Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Orya Maqbool Jan
  3. Kya Hum Angrez Se Ziyada Behis Hain?

Kya Hum Angrez Se Ziyada Behis Hain?

کیا ہم انگریز سے زیادہ بے حس ہیں؟

انگریز نے اپنی بالادستی، حکمرانی اور جبر مسلّط کرنے کے لئے ڈپٹی کمشنر / ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا ایک ایسا عہدہ تخلیق کیا تھا جسے تاجِ و تختِ برطانیہ کے تمام اختیارات حاصل تھے۔ وہ دراصل اپنے ضلع میں ایک چھوٹا سا وائسرائے ہوتا تھا۔ اس کی قوت اور طاقت کے لئے انگریز نے لاتعداد قوانین بنائے۔

ان قوانین میں سب سے اہم دو قوانین تھے، (1) تعزیراتِ ہند "Indian Penal Code" اور ضابطہ فوجداری (Code of Criminal Procedure)۔ ضابطہ فوجداری اوّل سے لے کر آخر تک ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے گرد گھومتا ہے۔ تعزیراتِ ہند میں ممکنہ حد تک تمام جرائم اور ان سے متعلق سزائیں درج ہیں، جبکہ ضابطہ فوجداری ایسے تمام جرائم کی روک تھام، تفتیش اور مجرموں کی سزائوں سے متعلق مختلف عہدیداروں کے کام کاج کا طریقِ کار بتاتا ہے۔

انگریز نے جب جرائم کی فہرست مرتب کی تو اسے یہ اندیشہ لاحق ہوا کہ عین ممکن ہے ان میں سے کوئی ایسا جرم رہ جائے اور ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر کے پاس کوئی ایسا قانون ہی موجود نہ ہو جس سے وہ اس جرم پر قابو پا سکے۔ اسی خیال سے انگریز نے ضابطہ فوجداری میں ایک خصوصی باب شامل کیا۔

یہ ضابطہ فوجداری کا گیارھواں باب ہے جس کا عنوان ہے:"Temporary Orders in Urgent Cases of Nuinace and Apprehended Danger" "فوری نوعیت کے ممکنہ خطرات اور مضر اشیاء کے لئے عارضی احکامات"۔ اس باب کا آغاز سیکشن 144 سے ہوتا ہے۔ اس سیکشن کے تحت اس وقت کا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور اب کوئی انتظامی مجسٹریٹ یا پھر صوبائی حکومت کسی چیز پر یہ سوچ کر پابندی لگا سکتی ہے کہ اس سے عوام الناس کو کسی بھی قسم کا نقصان ہو سکتا ہے، جیسے برسات کے موسم میں قلفیوں اور برف کے گولوں پر پابندی لگا دی جاتی تھی اور آج کل عموماً سموگ کے خطرے سے بچنے کے لئے فصلوں کو جلانے سے روکا جاتا ہے۔

یہ تو اس قانون کا ایسا استعمال ہے جو انسانی جانوں کے تحفظ کے لئے کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کا ایک ظالمانہ استعمال انگریز دور سے چلا آ رہا ہے۔ انگریز اسے اپنے خلاف اُٹھنے والی آوازوں یا چلنے والی تحریکوں کو دبانے کے لئے استعمال کیا کرتا تھا۔ اس قانون کے تحت لوگوں کے ایک جگہ جمع ہونے کو غیر قانونی مجمع (Unlawful Assembly) قرار دیا جا سکتا ہے۔ انگریز یوں تو اسے استعمال کرتا تھا، لیکن یہ دفعہ 144 جتنی بار پاکستان کے صرف ایک ضلع میں لگائی گئی، اتنی دفعہ انگریز نے پورے ہندوستان میں نہیں لگائی ہوگی۔

تعزیراتِ پاکستان کے سیکشن 141 میں"غیر قانونی مجمع (Assembly) کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ "ایک ایسا مجمع یا اکٹھ جو پانچ یا پانچ سے زیادہ افراد پر مشتمل ہو"۔ لیکن اس مجمع کو غیر قانونی قرار دینے کی پانچ شرائط ہیں۔ (1)یہ مجرمانہ طاقت کا استعمال کر کے کسی سرکاری افسر کو کام سے روکنا چاہتے ہوں (2)کسی قانون کے نفاذ کو روکیں (3)کوئی شرارت کریں یا قانون توڑیں (4)کسی فرد یا افراد کے حقوق مثلاً راستہ، پانی و بجلی وغیرہ کو طاقت سے صلب کریں یا (5)کسی فرد کو کوئی ایسا کام کرنے پر مجبور کریں جو قانونی طور پر جائز نہ ہو۔

دفعہ 144 کے تحت انسانوں کے کسی ایک جگہ جمع ہونے کو حکومت کسی بھی وقت اپنی "دانست" اور "خوف" کی بنیاد پر غیر قانونی قرار دے سکتی ہے، خواہ سبزی منڈی میں سبزی بیچنے والوں کا ہجوم ہی کیوں نہ ہو۔ ایک دفعہ مجمع یا اسمبلی کو غیر قانونی قرار دے دیا تو پھر اس کو منتشر کرنے کے لئے طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے۔

عمومی طور پر پہلے پولیس کو اسے منتشر کرنے کے لئے بھیجا جاتا ہے، وہ ناکام ہو جائے تو پھر پیراملٹری فورسز مثلاً رینجرز وغیرہ کو بلایا جاتا ہے اور آخر میں ضابطہ فوجداری کے تحت شہر میں موجود افواجِ پاکستان کے کسی بھی ذمہ دار افسر کے حوالے شہر کر دیا جاتا ہے اور ساتھ ہی یہ ہدایات بھی دی جاتی ہیں کہ وہ کم سے کم طاقت استعمال کرتے ہوئے اس غیر قانونی مجمع یا اسمبلی کو منتشر کرے۔ اس ضمن میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کرفیو بھی نافذ کر سکتا ہے۔

یہ ہیں وہ اختیارات جو انگریز نے اس خطے کے محکوم عوام کی آوازوں کو بوقت ضرورت دبانے کے لئے ہتھیار کی صورت انتظامیہ کو عطا کئے تھے، لیکن پاکستان کے قیام کے بعد تو انتظامیہ نے اسے ایک کھلونا بنا دیا۔ نہ صرف یہ کہ دفعہ 144 کا دلیرانہ اور ناجائز استعمال بار بار کیا گیا، بلکہ اس کے ساتھ ایسے لاتعداد قوانین بھی بنائے گئے، جنہیں دفعہ 144 کی خلاف ورزی کے ساتھ اکٹھا کر کے جرم کو مزید سنگین بنایا جاتا ہے اور یوں اکثر عوام پر پہلے بہیمانہ تشدد کیا گیا، اور اس کے بعد ان پر خوفناک الزامات لگا کر گرفتار کر کے مقدمات چلائے گئے۔

گیارہ ستمبر کے بعد دہشت گردی کا فیشن ایسا چلا ہے کہ اب تو پولیس غصے سے گھورنے پر بھی دہشت گردی کا پرچہ کاٹ دیتی ہے۔ اُکسانا، ایمائ، تقریر میں جارحیت جیسے جرم تو پہلے بھی ایف آئی آر میں شامل ہوتے تھے، لیکن ایوب دَور میں ایک خصوصی قانون لایا گیا جسے "Maintenance of Public Order (MPO) کہتے تھے۔ اس کی دفعہ 16 کے تحت بغاوت کے مقدمے بنائے جانے لگے۔ آج اس کا نعم البدل دہشت گردی ہے اور بغاوت کے لئے انگریز کے بنائے ہوئے تعزیرات کے سیکشن 124(A) کے تحت بغاوت کے مقدمات بنائے جاتے ہیں۔ دہشت گردی کا تڑکہ اس لئے لگایا جاتا ہے تاکہ مقدمے کو ناقابلِ ضمانت بنایا جائے۔

گذشتہ پچھتر سالوں میں وقت کے ساتھ ساتھ ہماری ریاست اور حکومت عوام کے معاملے میں زیادہ ظالم، بے حس اور خوفناک ہوئی ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ یہ تمام ادارے انگریز کے زمانے سے چلے آ رہے ہیں۔ لیکن انگریز کے ڈیڑھ سو سالہ دورِ اقتدار میں ہزاروں چھوٹے بڑے لیڈروں نے ان کے بارے میں گفتگو ضرور کی ہوگی لیکن کوئی ایک ایسی مثال نہیں ملتی کہ انگریز نے اداروں کو بدنام کرنے کے جرم میں کوئی ایک ایف آئی آر بھی کاٹی ہو۔ انگریز کو علم تھا کہ اگر ہم نے اداروں کو عوامی غیظ و غضب کے مقابل لا کر کھڑا کر دیا تو اس کے نتیجے میں کسی کی بھی عزت سلامت نہیں رہے گی اور جب عزت سلامت نہ رہی پھر ہم قانون کیسے نافذ کریں گے۔

انگریز دور کا سب سے ظالمانہ واقعہ جلیانوالہ باغ کا 1919ء کا واقعہ تھا جب ایک ہنستے کھیلتے مجمع کو ڈپٹی کمشنر امرتسر سے دفعہ 144 لگوا کر پہلے غیر قانونی اسمبلی قرار دلوایا گیا اور پھر اس پر گولیاں برسا دی گئیں۔ عوامی ردّعمل کے خوف سے اس واقعے کے بعد امرتسر شہر میں کرفیو لگا دیا گیا تھا۔ انگریز حکومت کو فوراً اندازہ ہوگیا کہ جان بوجھ کر ایک جگہ بیٹھے لوگوں کو غیر قانونی اسمبلی قرار دے کر مارا گیا ہے، جس کا ردّعمل انتہائی خوفناک ہو سکتا ہے۔ اس لئے فوراً وزیر اعظم ایسوکوئیتھ اور وزیر جنگ چرچل نے اس کی مذمت کی۔

برطانوی اسمبلی میں طویل بحث ہوئی اور اس کے بعد لارڈ ہنٹر کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم ہوا، جس میں دو جج اور تین میجر جنرل شامل تھے۔ فائرنگ کا حکم دینے والے جنرل ڈائر کو کمیشن کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس نے کہا یہ سب لوگ ریاست کے باغی اکٹھا ہوئے تھے اور میں انہیں سبق سکھانا چاہتا تھا۔ اسے مجرم قرار دیا گیا اور سخت ترین سزا تجویز کی گئی۔ لیکن اس کی سزا میں افغان جنگ کی خدمات کی وجہ سے تخفیف کرتے ہوئے اسے نوکری سے برطرف کر دیا گیا اور ساتھ ہی اس پر ہندوستان میں کسی دوسرے عہدے پر کام کرنے پر بھی پابندی لگا دی گئی۔

سزاء میں تخفیف ہونے سے عوام کا غصہ کم نہ ہوا اور پھر اس کا نتیجہ پنجاب کے گورنر مائیکل اڈوائر کو بھگتنا پڑا اور ایک سِکھ نوجوان اودھم سنگھ نے برطانیہ جا کر پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے اسے فائر کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ کیا ہم لال مسجد، ماڈل ٹائون، تحریک لبیک، 25 مئی 2022ء اور 12 مئی کے کراچی جیسے سانحات پر کوئی ایسا کمیشن بٹھا سکتے ہیں اور ایسی سزاسنا سکتے ہیں۔ اگر نہیں سنا سکتے تو پھر آپ جس عوامی غم و غصہ کو دعوت دے رہے ہیں اس کا انجام بہت خوفناک ہو سکتا ہے۔

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.

Check Also

Heera Mandi Se Cafe Khano Tak Ka Safar

By Anjum Kazmi