لاہور میں شاہ ولی اللہ ؒکی فکر کا امین
ایک صاحبِ علم جس کو اللہ نے تقریر کے فن میں بھی مہارت عطا کی ہو، اس کا کمال یہ ہوتا ہے کہ اس کی تقریر اس قدر مربوط اور جامع ہوتی ہے کہ اسے بغیر کسی تخفیف و اضافہ، ایک مضمون کی صورت ضبطِ تحریر میں لایا جا سکتا ہے۔ صدیوں سے روایت چلی آ رہی ہے کہ لوگ اپنے اساتذہ کی گفتگو کو ذہن میں محفوظ کرتے اور پھر اسے تحریر میں لا کر آنے والی نسلوں کیلئے ایک اثاثہ چھوڑ جاتے۔ افلاطون کی اکثر کتب اس کے اُستاد سقراط کی گفتگو کا نچوڑ ہیں۔ اولیائے کرام اور بزرگانِ دین کی مجلسی زندگی میں کہی گئی باتوں کو تحریری طور پر جمع کرنے کے فن کو "ملفوظہ نویسی" کہتے ہیں۔
ہماری تصوف کی ساری تاریخ انہی ملفوظات سے عبارت ہے۔ وقت بدلا، عدمِ فرصت نے علمائ، بزرگانِ دین، صوفیاء اور فلسفیوں کی محافل کو اُجاڑ کر رکھ دیا۔ صوفی بقول اقبالؒ "یہ سالک مقامات میں کھو گیا"۔ علماء نے کاغذ قلم سنبھالا اور کتب تحریر کرنے میں لگ گئے۔ چھاپہ خانے کی ایجاد نے ان کی تحریروں کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کا بندوبست کر دیا۔ ایسے میں بہت سے تشنگانِ علم ایسے بھی تھے جو کتاب پڑھنے کی بجائے، تقریر کی لذت سے لطف اندوز ہونے کے ذریعے علم کے بحرِبیکراں میں موجزن ہونا چاہتے تھے۔ ان کیلئے ایک عام خطیب جو گھِسی پٹی گفتگو کرتا تھا، وہ کسی بھی قسم کی جاذبیت نہیں رکھتا تھا۔ ان کی تلاش کسی ایسے صاحبِ علم کی تھی، جو اپنی تحریروں کا نچوڑ عام فہم زبان میں دلنشیں تقریر کی صورت بیان کرے۔
اللہ نے تحریر و تقریر پر ایسی دسترس اور ملکہ بہت کم لوگوں کو عطا کیا ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی تحریر بھی متاثر کن ہوتی ہے اور جن کی تقریر بھی سحر طاری کر دیتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ تشنگان کی پیاس بڑھتی ہی چلی گئی۔ وجہ یہ تھی کہ، تقریر کا فن مجمع باز مقررین کے قبضے میں چلا گیا اور تحریر کی دولت والے خوبصورت تحریریں لکھتے تھے، مگر تقریر کے میدان سے دُور بھاگتے۔ زوال کا عالم یہ تھا کہ اب کوئی ایسا انہماک سے سننے والا بھی باقی نہیں رہا تھا جو کاغذ قلم لے کر بیٹھ جاتا اور ملفوظات تحریر کرتا رہتا۔
جدید دَور کی تیز رفتاری نے اس علمی تشنگی کا علاج "خطبات" سے نکالا گیا۔ یہ فن دراصل مغرب سے ہمارے ہاں آیا، جسے وہاں "Extension Lectures" یعنی توسیعی لیکچر کہا جاتا ہے۔ ایسے لیکچر کسی مضمون کے ماہر سے دلوائے جاتے ہیں جو موضوعاتی ہوتے ہیں اور ان کے سننے والے بھی خصوصی طور پر ایسے منتخب کئے جاتے ہیں جو موضوع میں دلچسپی رکھتے ہوں اور صاحبِ لیکچر کو سننے کیلئے بھی بے تاب ہوں۔ عموماً ایسے لیکچر بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں تشنگانِ علم کی پیاس بجھانے کیلئے منعقد کروائے جاتے ہیں۔ برصغیر میں ان توسیعی لیکچرز کی روایت علامہ سید سلیمان ندویؒ نے ڈالی۔
یہ وہی سلیمان ندویؒ ہیں جنہوں نے علامہ شبلی نعمانیؒ کی شروع کردہ "سیرت النبیؐ " جو انہوں نے صرف ایک جلد تک لکھی تھی، اسے آٹھ جلدوں تک مکمل کیا تھا۔ انہوں نے اکتوبر اور نومبر 1925ء کے مہینوں میں مدراس کے لولی ہال (lovely hall) میں سیرت النبیؐ کے مختلف موضوعات پر خطبے دیئے۔ ان کے سامعین میں انگریزی سکولوں کے طلبہ اور عام مسلمان دونوں شامل تھے، اس لئے ان کے بیان میں علم کے خزائن اور آسان فہم زبان کا خوبصورت ملاپ ہے۔ یہ لیکچر "خطباتِ مدراس" کے نام سے 1926ء میں کتابی صورت میں شائع ہوئے اور سیرت النبیؐ پر اُردو میں لکھی جانے والی چند عظیم تحریروں میں شمار ہوتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ جنہیں پوری زندگی لوگوں سے ایک ہی گلہ رہا کہ
من اے میر امم داد از تو خواہیم
مرا یاراں غزل خوانے شمردند
"اے رسول اللہ ﷺ، میں آپ سے ہی داد کا طلبگار ہوں کیونکہ میری قوم نے تو مجھے فقط شاعر سمجھ لیا ہے"۔ قوم سے گِلہ مند اسی علامہ اقبالؒ نے دسمبر 1928ء اور جنوری 1929ء کے دوران مدراس، حیدر آباد دکن اور علی گڑھ میں مسلم ایسوسی ایشن کی دعوت پر توسیعی لیکچر دیئے، جن کو ایک کتاب "The Reconstruction of Religious Thought in Islam" کے نام سے1930ء میں شائع کیا گیا۔ ان خطبات کا اُردو ترجمہ نذیر نیازی صاحب نے 1936ء میں علامہ اقبالؒ کی زیرِ نگرانی شروع کیا جس کا نام خود علامہ اقبالؒ نے "تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ" رکھا۔
اس وقت تک آڈیو ریکارڈنگ 1877ء میں ہی ایجاد ہو چکی تھی مگر ابھی اپنے ابتدائی دَور سے گزر رہی تھی جسے "Acoustical" دَور کہتے ہیں، اس لئے یہ دونوں خطبات تقریر سے پہلے تحریر کئے گئے تھے۔ لیکن 1925ء میں مائیکرو فون اور آواز کو دُور تک پہنچانے والے "ایمپلی فائر" نے دُنیا ہی بدل دی۔ اب مقررین کی ہر بات ریکارڈ کی جا سکتی تھی اور اس ریکارڈنگ کی بنیاد پر اسے ضبطِ تحریر میں لایا جا سکتا۔ یوں دُنیا بھر میں خطبات یا "Extension Lectures" سے بے شمار اعلیٰ پائے کی تحریروں نے جنم لینا شروع کیا۔ اس جدید دَور میں اسلام کے حوالے سے سب سے متاثر کن خطبات، ڈاکٹر حمید اللہ صاحب ؒکے ہیں۔
یہ خطبات یا توسیعی لیکچر انہوں نے 8 مارچ سے 20 مارچ 1980ء کے دوران جامعہ عباسیہ موجودہ اسلامیہ یونیورسٹی، بہاولپور میں دیئے جو "خطباتِ بہاولپور" کے نام سے شائع ہوئے۔ بلا شبہ یہ ایسی کتاب ہے جس نے مسلمان اذہان میں موجود صدیوں پرانی گتھیوں کو سُلجھایا ہے۔ کتاب کانشہ ایسا ہے کہ بار بار پڑھنے سے بھی آدمی سیر نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر حمید اللہ ؒکے علم کی ہمہ گیریت اور لوگوں تک آسان فہم انداز میں بات پہنچانے کے فن نے اس کتاب کو بیش بہا عروج بخشا ہے۔ جامعہ عباسیہ بہاولپور کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے نومبر 2016ء میں بہائوالدین زکریا یونیورسٹی کے شعبۂ علومِ اسلامیہ نے برصغیر پاک و ہند میں دینی روایت کے اولین مؤسس شاہ ولی اللہؒ کی فکر کے امین مولانا عبدالخالق آزاد رائے پوری کے سات توسیعی لیکچرز کروائے۔
مولانا عبدالخالق آزاد رائے پوری لاہور کی قدیم کوئنز روڈ اور مزنگ چوک کے سنگھم کے قریب ایک درس گاہ میں شاہ ولی اللہؒ کی علمی روایت کو قائم رکھے ہوئے۔ ان کا یہ ٹھکانہ خانقاہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے تسلسل کا امین ہے۔ میں نے ان کے کئی خطبات کو "یوٹیوب" پر سُنا اور متاثر ہو کر ان سے فون پر ملاقات کی خواہش کا اظہار بھی کیا، جو گذشتہ ایک سال کی ناسازیٔ طبیعت کی وجہ سے آج تک پوری نہ ہو سکی۔ لیکن اس دوران ہمارے دوست کالم نگار اور میرے حج کے ساتھی، محی الدین صاحب نے مولانا کے ملتان یونیورسٹی میں دیئے گئے خطبات یا توسیعی لیکچروں پر مشتمل کتاب "خطباتِ ملتان" کا بندوبست کر دیا۔
کتاب کیا ہے ایک صاحبِ علم کے علم کا خزانہ ہے، جو یونیورسٹی کے جدید علوم کے غواض طلبہ تک پہنچایا جا رہا ہے۔ شاہ ولی اللہؒ نے اپنے عہد اور اپنے بعد میں آنے والے عہد کے علماء کو متاثر کیا ہے اور ان کی چھاپ ہر تحریر اور تقریر میں نظر آتی ہے۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ سے مولانا عبید اللہ سندھیؒ اور مفتی کفایت اللہ دہلویؒ تک ایک مربوط علمی اور صوفیانہ سلسلہ تو ان کی فکر کا امین ہے ہی، لیکن مولانا مودودیؒ جیسا شخص بھی اپنی تحریروں میں شاہ ولی اللہؒ سے بہت حد تک متاثر نظر آتا ہے۔ مولانا عبدالخالق آزاد کے ان خطبات کے موضوعات آج کے دَور کے نوجوان کے ذہنوں میں اُٹھنے والے سوالات کے آئینہ دار ہیں۔ مثلاً اسلام اور عدلِ اجتماعی، شاہ ولی اللہؒ کا نظریہ معیشت، نظریۂ ارتفاقات، رسول اکرمﷺ کے اُسوۂ حُسنہ کی روشنی میں سماجی تشکیل نو اور خاص طور پر اُسوۂ حُسنہ اور پاکستانی معاشرے کا استحکام (مسائل اور تقاضے)۔
شاہ ولی اللہ جنہیں آج کا نوجوان صرف اس حد تک جانتا ہے کہ انہوں نے برصغیر میں ہندوئوں کے مکمل غلبے کو روکنے کیلئے افغانستان کے احمد شاہ ابدالی کو خط لکھا تھا اور ان کی فرمائش پر اس نے یہاں آ کر مرہٹوں کے لشکر کو ایسا تباہ و برباد کیا تھا، کہ اگلے سو سال تک کسی نے دوبارہ ہندو توا، گیروی پرچم اور گپتا بادشاہت کی دوبارہ بنیاد رکھنے کا سوچا تک نہیں تھا۔ اس شاہ ولی اللہؒ کے علمی کام اورعلمی روایت کا جس طرح ان خطبات میں تعارف کروایا گیا ہے، وہ یقینا موجودہ اور آنے والی نسلوں پر ایک احسانِ عظیم ہے۔