ملحد،سیکولر اور قادیانی اتحاد
نیویارک میں اس سال 23مارچ کو یومِ پاکستان کی تقریب میں شرکت کے لیے ،جب میں لاہور ایئرپورٹ پر اپنی پرواز پر سوار ہونے کے لیے پہنچا، تو ایک عرب ملک کی سرکاری ایئر لائن کے افراد نے مجھے لائن میں لگنے سے روک دیا ،اور کہا کہ پاکستان میں امریکی سفارت خانے سے احکامات آئے ہیں کہ ،آپ امریکہ کے لیے کسی پرواز سے بھی روانہ نہیں ہو سکتے۔ میں نے سوال کیا کہ پاکستان کی سرزمین پر امریکہ کا حکم کیسے چل سکتا ہے؟
میرے پاس جائز سفری دستاویزات ہیں۔ پاسپورٹ ہے، امریکی ویزہ ہے، امریکہ یہ حکم اس وقت جاری کرے جب میں اس کی سرزمین پر قدم رکھوں، مجھے وہاں سے واپس بھیجے، لیکن سرزمین ِ پاکستان پر اس کا حکم کیسے چلتا ہے؟ لیکن مجھے سوار نہیں ہونے دیا گیا۔یہ کوئی رات ایک بجے کا وقت تھا، اس کے ٹھیک دو گھنٹے بعد قادیانیوں کے سرکاری اخبار "ربوہ ٹائمز" نے، اسے ایک فاتحانہ انداز سے اپنی ویب سائٹ پر پوری تفصیل سے لگایا ،اور ساتھ وہ تاریخ بھی بیان کر دی کہ ،کب سے مجھے امریکہ میں داخل ہونے پر پابندی کے لیے مہم چلائی جا رہی تھی۔
انہوں نے گزشتہ سال دس مئی 2017ء کو مشہورِ زمانہ حسین حقانی کی بیوی، اور ممبر پارلیمنٹ کا امریکی ایمبیسی کو متوجہ کر کے لکھے گئے اس ٹوئیٹ کو بھی خبر میں لگایا۔
Dear US embi Islamabad: Who issued Oraya Maqbool Jan a Visa? Jan Critical of Ahmadiya Jamat, Feminism, atheism, Secularism etc۔
محترم امریکی ایمبیسی اسلام آباد:کِس نے اوریا مقبول جان کو امریکہ کا ویزا دیا ہے؟ جان احمدیہ جماعت، حقوق نسواں، الحاد اور سیکولر ازم کا سخت مخالف ہے۔
اس کے ساتھ ہی خبر میں کہا گیا کہ یہ ویزا اوبامہ کے زمانے میں دیا گیا تھا، اور ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کی اوریا مقبول جان پر پابندی ظاہر کرتی ہے کہ، وہ پاکستان جیسے "High Risk"(خطرناک) ملک کے ساتھ سختی سے پیش آ رہی ہے۔ آج ٹھیک سات ماہ بعد، جب میں حضرت داتا گنج بخشؒ کے عُرس کے سلسلے میں ،27اکتوبر 2018ء کو منعقد ہونے والی تقریب میں شرکت کے سلسلے میں جانے والا تھا ،تو ناروے کی اخباروں میں ایک طوفان کھڑا کیا گیا ،کہ میں وہاں نفرت پھیلانے آ رہا ہوں۔
اس ساری تحریک کی سرخیل ہیگی سٹورہاگ "Hege Storhaug"نامی ایک خاتون ہے،جو 2015ء میں منظر ِعام پر آنے والی اپنی متعصبانہ کتاب "Islam، den 11، Landeplage"(اسلام دھرتی کا گیارہواں طاعون) ہے۔ اس معاشرے میں یہ غلیظ کتاب، سب سے زیادہ بکنے والی کتابوں میں سے ایک ہے او راس کے کئی زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔ یہ نوے کی دہائی میں دو سال پاکستان میں بھی رہی ہے، اور اس نے پاکستان کے بارے میں ایک سفرنامہ بھی تحریر کیا ہے۔ اس نے ناروے میں جبری شادی اور ختنوں کے خلاف ڈاکومنٹریاں بنائیں ،اور اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔
اس کے خلاف غم و غصہ کا عالم یہ تھا کہ، 2007ء میں جب وہ گھر سے نکل رہی تھی ،تو اسے نامعلوم افراد نے زدوکوب کیا اور بے ہوش کر کے چھوڑ دیا۔ میری ناروے آمد سے پانچ روز قبل، 22اکتوبر کو اس کے اخبار "Reselt"میں میرے خلاف دو مضامین شائع کیے، جن کا عنوان تھا "پاکستانی شِدّت پسند، ناروے میں مہمانِ خصوصی"مضامین کا آغاز یوں ہوتا ہے۔سیکولر آلائنس کو اتوار کو خبر ملی کہ، 27اکتوبر کو پاکستانی شدت پسند اوریا مقبول جان کو، زہرہ منظور سوسائٹی نے مدعو کیا ہے۔ یہ وہی اوریا مقبول جان ہے، جو احمدیوں کو قتل کرنے کی بات کرتا ہے۔
اس کی یہودیوں سے دشمنی بھی چھپی ہوئی نہیں، جس کی وجہ سے گزشتہ مارچ میں اس کی امریکہ میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ اس کے بعد اخبار نے میرے ایک پروگرام "حرفِ راز" کے ایک حصے کو بددیانتی سے کاٹ چھانٹ کر وہ گفتگو لگائی ،جس میں مدیان نبوت کے خلاف ،رسول اکرم ﷺ اور سیدنا ابوبکرؓ کے عمل کا میں حوالہ دے رہا تھا۔ لیکن بعد کے حصے کو ہذف کر دیا گیا ،جس میں ان کے بحیثیت اقلیت حقوق کے بارے میں گفتگو کی گئی تھی۔ میرے خلاف اخبار میں شروع کی گئی اس مہم کا نتیجہ یہ نکلا ،کہ جس ہال میں یہ کانفرنس ہو رہی تھی، انہوں نے بکنگ کینسل کر دی اور پوسٹر بازی کی مہم شروع کر دی گئی۔
اب یہ کانفرنس ایک مسجد میں ہو رہی ہے، لیکن میں اپنے میزبان کو کسی مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ اس لیے میں نے وہاں جانا منسوخ کر دیا ہے۔ البتہ اس اخبار میں غلط، بے بنیاد اور توڑ موڑ کر رپورٹ کے ضمن میں، مقدمہ درج کروانے کی تیاری میں ہوں۔ ناروے اور امریکہ کا یہ کنکشن ،جس کی تار قادیانیوں کے ساتھ بندھی ہے۔ میرے خلاف اسی طرح کے بہت سے افسانے تراش کر،مغربی میڈیا کو بیچنے میں مصروف ہے۔ ایک مضحکہ خیز کہانی ،20ستمبر 2016ء کو امریکی پریس میں پھیلائی گئی۔ یہ دراصل ڈونلڈ ٹرمپ کی الیکشن مہم کا حصہ تھا۔
کہانی کا عنوان تھا:
Taliban Activist who met with clintan in Pakistan Promotes Hatered for Jews۔
"طالبان کے لیے سرگرم عمل شخص کی پاکستان میں کلنٹن سے ملاقات، وہ شخص جو یہودیوں کے خلاف نفرت کا پرچار کرتا ہے"۔ اس دور کی کوڑی اور سازشی تھیوری گھڑنے کے عمل کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ 2009ء کی بات ہے ،جب میں ڈائریکٹر جنرل والڈ سٹی لاہور تھا ،تو ہیلری کلنٹن پاکستان آئی، جسے میں نے کوئی ایک گھنٹہ تک بادشاہی مسجد اور ملحقہ جگہوں کا سرکاری طور پر دورہ کروایا۔
سات سال بعد مضمون نگار نے ایک کہانی گھڑی کہ، دراصل ہیلری کلنٹن اور اوریا مقبول جان کی یہ ملاقات اخوان المسلمون کی خاتون ہما عابدین نے کروائی۔ اس کے ساتھ مجھے کوئٹہ کا ظاہر کر کے یہ کہا گیا کہ ،نیوجرسی اور نیویارک میں بم دھماکے کرنے والے میرے پڑوس میں تیار ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مجھے خواتین دشمن، مغربی لائف سٹائل کا ناقد، مرضی سے جنسی تعلقات کا مخالف، ملالہ یوسف زئی سے نفرت کرنے والا اور خصوصی طور پر احمدیوں کا دشمن بنا کر پیش کیا گیا۔ یہاں ناروے کنکشن کا اظہار ہوتا ہے۔
مئی 2016ء میں ناروے کی ایک جامع مسجد میں میرے خطبۂ جمعہ کا موضوع، یاجوج اور ماجوج کے ساتھ یہودیوں سے آخری جنگ، یعنی ملحمتہ الکبریٰ تھا۔اس 45منٹ کے پورے خطبے کو انگریزی میں ترجمہ کر کے اس مضمون کا حصہ بنایا گیا، اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ ،میں مسلمانوں کو یہودیوں کے خلاف لڑنے پر اُکساتا ہوں۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ میرے خلاف اتنی زیادہ محنت، عرض ریزی کیوں،کیا میں واقعی ایک خطرناک انسان ہوں جو ہر سیکولر، ملحد اور قادیانی کی نیندیں اڑا سکتا ہے؟
ایسا تو ہرگز نہیں۔ ایک کمزور، ناتواں شخص جس کے ہاتھ میں اللہ نے قلم تھمایا ہے اور شاید زبان میں تاثیر دی ہے۔ یہ سب لوگ مجھ سے نہیں، اللہ کی ان دونوں نعمتوں سے خائف ہیں۔ میں اللہ سے نعمتوں کے زوال سے پناہ مانگتا ہوں۔