکہ کے گزشتہ دس سال جن فیصلہ کن مرحلوں سے گزرے ہیں ان سے متعلق مارکی کی یہ کتاب امریکی پالیسیوں کی تاریخ کا ریکارڈ ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ہم تین وجوہات کی وجہ سے پاکستان نہیں چھوڑ سکتے، پہلی یہ کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اتنا بڑا اور پھیلا ہوا ہے کہ پھر ہم اسکی نگرانی نہیں کرسکیں گے، دوسری یہ کہ پاکستان کے چین کی سول اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کے ساتھ اسقدر گہرے اور دوررس تعلقات ہیں کہ اگر ہم یہاں سے چلے گئے تو پاکستان چین کی مدد سے آزاد اور خود مختارہوجائے گا اور تیسری یہ کہ، پاکستان کی فوج اتنی بڑی اور مضبوط ہے کہ یہ نہ صرف خطے کیلئے بلکہ پوری دنیا کیلئے مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔
کتاب میں پاکستان اور امریکہ کے ستر سالہ تعلقات کا جائزہ لیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ امریکہ نے 1950ء میں ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ پاکستان کو سیاسی اور معاشی طور پر کبھی بھی اسقدر مضبوط نہیں ہونے دینا کہ وہ مسلم اُمّہ کی قیادت کر سکے۔ ایسا کرنا امریکہ کیلئے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ امریکہ کو شروع دن سے ہی پاکستان میں ایسے بکاؤ افراد ملے ہوتے ہیں جنہوں نے چند ٹکوں کی خاطر پاکستان کے مفادکو بیچ ڈالا۔ کتاب میں تحریر ہے کہ امریکہ نے پاکستان کے ہر طبقہ میں افراد کو خرید رکھاہے۔ اس فہرست میں سیاسی رہنما، سول بیوروکریسی کے ارکان، فوج کے اعلیٰ عہدیدار، صحافی، میڈیا ہاؤسز کے مالکان اور خاص طور پر پڑھے لکھے مقبول دانشورشامل ہیں۔ امریکہ یہ خرید و فروخت ہر ملک میں کرتا ہے، لیکن پاکستان میں اسے یہ کام انتہائی آسان لگا، کیونکہ خرید و فروخت کے اس بازار میں پاکستان کی اشرافیہ اپنی قیمت بہت کم لگاتی ہے۔
یہ قیمت اتنی تھوڑی بھی ہوتی ہے جیسے ایک شخص کو امریکہ کا ویزہ مل جائے یا اسکے بچوں کو امریکہ میں تعلیم کیلئے وظیفہ مل جائے تو وہ اپنے ملک کے مفادات کا سودا کر دیتا ہے۔ کتاب میں بہت حیران کن انکشافات ہیں، جو پڑھنے کے قابل ہیں۔ اس وقت دوراہے پر کھڑا ہوا پاکستان، اگر آزادانہ فیصلہ نہیں کر پا رہا ہے اور اس خطے میں ایک جرآت مندانہ اور قائدانہ کردار ادا نہیں کر رہا تو، اسکی بزدلی اور قوتِ فیصلہ کی کمی کی بنیادی وجہ سیاستدانوں، سول ملٹری بیوروکریسی، میڈیا اور دانشوروں میں موجود وہ بکاؤ لوگ ہیں جو پاکستان کی امریکہ سے نجات نہیں چاہتے۔ ان کا قبلہ اور مرکزِ محبت امریکہ ہے اور اس بکاؤ محبت کی قیمت بہت معمولی سی ہے یعنی امریکہ سے ان لوگوں کے چھوٹے چھوٹے مفادات۔