جمہوریت سے مطلق العنانی تک
پرویز مشرف کے سیکولر، لبرل آمرانہ دورِ حکومت میں وہ اینکر پرسن اور سیاست دان جو ابوالکلام آزاد کی کتاب انڈیا ونز فریڈم (India Wins Freedom) کو ہاتھوں میں لہرا لہرا کر برصغیر پاک و ہند کی تقسیم اور پاکستان کی تخلیق کو ایک بہت بڑی سیاسی اور قومی غلطی قرار دیتے تھے۔ وہ کالم نگار اور دانشور جن کے قلم ابوالکلام آزاد کی پیش گوئیوں کو پیغمبرانہ حیثیت دیا کرتے تھے، وہ آج کس قدر خاموش ہیں۔ سب کی زبانیں گنگ ہیں اور سب کے قلم خاموش۔ ان سب نے دھیرے دھیرے ابوالکلام آزاد کے اس نظریے کو میٹھے زہر کی طرح عوام میں پھیلانا شروع کر دیا تھا کہ اگر موجودہ پاکستان، موجودہ بنگلہ دیش اور ہندوستان کے مسلمان ایک ساتھ متحدہ ہندوستان میں رہ رہے ہوتے تو یہ ایک اتنی بڑی اقلیت ہوتے کہ ان کو چھیڑنا یا ان کے خلاف کوئی قدم اُٹھانا کسی بھی حکومت کیلئے انتہائی مشکل ہوتا۔
گنگا جمنی تہذیب کے ان وکیلوں کے چند سال بعد ہی اس وقت ہوش ٹھکانے آ گئے جب "راشٹریہ سیوک سنگھ" اور "بجرنگ دَل" کی ستر سالہ جدوجہد جمہوری بی جے پی کی صورت میں کامیاب ہوئی اور پھر 2014ء میں نریندر مودی کی صورت اس کا اصل چہرہ برسرِاقتدار آیا اور جمہوریت کی اصل "روح" یعنی اکثریت کی حکومت یا اکثریت کی آمریت اپنے اصل روپ میں سامنے آئی۔ آج دُنیا بھارت کو انتخابی جمہوریت (Electoral Democracy) نہیں بلکہ انتخابی مطلق العنانیت (Electoral Autocracy) کہہ رہی ہے۔ یہ تبدیلی اب صرف بھارتی جمہوریت تک محدود نہیں رہی، بلکہ دُنیا کی ایسی بیشتر جمہوریتیں جہاں انتخابات کے ذریعے حکومتیں بنتی ہیں، وہاں اب ایسے حکمران برسرِاقتدار آ رہے ہیں جو اپنے ممالک میں "مطلق العنان شخصی بادشاہتیں " قائم کر رہے ہیں اور ان کی ان بادشاہتوں کو عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔
یہ تشویش ایسے مغربی ممالک میں شدید ترین ہوتی جا رہی ہے جنہوں نے اس سرمایہ دارانہ سودی جمہوریت کا نظام فقط عالمی سرمایہ داری کی بادشاہت دُنیا پر قائم کرنے کیلئے وضع کیا تھا۔ مغرب کی اس تشویش کے پیمانے کو ناپنے کیلئے سویڈن کے ایک پروفیسر سٹیفن آئی لنڈ برگ (Staffan I. Lindberg) کی رہنمائی میں 2014ء میں ایک بہت بڑے انسٹیٹیوٹ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ پروفیسر سٹیفن گزشتہ کئی سالوں سے دُنیا بھر میں نافذ مختلف النوع جمہوری نظاموں کا مطالعہ کر رہا تھا۔ اسی لئے اس ادارے کا نام "The V-Dem Institute" یعنی "Varieties of Democracy" (جمہوری انواع و اقسام) رکھا گیا۔ اپنے قیام سے لے کر آج تک تقریباً سات سالوں میں شائع ہونے والی اس انسٹیٹیوٹ کی رپورٹیں دُنیا بھر میں دن بدن جمہوریت کے زوال اور انتخابی بادشاہتوں یا انتخابی شخصی حکومتوں کے قیام کی داستان سناتی ہیں۔
اس ادارے کی2021ء کی رپورٹ بتاتی ہے کہ آج سے نصف صدی قبل جن ممالک میں جمہوری نظام نے اپنی جڑیں مضبوط کر لی تھیں، اب وہاں بھی "آمریت" اپنے پنجے گاڑ رہی ہے۔ یہ جمہوری آمریت انتہائی خوفناک ہے کیونکہ یہ کوئی شخصی یا فوجی آمریت نہیں جسے بُرا بھلا کہا جا سکے، بلکہ یہ ووٹوں سے قائم شدہ ایسی آمریت ہے جس کا جمہوری نظام میں کوئی حل موجود نہیں ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت دُنیا کی 25 جمہوری اقوام اس طرح کی مطلق العنان شخصی جمہوری آمریتوں میں ڈھل چکی ہیں۔ یہ پچیس اقوام دُنیا کی ایک تہائی آبادی یعنی 2.6 ارب انسانوں پر مشتمل ہیں۔ ان میں دُنیا کے امیر ترین G-20 ممالک میں سے تین ملک بھارت، برازیل اور ترکی بھی شامل ہیں۔
رپورٹ کے ایک باب کا عنوان ہی جمہوری نظام کیلئے خوفناک مایوسی کا اظہار لئے ہوئے ہے۔ عنوان ہے، "لبرل جمہوریت کے زوال کا ایک اور سال " (Another year of Decline of Liberal Democracy)۔ لیکن بھارت میں جمہوری الیکشنوں سے جنم لینے والی بدترین آمریت پر رپورٹ نے پورا ایک باب باندھا ہے، جس کا عنوان ہے، "بھارت: برباد شدہ جمہوریت"(India:Democracy Broken Down)۔
اس باب کے آغاز میں بھارت میں آمریت اور آمرانہ طرزِ حکومت کا موازنہ پاکستان، نیپال، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے کیا گیا ہے، جن میں سے بھارت سب سے زیادہ اقلیت کش اور آمرانہ طرزِ حکومت والا ملک ہے جو ان معاملات میں دن بدن بگڑتا چلا جا رہا ہے۔ بھارت اب ایک ایسا ملک بن چکا ہے جس میں ایک شخصی یعنی نریندر مودی کو مکمل قوت و اختیار حاصل ہے اور اس کا یہ اختیار جمہوری الیکشنوں کے ذریعے عوام کی اکثریت کی وجہ سے ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت میں آزادی اظہار پر سب سے زیادہ پابندی ہے۔
رپورٹ کے مطابق دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت جو ایک ارب سینتیس کروڑ عوام پر مشتمل ہے، اب کسی طور بھی ایک جمہوری ملک کہلانے کے قابل نہیں رہی۔ اس ادارے نے بھارت کو آزاد ملکوں کی فہرست سے نکال کر جزوی (Partially) طور پر آزاد ملکوں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔ بھارت میں دہشت گردی، غداری اور میڈیا کے کنٹرول کے قوانین کا بدترین استعمال ہوا ہے۔ رپورٹ کچھ اعداد و شمار سے اپنے فیصلے پر مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہے۔ یہ اعداد و شمار خوفناک ہیں۔ جب سے نریندر مودی برسرِ اقتدار آیا ہے، سات ہزار افراد پر غداری کا مقدمہ چل رہا ہے۔ بھارت کا ایک قانون ہے "UAPA"(Unlawful Activities Prevention Act) "غیر قانونی اقدامات کی روک تھام کا قانون"۔
اس کے تحت گرفتار ہونے والوں کی تعداد میں 72 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اتنی ہی تعداد میں دہشت گردی کے قانون میں گرفتار ہونے والوں میں اضافہ ہوا ہے۔ گائے کشی کے سلسلے میں جتنے بھی لوگ گرفتار ہوئے، ان میں 86 فیصد مسلمان تھے اور ان میں زیادہ تر فسادات صرف گزشتہ چند سالوں میں ہوئے ہیں۔ گزشتہ سال میں دلّی کے ہنگاموں میں 53 افراد قتل ہوئے جن میں سے 49 مسلمان تھے۔ دُنیا میں حکومتکی طرف سے انٹرنیٹ پر پابندی لگائے جانے کے جتنے بھی واقعات ہوئے ہیں ان میں سے 70 فیصد بھارتی حکومت کی جانب سے ہوئے ہیں۔ اگر دُنیا بھر میں حکومتوں نے 150 دفعہ انٹرنیٹ پر پابندی لگائی تو ان میں سے 109 پابندیاں بھارت میں لگیں۔
یہ صرف چند اعداد و شمار ہیں جو بہت حد تک مغربی ممالک کے قائم کردہ اس ادارے نے بہت حد تک نرم کر کے پیش کئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں کبھی بھی یہاں پر آباد اقلیتیں اس قدر خوفزدہ نہیں رہیں، جتنی آج اس جمہوری آمریت کے دَور میں غیر محفوظ ہیں۔ وہ لوگ جو آج سے صرف دس سال قبل ابوالکلام آزاد کی کتاب سے دلیل پیش کیا کرتے تھے کہ مسلمانوں نے تقسیم ہو کر اپنا نقصان کیا، آج ان کے سامنے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ مسلمان جس قدر پاکستان اور بنگلہ دیش میں محفوظ ہے، سرفراز ہے اور آزاد ہے، ایسا وہ بھارت کے شہری ہو کر تصور بھی نہیں کر سکتا۔
اگر تمام مسلمان بھارت کے ساتھ رہ رہے ہوتے تو وہ شاید 25 فیصد بنتے مگر آج اسی طرح ذلیل و رُسوا ہوتے جیسے وہاں موجود 15 فیصد مسلمان ہو رہے ہیں۔ جس ملک میں کشمیری نوے فیصد مسلمان ہو کر خاک و خون میں غلطاں ہیں، وہاں 25 سے تیس فیصد مسلمان بھی اسی عبرتناک انجام کا شکار ہوتے۔