کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا (1)
ستاون اسلامی ممالک میں سے صرف بیس اسلامی ملک ملائیشیا کے شہر کوالالمپور میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں شریک ہوئے، جس کا بنیادی مقصد اقتصادی بہتری سے تحفظ کا حصول تھا۔ کیسا مغربی مالیاتی نظام کے خوش کن راستوں جیسا راستہ اختیار کیا گیا۔
گذشتہ تقریبا دو سو سالوں سے پوری امت مسلمہ کو ایک ہی سبق پڑھایا جارہا ہے کہ اگر تم معاشی طور پر خوشحال ہو گئے تو پھر تم دنیا کا مقابلہ کرسکتے ہو اور مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتے ہو۔ کس قدر تاریخ سے لاعلمی اور حقیقت سے دور ہے یہ تصور، جو اس امت کے ستاون ممالک کے سامنے ہر روز دہرایا جاتا ہے۔ انہیں کوئی یاد نہیں دلاتا کہ جب برصغیر پاک و ہند پر دنیا کی بھوکی ننگی قومیں، برطانیہ، پرتگال، فرانس اور ہالینڈ غراتی ہوئی حملہ آور ہوئیں تھیں تو اس وقت اس ہندوستان کو معاشی لحاظ سے سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا۔
پوری دنیا میں اس عظیم اقتصادی طاقت کا جی ڈی پی میں حصہ تیس فیصد کے برابر تھا۔ لیکن اس عظیم معاشی، تہذیبی اور علمی قوت کو جس برطانیہ نے فتح کیا، وہاں تعلیم تھی اور نہ ہی روزگار، سڑکیں پختہ تھیں اور نہ ہی صحت کے ادارے۔ ایک ایسا ملک جس میں 1860 میں خواتین کی تعلیم کے ادارے کھولے گئے ہوں، وہ ملک 1857 میں اس ہندوستان کو مکمل طور پر فتح کر چکا تھا۔
ایسے ہندوستان کو جس کے مرد و زن دونوں کا شرح خواندگی نوے فیصد سے بھی زیادہ تھا۔ لیکن ہم ایک جھوٹ کو شاندار اور خوبصورت بنا کر پیش کرنے کی "میڈیا ورلڈ" میں زندہ ہیں۔ وہی سوچتے ہیں، ویسا ہی کرتے ہیں اور اسی طرح کے خواب دیکھتے ہیں جیسے جدید مالیاتی نظام کی تان پر ناچنے والے یہ "عظیم" مفکر اور" اعلیٰ" تبصرہ نگار ہمیں دکھاتے ہیں۔ لیکن اس کانفرنس میں معاشی برتری اور مضبوطی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے چار ممالک نے دبے لفظوں میں مخصوص حالات کے جبر کے تحت ایک ایسی بات کہہ دی ہے، جو اسلام کے عالمی اقتصادی و مالیاتی نظام کی اصل بنیاد ہے۔
ملائیشیا، ایران، ترکی اور قطر نے یہ اعلان کیا ہے کہ عالمی اقتصادی پابندیوں کو شکست دینے کے لیے ہم سونے کی کرنسی اور بارٹر سسٹم کے تحت کاروبار کرنے پر غور کر سکتے ہیں۔ یہ بہت بڑا اعلان ہے اگرچہ کہ یہ عالمی طاقتوں کی اقتصادی پابندیوں کے خوف کے تحت ہی ہوا ہے۔ اس لییکہ اگرآج ایسا کرنے کا تمام مسلم ممالک اعلان کردیں تو اس پوری دنیا کی عالمی اقتصادی ومالیاتی نظام کی بساط الٹ جائے گی اور بڑے بڑے معاشی مراکز ایسے دھڑام سے نیچے آ گریں گے جیسے گیارہ ستمبر 2001 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر زمین بوس ہوگیا تھا۔
سونے اور چاندی میں کاروبار دراصل اسلام کے مالیاتی نظام کی بنیاد ہے اور صدیوں سے انسانوں کے درمیان لین دین کا ذریعہ یہی سمجھا جاتا رہا ہے۔ دنیا ابتدائے آفرینش سے کسی ایسے پیمانے، کرنسی یا نقدی کو نہیں مانتی رہی جس کی اپنی علیحدہ بذات خود کوئی قیمت نہ ہو۔ مثلا سونے اور چاندی کو آپ علیحدہ لے جا کر بحیثیت ایک جنس مارکیٹ میں فروخت کر سکتے ہیں۔
انہیں کرنسی یا پیمانہ بھی اس لیے بنایا گیا تھا کہ ان کی تھوڑی سی مقدار کی قدروقیمت بھی لوگوں کی نظر میں باقی تمام اشیاء و اجناس کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی۔ جبکہ اسکے خلاف جدید مالیاتی عالمی نظام، کاغذ کی جس جعلی کرنسی کے گرد گھومتا ہے اس کو اگر کسی جنس سے علیحدہ کر دیا جائے تو ان ڈالروں، پاؤنڈ وں اور روپوں کے ڈھیر کی اتنی بھی قیمت نہیں ہوگی جتنی اس کی ہم وزن بچوں کے سکول کی کسی کاپی کی ہوتی ہے۔ اس لیے کہ کاپی کا تو ایک مصروف ہوتا ہیجبکہ ان کاغذی جعلی نوٹوں کا کوئی مصرف نہیں ہوگا۔ لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد پوری دنیا پر اس جعلی کرنسی کا زبردستی راج قائم کردیا گیا۔
جس دن نارمنڈی فتح ہوا اور یہ یقین ہوگیا کہ اب اتحادی افواج کو فتح سے کوئی نہیں روک سکتا، تو یکم جولائی سے 22 جولائی 1944 تک امریکہ کے مقام بریٹن ووڈز (Bretton woods) میں چوالیس اتحادی ممالک کی ایک کانفرنس ہوئی۔ اس کانفرنس میں تین اہم معاہدات پر دستخط ہوئے
(1)۔ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) کا قیام جو کرنسی کے تبادلے کی شرح اور سرمائے کی ترسیل کا ذمہ دار ہوگا۔
(2)۔ ایک بڑے بینک "IBRD" کا قیام جو دوسری جنگ عظیم کے بعد معاشی ترقی اور علاقائی بحالی کے لیے قرضے دے گا اور
(3) معاشی معاملات کے دیگر امور جس میں سونے اور چاندی کے سکوں کا مکمل خاتمہ اور کاغذی کرنسی کو عالمی قانونی تحفظ دینا اور اسکے بعد، تمام ریاستوں کو پابند کیا گیا کہ وہ اپنی ایک کاغذی کرنسی بنائیں، ایک سنٹرل بینک قائم کریں اور سونے اور چاندی کو صرف اور صرف ریزرو کے طور پر سنبھال کر رکھیں اور کوئی ملک سونے اور چاندی میں کاروبار کی جرأت نہ کرے۔
صرف پچھہتر سال کے عرصے کے بعد آج جعلی کرنسی پر قائم عالمی مالیاتی نظام آکٹوپس کی طرح اس قدر مستحکم ہو چکا ہے کہ پوری دنیا کے ممالک کو اس بات کا اتنا خوف نہیں ہے کہ فلاں عالمی طاقت ان پر فوج سے حملہ کر دے گی، لیکن اس بات کا زیادہ خوف ہے کہ ان کی اقتصادی ناکہ بندی کر دی جائے گی۔ یہ اقتصادی ناکہ بندی کیا ہے۔ صرف یہ کہ آپ کو دنیا کے بینکاری نظام سے کاٹ کر رکھ دیا جائے گا۔ آپ کو مفلوج کردیا جائے گا۔ چاہے آپ کے کارخانے چلتے ہوں، کھیت اناج اگاتے ہوں، لوگ کام کرتے ہوں لیکن آپ کو معاشی طور پر بدحال کرکے رکھ دیا جائے گا۔ یہ ایف اے ٹی ایف (FATF) کیا ہے اس عالمی مالیاتی نظام کی جعلی کاغذی سودی کرنسی کی غنڈہ گردی۔
ان چار ملکوں نے بس "سوچنے" کا ارادہ ہی کیا ہے اور وہ بھی ایسی صورت میں کہ اگر ان پر اقتصادی پابندیاں لگا دی گئیں۔ کاش یہ ملت اسلامیہ میں نئی روح پھونکنے کا دعوی کرنے والے مہاتیر محمد، طیب اردوغان، تمیم الثانی اور روحانی جان لیتے کہ سونے اور چاندی کے سکے کسی ایمرجنسی میں استعمال کرنے کے لیے نہیں، بلکہ اسلام کے اقتصادی نظام کی اصل اور بنیاد ہیں۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا "سونے کے بدلے سونا، چاندی کے بدلے چاندی، گندم کے بدلے گندم، جو کہ بدلے جو، کھجور کے بدلے کھجور اور نمک کے بدلے نمک۔ جب سودا ایک جیسی چیزوں کا ہو اور ادائیگی اسی وقت ہو، ایسے میں اگر کوئی زیادہ دے یا زیادہ مانگے تو انہوں نے رِبا ئکا ارتکاب کیا۔ لینے اور دینے والے دونوں برابر کے قصوروار ہیں (صحیح مسلم)۔ یہ حدیث سونے اور چاندی کو بنیادی کرنسی بتاتی ہے یعنی جس طرح اس وقت درہم دینار میں کاروبار کیا جاتا ہے اور قرآن پاک میں صرف اسی کرنسی کا تذکرہ ملتا ہے۔ جبکہ باقی چار اشیاء گندم، جو، کھجور اور نمک کو اجناس کے بارٹر میں سٹینڈرڈ کے طور پر بتایا گیا ہے۔
سونے اور چاندی کو پوری امت اور تمام فقہا چودہ سو سال سے "نقدین" یعنی اصل سکے کے طور پر شرعی حیثیت میں مانتے رہے ہیں۔ اسلام کے اس مالیاتی نظام کے نفاذ کے لیے کسی اقتصادی پابندی یا خوف کی ضرورت نہیں، جرأت کے ساتھ ستاون ممالک کے ایک اعلان کی ضرورت ہیکہ ہم کل سے کاغذی کرنسی استعمال نہیں کریں گے۔ یہ اعلان اگر ملائیشیا میں موجود یہ بائیس ممالک بھی کر دیتے تو آج دنیا کی مالیاتی تاریخ بدل چکی ہوتی۔ لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ کیمونسٹ پچھہتر سال عالمی مالیاتی فنڈ سے علیحدہ اپنی سود سے پاک معیشت چلا سکتے ہیں لیکن ہم میں یہ حوصلہ نہیں ہے ہمارا ایمان اتنا بھی نہیں ہے۔
ہم او آئی سی کے پلیٹ فارم پر ہوں یا ملائیشیا کانفرنس میں ہم صرف تقریریں کرتے ہیں۔ ہمارا ایمان پختہ نظر آتا ہے اور نہ اللہ پر یقین دکھائی دیتا ہے۔ ہمیں گفتگو کرنا آتی ہے اور وہ ہم خوب کرتے ہیں۔