کتنا وقت انسانیت کے پاس باقی ہے (2)
دجلّہ و فرات کی وہ سرزمین جسے انسانی تہذیب کا گہوارہ کہا جاتا ہے، ہمورابی کا زمانہ جو 1792ء سے 1750ء قبل مسیح تک پھیلا ہوا تھا، اس دَور میں پوری دُنیا کا دارالحکومت تصور کی جاتی تھی، آج یوں لگتا ہے جلد ہی ایک ایسے صحرا میں تبدیل ہو جائے گی، جیسا صحرا کئی ہزار سال پہلے افریقہ کے سرسبز میدانوں کو چاٹ گیا تھا اور وہاں سے قدیم ترین انسان ہجرت کر کے پوری دُنیا میں پھیلے تھے۔ دجلّہ اور فرات کے دونوں دریا ترکی سے شام میں داخل ہوتے ہیں اور پھر عراق کو سیراب کرتے ہوئے خلیج فارس میں ڈوب جاتے ہیں۔
دجلّہ "ہزار" جھیل سے نکلتا ہے جس کے نیچے چار ہزار سال پرانا شہر ابھی دریافت ہوا ہے، جس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ یہ کونسی بستی تھی جو دُور دراز پہاڑ کے دامن میں آباد تھی اور پھر کیوں غرق ہو گئی۔ فرات کا دریا کوہِ ارارات سے نکلتا ہے جس کے دامن میں واقع جھیل "وان" اس کا نکتۂ آغاز ہے۔ یہ وہی کوہِ ارارات ہے، جس کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ طوفانِ نوح کے ختم ہونے پر حضرت نوح ؑکی کشتی یہاں آ کر رُکی تھی۔ یہ دونوں دریا جو اب خشک ہو رہے ہیں، انسانی تاریخ کے بیشمار واقعات کے گواہ ہیں۔
نمرود کی داستانیں، سیدنا ابراہیم ؑ کا پیغامِ حق، ہمورابی کے قوانین، ہوا میں معلق باغات اور سیدنا امام حسینؓ کی شہادت گاہ، کربلا اسی دجلّہ و فرات کے سرسبز میدانوں کی تاریخ ہے۔ عباسیوں کے علمی مرکز اور اسلامی تہذیب کی علامت بغداد کی رونقیں، مسلمانوں کا عروج اور پھر ہلاکو کا قتلِ عام، خلافتِ عثمانیہ کے عظیم جرنیل پاشا کی برطانوی افواج سے مڈ بھیڑ، صدام حسین کا عراق، امریکیوں کا عراق میں 14 لاکھ مسلمانوں کا قتل اور صدام حسین کا قرآن پڑھتے ہوئے پھانسی کے پھندے پر جھولنا، یہ سارا منظرنامہ بھی اسی سرزمین نے اپنی چشمانِ حیرت زدہ میں محفوظ کر رکھا ہے۔
فرات کا یہ دریا جو ترکی کے عرفہ شہر کے قریب سے شام میں داخل ہوتا ہے اور پھر فوراً بعد اعماق اور دابق کے ان وسیع میدانوں سے گزرتا ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق آخری بڑے معرکے نے برپا ہونا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، "قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ رومی اعماق یا دابق میں آئیں گے اور پھر ان سے لڑنے کیلئے ایک لشکر مدینہ سے روانہ ہو گا" (مسلم)۔
اسی حدیث کے آخر میں یہ بشارت دی گئی ہے کہ اس لڑائی کے بعد پھر مسلمان قسطنطنیہ (استنبول) کو فتح کریں گے، یعنی یہ شہر جو اب ترکی کا حصہ ہے، اس وقت تک دوبارہ اہلِ مغرب کے قبضے میں جا چکا ہو گا۔ اسی فرات کے دونوں جانب دیرالزور کا میدان ہے جو تیل کی دولت سے مالا مال ہے۔ اس تیل کے ذخیرے پر ابھی چند سال پہلے ہی امریکہ اور روس کے درمیان جنگ ہوئی تھی اور امریکہ نے روس کی یونٹ کو سیٹلائٹ کی مدد سے ڈرون حملوں سے تباہ کر کے اس کی ویڈیو بھی جاری کر دی تھی۔ یہ تیل کا ذخیرہ شام کا ہے جبکہ عراق کے تیل پر جنگِ عظیم اوّل سے لڑائی جاری ہے۔
یہ عظیم دریائے فرات اب خشک ہو رہا ہے، جو کہ ترکی، شام اور عراق کی زندگی کی ضمانت ہے۔ لیکن ترکی جہاں سے اس دریا نے خشک ہونا شروع کیا ہے، وہاں پر کسی قسم کا کوئی ہیجان اور اضطراب نہیں پایا جاتا۔ ترکی کی خبررساں ایجنسی ایناڈولو (Anadolu) نے کچھ عرصہ پہلے یہ خبر دی تھی کہ فرات دریا کے "حار مارا" علاقے میں کام کرنے والی ایک فرٹیلائزر کمپنی گوبریٹرز (Gubretas) کے چیئرمین فاہرٹن پویارز (Fahrettin Poyraz) کو اپنے علاقے میں 39 لاکھ اونس سونا ملا ہے، اور جب اس کمپنی نے اپنا سروے مکمل کیا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ یہ سونے کے ذخائر دُنیا کے پانچ بڑے ذخائر میں سے ایک ہیں۔
اس ذخیرے میں موجود سونے کی مقدار تقریباً 99 ٹن کے برابر ہے، جس کی اس وقت عالمی منڈی میں مالیت 6 ارب ڈالر کے برابر ہے۔ دُنیا بھر میں اس دریافت کے بعد گفتگو شروع ہوئی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ صرف اس علاقے کے سونے کے ذخائر کی مالیت کئی ممالک کی جی ڈی پی سے بھی زیادہ ہیں۔ جیسے مالدیپ 4.87 ارب ڈالر، لائبریا 3.29 ارب ڈالر، برونڈی 3.17 ارب ڈالر کی جی ڈی پی رکھنے والے ممالک اس سونے کے ذخیرے سے آدھی قومی پیداوار رکھتے ہیں۔
دو ماہ قبل ترکی کے وزیر توانائی فاتح ڈونمز (Fatih Donmez) نے کہا تھا کہ ترکی نے اس سال 38 ٹن سونے کی پیداوار سے گذشتہ ریکارڈ توڑ دیئے ہیں اور اگلے پانچ سالوں میں ہم 100 ٹن سالانہ سونا نکالیں گے۔ یہ صرف فرات کا ایک کونہ ہے جہاں سے یہ سونا برآمد ہوا ہے جبکہ دریائے فرات کی لمبائی 28 سو کلو میٹر ہے اور کون جانتا ہے کہ شام اور عراق کے علاقوں میں کس قدر سونا ہے جو اس کی تہوں میں چُھپا ہوا ہے۔
تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ دُنیا میں سب سے زیادہ سونے کے ذخائر برِاعظم افریقہ میں پائے جاتے ہیں اور عالمی طاقتوں نے ان تمام ممالک کا ایسا حشر کیا ہے کہ آج وہ خطہ دُنیا کا سب سے پسماندہ علاقہ ہے اور جہاں قتل و غارت اور قحط عام ہے۔ فرات کے ان سونے کے ذخائر کے سامنے آنے کے بعد اس خطے میں ایک ایسی ہی جنگ چھڑ سکتی ہے اور اس کی خبر تو مخبرِ صادق صلی اللہ علیہ وسلم چودہ سو سال پہلے ہی دے چکے ہیں۔ اس جنگ کا تذکرہ یہودیوں اور عیسائیوں دونوں کی مقدس کتابوں میں بھی ملتا ہے۔ لیکن اب تو یہ سب کچھ ایک سائنسی ذہن رکھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کے ذہن میں بھی کھٹکنے لگا ہے۔
فرات کے سوکھنے کے ساتھ دو اور ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن سے لگتا ہے کہ یورپ میں بسنے والے افراد موسمیاتی تبدیلی کے زیرِاثر اپنے لئے اسی طرح نئے ٹھکانے ڈھونڈنے چل پڑیں گے جیسے آریائی اقوام ایشیائے کوچک سے نکلی تھیں یا جیسے یورپی اقوام چار صدیاں قبل دُنیا پر چڑھ دوڑیں تھیں۔ یورپ کی توانائی کی ضرورت کا بنیادی ذریعہ تقریباً وہ ایک ہزار ڈیم ہیں، جو ناروے کے پہاڑوں میں واقع ہیں جن سے 87TWH بجلی پیدا ہوتی تھی۔ لیکن گذشتہ سال ناروے میں بارشیں تو ہوئیں لیکن ایک تو بہت کم اور دوسرا پہاڑوں سے نیچے نیچے، یعنی ڈیم بالکل خالی رہ گئے۔
صرف ایک ماہ پہلے برطانیہ نے ناروے کے ان ڈیموں سے بجلی حاصل کرنے کیلئے سمندر کے نیچے ایک کیبل بچھائی تھی جس سے اس نے چودہ لاکھ گھروں کو بجلی پہنچانا تھی۔ اب یہ کیبل بیکار ہو چکی ہے۔ یہی نہیں بلکہ برطانیہ کی توانائی کا سب سے اہم ذریعہ شمالی ساحلوں کی ہوا سے پیدا ہونے والی بجلی ہے۔ مگر حیران کن صورتِ حال یہ ہے کہ وہ شمالی ساحل جہاں کبھی ہر وقت انتہائی تیز ہوائیں چلتی رہتی تھیں وہاں اب ایک "عالمِ سکوت" ہے جسے اخبارات "Dead Calm" یعنی "مُردوں والی خاموشی" کا نام دے رہے ہیں۔
ان ہوائوں کو نہ چلنے کا حکم کس نے دیا ہے، اور بارشوں کو پہاڑوں سے نیچے برسنے کا اذن کس کی طرف سے جاری ہوا? یقیناً میرا اللہ ہے? مگر سائنس دان تو اسے موسمیاتی تبدیلی کے زمرے میں ڈالتے ہیں۔ لیکن وہ جو صاحبِ ایمان ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ہر وہ جنگ جو وسائل پر قابو پانے کیلئے لڑی جاتی رہی ہے اور جس کا سلسلہ جو ازل سے جاری ہے، اس میں کسی ملک کو دھکیلنے والے اسباب ہوتے ہیں، یعنی وہاں خشک سالی اور قحط آ جائے، اور دوسرا سبب یہ ہوتا ہے دیگر علاقوں میں وسائل بے پناہ ہوتے ہیں۔ یوں لگتا ہے ایک دفعہ پھر یورپ کی اقوام کا مشرق کے وسائل پر حملے کا آغاز ہونے والا ہے، اور اس کا آغاز فرات کے سونے کے پہاڑ سے ہو گا۔
احادیث کے مطابق یہ ممالک علیحدہ علیحدہ نہیں بلکہ اب یہ اکٹھا ہو کر حملہ آور ہوں گے۔ آپؐ نے فرمایا، "اسی جھنڈوں تلے اہلِ روم حملہ آور ہوں گے اور ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار افراد ہوں گے"۔ یعنی نو لاکھ ساٹھ ہزار سپاہی۔ بیک وقت اتنے زیادہ سپاہی آج تک کسی بڑی عالمی جنگ میں بھی اکٹھے نہیں ہوئے۔ کیا معرکہ ہے جو برپا ہونے جا رہا ہے، کیسا معرکہ ہے اور کب برپا ہو گا۔ قرائن بتاتے ہیں کہ وقت بہت قریب ہے۔ (ختم شد)
نوٹ: ایک خاندان میں ماں بیٹا دونوں کینسر کے مرض کا علاج کروا رہے ہیں۔ اہل خیر 03044515453 پر رابطہ کر کے معلومات حاصل کر کے مدد فرما سکتے ہیں۔