مغرب کی علم دشمنی کی روایت کا تسلسل (2)
گلیلیو کے مقدمے اور جیل خانے میں موت، دراصل قدیم رومن اور یونانی مذہبی نظریات کے ٹکرائو کی وجہ سے ہوئی۔ یہ ایسے نظریات تھے جنہیں پادریوں نے عیسائی مذہب کا حصہ بنا لیا اور پھر اس پر ڈٹ گئے۔ بائبل کی تعلیمات سے الگ تھلگ یہ ایک مذہبی سائنسی فکر تھی جو پادریوں کی زبان پر جاری تھی۔ جیسے ارسطو کا نظریہ کہ "سورج ساکن اور زمین چپٹی ہے" ایسی سائنس کو الہامی اشیر باد دینے کا مقصد صرف یہ تھا کہ ہر سائنسی تصور کو مذہب کی پیش گوئیوں سے منسلک کر دیا جائے۔ ایسے میں جب کوئی سائنس دان یہ دعویٰ کرتا کہ زمین گول ہے۔ سورج حرکت کرتا ہے، زمین گھومتی ہے اور یہ کائنات کا مرکز نہیں ہے تو اسے شیطانی روح خیال کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا کیونکہ چرچ اتنی ہی سائنس کو جائز قرار دیتا جتنی سائنس یونان اور رومن اقوام کے عیسائی ہونے سے پہلے رائج تھی۔ بعد میں آنے والا ہر نظریہ عبس، بے کار اور جہالت پر مبنی تھا۔
قدیم یورپ میں سائنس دانوں اور فلسفیوں پر ظلم و جبر تو مذہب اور سائنس کی لڑائی تھی لیکن جدید مغرب میں سائنس دانوں کا قتل عام جدید کارپوریٹ، جمہوری نظام کی بالادستی کی لڑائی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سی آئی اے نے پوری دنیا میں جتنے افراد قتل کروائے ہیں، ان میں پچاس فیصد سائنس دان اور مفکر تھے۔ وہ عالمی سائنس دان جو ڈی این اے کی خصوصیات (DNA specifications) پر کام کر رہے تھے اور ایک ایسا (Pathogen) یعنی مرض نشو و نما کرنے والا وائرس یا بیکٹیریا ایجاد کرنا چاہتے تھے جس کی مدد سے بھورے بالوں اور ہلکے رنگ والی آنکھوں والے لوگوں کی نفسیات اور جرائم کا اندازہ ہو سکے، انہیں چن چن کر مارا گیا۔
16 نومبر 2001ء کو ڈون سی ولی Don c wiley کو میمنس میں اغوا کرکے قتل کر دیا گیا۔ اسی طرح ڈیوڈتیرازتر کو لندن میں اس کے گھر میں گھس کر 10 دسمبر 2001ء کو قتل کر دیا گیا۔ 12 دسمبر 2001ء کو ڈاکٹربنٹو کیو کو اپنی لیبارٹری میں ڈنڈے مار کر مارا گیا۔ 23دسمبر 2001ء کو ولادیمر پالنگ کو لندن میں گھر میں قتل کیا گیا۔ 14 دسمبر 2001ء کو سٹیوان نیگبن کو آسٹریلیا کے شہر نگیبن میں بڑے فریج میں بند کرکے مار دیا گیا۔ یہ سب کے سب سائنسدان جو دنیا کے مختلف ملکوں میں رہتے تھے مگر ایک مشترکہ پراجیکٹ پر کام کرتے تھے، اور یہ پراجیکٹ امریکی سی آئی اے کے نزدیک خطرناک نتائج دے سکتا تھا، اس لیے انہیں قتل کر دیا گیا۔
یہ تمام کے تمام عالمی شہرت یافتہ سائنس دان تھے۔ ایسے سائنس دان جو عالمی ماحولیات پر سرمایہ دارانہ معیشت کے اثرات کی تحقیق کرتے ہیں ان کے قتل تو بے شمار ہیں، اس کا آغاز 21 جولائی 2001ء کو جان بیڈو کو بوسٹن میں قتل کرکے کیا گیا جو ماحولیاتی آلودگی پر امریکی کمپنیوں کے اثرات پر تحقیقات کر رہا تھا۔ ایٹمی سائنسدان اگر آپ کے مفادات کے خلاف بیان بھی دے تو وہ ناقابلِ معافی ہے۔ 2006ء میں امریکہ کے بہت بڑے ایٹمی سائنس دان رابرٹ جے لل کو غنڈوں سے اس لیے مروایا گیا کیونکہ وہ دنیا کے تمام ملکوں کو ایٹمی توانائی مہیا کرنے پر بحث کر رہا تھا۔
یہ لوگ اسقدر ظالم ہیں کہ اپنے ان محسن سائنسدانوں کو بھی نہیں چھوڑتے جنہوں نے ان کے لیے خفیہ طور پر کام کیا تھا۔ اسرائیل 2003ء میں کیمیائی ہتھیاروں کے پراجیکٹ پر کام کر رہا تھا، فروری میں دنیا بھر سے دس مائیکروبیالوجسٹ اسرائیل گئے۔ انہوں نے کیمیائی ہتھیاروں پر کام کیے۔ اس پراجیکٹ پر کام کرنے کی وجہ سے ان کے سینوں میں ایسے راز آ چکے تھے کہ ان کا زندہ رہنا خطرناک تھا۔ واپسی پر ان کے جہاز کو میزائل سے اڑا دیاگیا۔ ایسا ہی ایک سائنس دان فرینک اولسن سی آئی اے کا مستقل ملازم تھا۔ اس نے طرح طرح کے کیمیائی ہتھیار بنائے۔
سرد جنگ میں اس کے یہ ہتھیار بہت مقبول ہوئے۔ اس نے ایسا مچھرمار زہر ایجاد کیا جس کے استعمال سے انسان بھی آہستہ آہستہ مرنے لگتے ہیں اور پھر اسے پولینڈ کی فوج کو بیچا گیا۔ ایک ٹوتھ پیسٹ بنائی جس کے استعمال سے فالج اور جسمانی بیماری پیدا ہوتی ہے اور بلغاریہ کے شہریوں کو میڈیا کے ذریعے بیچی گئی۔ اسی نے شنگل بیکٹریم ایجاد کیا جسے خوراک کے ذریعے لوگوں کو دیا جاتا اور وہ قے کرتے کرتے مر جاتے۔ اس بیکٹریم کو پولینڈ اور دیگر مشرقی ممالک میں ساٹھ کی دہائی میں بیچا گیا لیکن اس سائنس دان کی بدقسمتی کہ اس نے ایک دفعہ سی آئی کے سیف ہائوس کا دورہ کر لیا، جہاں پر قید معصوم لوگوں پر یہ کیمیائی ہتھیار استعمال ہوتے اس نے دیکھ لیے۔ وہ وہاں سے غصے میں گالیاں نکالتا ہوا باہر نکلا لیکن چند دنوں بعد اسے نیویارک کے ایک ہوٹل کی دسویں منزل سے گرا دیا گیا۔
نائن الیون کے بعد قتل ہونے والے سائنس دانوں کی تعداد ہزاروں میں بنتی ہے جن میں بغداد میں قتل ہونے والے بارہ سو سائنس دان بھی شامل ہیں۔ مسلمان ممالک میں پیدا ہونے والا کوئی بھی سائنس دان جو ان کے زیر اثر نہ رہے، موت اس کا مقدر ہوتی ہے۔ لبنان میں پیدا ہونے والا رمال حسن رمال شماریاتی مکینکس کا اسقدر ماہر تھا کہ نہ صرف اپنی فرانسیسی یونیورسٹی میں مشہور ہوا بلکہ پوری دنیا میں اس کے علم سے استفادہ کیا جانے لگا۔ وہ فرانس کا شہری نہیں تھا مگر اسے فرانسیسی تحقیقی ادارے کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ فرانس میں اس کے نام پر "رمال" ایوارڈ جاری کیا گیا۔
ایک دن اس نے بیروت واپس جا کر اپنے ملک میں خدمات سرانجام دینے کے لیے کہا، وہ جانے کی تیاریوں میں تھا کہ 31 مئی 1991ء کو اسے پراسرار طور پر قتل کر دیا گیا۔ جمال حمدان جو 1928ء میں پیدا ہوا، دنیا بھر میں اپنی تاریخی تحقیقات کی وجہ سے ایک اتھارٹی مانا جاتا تھا۔ لیکن جیسے ہی اس نے صہیونیت کے بارے میں کتاب لکھنا شروع کیا اس کو اس کی لائبریری میں جلا دیا گیا۔ سعید السدید ان سائنسدانوں میں سے تھا جو مائیکرویو الیکٹریکل ٹیکنالوجی میں دنیا بھر میں مانا جاتا تھا۔ اس نے مصر میں راکٹ انجینئرنگ پر کام شروع کیا اور ایک دن سکندریہ میں ایسے مارا گیا جیسے کوئی اس کی رگیں کاٹ گیا ہو۔
لبنان کا حسن کامل الصباح جو فلائی راکٹ کا ماہر تھا، 31 مارچ 1935ء میں نیویارک میں قتل ہوا۔ یحییٰ المشد یورینیم کی افزودگی کا مصری ماہر تھا۔ 16جون 1980ء کو پیرس کے ہوٹل میں قتل کیا گیا۔ ایرانی ایٹمی سائنس دان مسعود علی محمدی جو ایرانی ایٹمی پروگرام کے ساتھ خفیہ طور پر منسلک تھا، ایک بم دھماکے میں مار دیا گیا۔ مصر کا علی مصطفی مشرنہ جو اتنا بڑا ایٹمی سائنسدان تھا کہ آئن سٹائن اس کا معترف تھا 1989ء میں پیدا ہونے والا یہ شخص ان سات سائنسدانوں میں سے ایک تھا جو ایٹم کے اندرونی راز سے باخبر تھے۔
15جنوری کو قتل ہوا تو اس پر سب سے بڑا بیان آئن سٹائن کا آیا کہ اسے مصر کے ایٹمی پروگرام کی سزا دی گئی۔ کہانی طویل ہے اور دلگداز بھی لیکن ایک تسلسل ہے۔ پہلے صرف سائنس دان قتل ہوتے تھے۔ اب وہ سائنسدان قتل ہوتے ہیں جو عالمی نظام کے لیے خطرہ ہوں۔ (ختم شد)