مشرکوں، کافروں کو بہت ناگوار ہے
اللہ کے فرمان کی حقانیت اور سچائی ہر بار کھل کر سامنے آتی ہے، اہل ایمان، کے ایمان میں اضافہ کرتی ہے اور اہلِ ہوش و عقل کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ جہاں میرے اللہ نے قرآن پاک میں یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ مومنین کو فتح و نصرت عطا کرے گا، اپنے دین کو غالب کرے گا، اپنے نور کی تکمیل کرے گا، وہیں اس نے یہ آیات بھی اتار یں ہیں کہ یہ نصرت و فتح "کافروں کو بہت ناگوار ہے"۔
انسانی تاریخ کی کتنی بڑی گواہی ہے کہ ایک ہی سرزمین پر میرے اللہ نے اپنے اوپر توکل رکھنے والے مسلمان مجاہدین کو بار بار بڑی عالمی طاقتوں پر فتح و نصرت عطا فرمائی۔ پہلی فتح اس لڑائی میں ہوئی جو 6 جنوری سے 13 جنوری 1842ء کے سات دنوں میں اپنے زمانے کی سب سے بڑی عالمی طاقت "برطانیہ" کے مقابل ہوئی۔ وہ برطانیہ جس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ وہ ہر دفعہ کسی نہ کسی کاسہ لیس اور بڑی طاقتوں کے غلام کو غداری کے لیے اس سرزمین پرمنتخب کرتی ہے اور پھر اسے شکست سے دوچار کرتی ہے۔
ہرات کے گورنر شجاع شاہ نے افغانستان کے حاکم احمد شاہ ابدالی کے پوتے زمان شاہ درانی کے خلاف انگریزوں سے گٹھ جوڑ کرکے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہا۔ انگریزوں نے ایران کی حکومت کو افغانستان پر حملے کیلئے اکسایا۔ وجہ یہ تھی کہ برطانیہ ہندوستان میں اپنی حکومت کے خلاف متحد افغان مسلمانوں کو ہمیشہ ایک خطرہ سمجھتاتھا۔ ایران نے برطانیہ کی شہہ پر افغان گروہوں کے ذریعے حملہ کیا۔
زمان شاہ درانی پشاور میں گرفتار ہوا اور اس کی آنکھیں نکال کر افغان روایات کے مطابق حقِ حکمرانی سے معزول کر دیا گیا۔ اسکے بعد شاہ شجاع نے برطانوی سرپرستی میں بادشاہت کا تاج پہن لیا اور 1809 میں افغانستان کے برطانیہ کا اتحادی ہونے کا اعلان کردیا۔ برطانوی سول سرونٹ ولیم فریزر جو جرنل الفنسٹن (Elphinston) کے ساتھ شاہ شجاع سے ملنے گیاتھا، اس نے اس کی شخصیت کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ آج کے لبرل، سیکولر، رومانیت پسند اور عیش کوش افراد سے ملتا جلتا ہے۔
برطانیہ کے ساتھ اتحاد کے اعلان کے بعد اس کے خلاف عوامی بغاوت ہوئی، وہ بھاگتا ہوا پنجاب کی طرف آیا، اٹک اور کشمیر میں قید رہا اور جب رنجیت سنگھ نے کشمیر فتح کیا تو اس نے ایسے پناہ دے کر مبارک حویلی لاہور میں اپنا مہمان بنا لیا۔ شاہ شجاع کے دل میں انگریز کی محبت کی تڑپ اس قدر تھی کہ وہ 1818ء میں وہاں سے بھاگ نکلا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے مرکز لدھیانہ میں اپنی بیویوں اور کنیزوں کے ساتھ انگریز کی خیرات پر عیش کی زندگی گزارنے لگا۔ شاہ شجاع واحد افغان ہے جسے اس کا افغان تخت واپس دلانے کے لیے انگریز اور سکھ دونوں متحد ہو گئے تھے۔
رنجیت سنگھ نے اسے پنجاب سے گزرکر کابل پر حملہ کرنے کے لیے راستہ دیا اور انگریز نے اسے فوج فراہم کی اور پھر تیس سال بعد 7 اگست 1839ء کو اسے کابل کے تخت پر بٹھا دیاگیا۔ اس معرکے میں جنرل الفنسٹن کی کمپنی نے بھرپور حصہ لیا۔ جیسے ہی برطانوی سپاہیوں کے قدم حریت پسند افغان مسلمانوں کی سرزمین پر اترے ایک نفرت کا طوفان کھڑا ہوگیا۔ اس کے بعد کے تین سال برطانیہ اور افغان مسلمانوں کے درمیان مسلسل جنگ کے سال ہیں۔ جس کا آخری معرکہ گندمک کے پہاڑوں پر ہوا، جہاں جرنل الفنسٹن کی سربراہی میں تقریبا بیس ہزار برطانوی فوجی مارے گئے۔
حریت پسند افغان مسلمانوں نے ایک ڈاکٹر، ولیم برانڈن (William Brydon) کو زندہ چھوڑا اور کہا، جاؤ اس عالمی طاقت "برطانیہ" کو خبردے دو کہ آئندہ وہ اس سرزمین کا رخ نہ کرے، کیونکہ یہاں اللہ پر توکل رکھنے والے مسلمان رہتے ہیں۔ اس زمانے میں بھی انگریزوں کی اس شکست پر ناگواری کا اظہار کرنے والے لاتعداد لوگ موجود تھے جو یہ کہتے پھرتے تھے کہ یہ شکست دراصل افغانوں کی بدقسمتی کا آغاز ہے، وہ اب عمر بھر پسماندہ رہ جائیں گے۔
اس عالمی طاقت کی شکست کے 137 سال بعد کیمونزم نظریہ کی سرخوشی اور عالمی طاقت ہونے کی سرشاری میں مست سوویت یونین کی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں۔ 1965ء کے افغان پارلیمانی الیکشن میں شکست کھانے والیاور افغان عوام میں غیر مقبول، نورمحمد ترکئی نے اپنے ساتھیوں حفیظ اللہ امین اور ببرک کارمل کے ساتھ "خلق" پارٹی کہ تحت روس کی مدد سے 27 اور 28 اپریل 1978ء کی رات صدر داؤد کو قتل کرکے کیمونسٹ "ثور انقلاب" برپا کیا۔
ایک نظریاتی کیمونسٹ کے طور پر اس نے ایسی اصلاحات نافذ کیں جو عوام نے اسلام اور دین پر حملہ تصور کیں۔ اس نے انکے نفاذ کیلئے اپنے مخالفین کا قتل عام شروع کیا اور پھر ایک دن آٹھ اکتوبر کو اسکو اپنے ہی ساتھیوں نے گلا گھونٹ کر قتل کر دیا۔ ایک اور نظریاتی کیمونسٹ، حفیظ اللہ امین برسراقتدار آیا۔ لیکن روس کو جلد ہی اپنے اس ساتھی کی عدم مقبولیت کا احساس ہوا تو اس نے اپنی افواج 27 دسمبر 1979ء کو افغانستان میں اتار دیں۔
سب سے پہلے انہوں نے اپنے ہی وفادار حفیظ اللہ امین کو کوکا کولا کی بوتل میں زہر پلایا۔ لیکن زہر اس میں موجود گیس کی وجہ سے ہلکا ہوگیا اور وہ بچ نکلا۔ سوویت یونین کی کے جی بی کے ایجنٹ میخائل تالیبوؤ نے یہ زہر دیا تھا۔ اس نے امین کو بچتے ہوئے دیکھا تو حملے کا سگنل دے دیا اور پھر وہ حفیظ اللہ امین جس نے سوویت یونین کے نظریات کی سربلندی کے لیے افغان قوم سے غداری کی تھی اسے گولیوں کی بوچھاڑ میں بھون دیا گیا۔ اس کے بعد ببرک کارمل سے نجیب اللہ تک عالمی طاقت سوویت یونین سے افغان مجاہدین کی جنگ کی طویل داستان ہے۔
اس آٹھ سالہ جنگ کے آخر یعنی 15 مئی 1988 کوشکست کی صورت، پہلے روسی سپاہی نے واپسی کا سفر شروع کیااور 15 فروری 1989 کو کرنل جنرل بورس گروموؤ کی سربراہی میں آخری شکست خوردہ قافلہ "حیرتان پل" سے دریائے آمو عبور کرتے ہوئے سوویت یونین واپس چلا گیا۔ اس فتح کو بھی اللہ کی مدد اور نصرت کی بجائے امریکہ اور آئی ایس آئی کے کھاتے میں ڈالنے والے لاتعداد پاکستانی دانشور اور سیاست دان ہی نہیں بلکہ افغان پشتون دانشور، سیاسی رہنما اور تجزیہ نگار موجود تھے۔ یہ لوگ آج تک اسے امریکہ کی فتح ہی قرار دیتے ہیں۔
لیکن میرے اللہ نے خوب فرمایا ہے "اور انہوں نے خفیہ تدبیر کی اور اللہ نے بھی خفیہ تدبیر کی اور اللہ سب خفیہ تدبیر کرنے والوں سے بہتر ہے (آل عمران: 53)۔ اللہ نے اس دفعہ واحد سپر پاور امریکہ کے مقابلے میں پوری افغان قوم نہیں بلکہ صرف طالبان کو تنہا کھڑا کر دیا اور انہیں پوری دنیا میں اکیلا کر دیا۔ مسلم امہ کے تمام ممالک بھی ان کے خلاف تھے اور کفر کا عالمی اتحاد تو ان پر حملہ آور تھا۔
میرے اللہ نے ان طالبان کو پوری دنیا کے عالمی اتحاد پر فتح سے ہمکنار کرکے اپنے اس اعلان کی تصدیق کر دی، " یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اپنی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھا دیں حالانکہ اللہ اپنے نور کی تکمیل کرکے رہے گا (الصف: 9)، یہ آیت یہاں ختم نہیں ہوتی، بلکہ اللہ اگلے حصے میں ان لوگوں کا تذکرہ بھی فرماتا ہے کہ جن کے دلوں میں کوڑھ ہے اور فرماتا ہے"چاہے کافروں کو یہ بات بہت بری لگے"(الصف: 9)، اس سے اگلی آیت میں اللہ فرماتا ہے، "وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچائی کا دین دے کر بھیجا تاکہ وہ اس دین کو دوسرے تمام دینوں پر غالب کردے، چاہے مشرکوں کو یہ بات بہت بری لگے" (الصف: 10)۔
آج طالبان کی اس فتح سے دنیا بھر میں موجود منکرینِ خدا، منکرینِ اسلام اور کفر کے سامنے سجدہ ریز سیکولر، لبرل اور مصلحت کوش مذہبی سکالروں میں جو ناگواری ہے یہ بھی میرے اللہ کی آیات(نشانیوں ) میں سے ایک ہے۔ ان میں سے آج کوئی اس فتح کا جشن نہیں منا رہا۔ کسی کوامریکہ کے جانے کے بعد کے افغانستان کے امن کی فکر ہے تو کوئی طالبان کی شدت پسندی کا ذکر اپنے کرکے اپنے دل کو ٹھنڈا کر رہا ہے۔ سب کا ماتم صرف ایک وجہ سے۔ یہ سب جدید دور کے مشرکین ہیں جو لات و ہبل کے بتوں کے سامنے نہیں بلکہ ٹیکنالوجی کے بت کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔
آج ان کے ٹیکنالوجی کے خدا کی ذلت آمیز شکست ہوئی ہے۔ ان کو ناگوار تو ہوگا۔