اسلامی تصورِ خیرات پر مغربی اثرات
جدید سیکولر مغربی تہذیب کی عمارت کو تعمیر کرنے کے لئے اس کے بانیان نے صدیوں پرانے معاشرتی نظام کے اداروں کو مکمل طور پر مسمار کیا اور ان کے متبادل کے طور پر نئے ادارے تخلیق کئے۔ انسانی تہذیب کا سب سے اہم ادارہ خاندان تھا جو انسان کے دنیا میں وجود میں آنے سے لے کر قبر کی آغوش تک ساتھ چلتا تھا۔ انسانی بچہ دیگر تمام جانداروں سے زیادہ دوسروں کا محتاج ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اسے خوراک، جسم کی دیکھ بھال، صفائی وغیرہ کے لئے پہلے دن ہی سے ایک شفیق اور محبت کرنے والی ہستی کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ اکثر جانداروں کے بچے چند ثانیوں کے بعد چلنا شروع کر دیتے ہیں، اپنی ماں کے وجود سے دودھ کی صورت خوراک خود تلاش کرتے ہیں اور انہیں جبلی طور پر رفع حاجت کے لئے کسی مددگار کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے مقابلے میں انسان بچپن، بلکہ عنفوان شباب تک ایک ایسے ادارے کا محتاج ہوتا ہے جو اس کی ضروریات کو کمال شفقت اور محبت سے پورا کرے۔ وہ جب تک خود رزق کمانے کے قابل نہیں ہوتا اسے مضبوط سہارے کی ضرورت رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ماں باپ کے حسین اور شفیق و مہربان امتزاج سے خاندان کے ادارے کو تخلیق کیا اور ان دونوں کے دل میں اولاد کی محبت کوٹ کوٹ کر بھر دی۔ اسی خاندان کی وسعت دراصل وہ قرابت داری ہے جس میں خونی رشتے ایک دوسرے سے منسلک ہوئے۔ اسلام کا تمام تصور خیرات، صدقات اور احسان کا اولین مخاطب اور مستحق خاندان اور اقرباء ہیں یعنی خاندان اور قریبی رشتے دار۔
جدید مغرب نے اس ادارے کے گلے پر کارپوریٹ مفادات کی کند چھری ایسی چلائی کہ گزشتہ دو سو سال سے اس کا تڑپتا ہوا وجود تہذیب مغرب کے چوراہے میں تماشائے خلق بنا ہوا ہے۔ خاندان بنتے ہیں۔ بگڑتے ہیں، ٹوٹتے اور بکھرتے ہیں، اور ان کے متاثر افراد چاروں جانب کسی شفیق اور مہربان وجود کی تلاش میں رحم طلب نظروں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ طلاق یافتہ، بیوہ یا کنواری ماں اپنے بہتر کیریئرنئے خاوند یا بوائے فرینڈ اور ذاتی خلوت پر نومولود کو قربان کر دیتی ہے۔ اسی طرح نوجوان لڑکا یا لڑکی اپنی ذاتی زندگی کی حسین شروعات کرنے اور تنہا رہ کر زندگی کا لطف اٹھانے کے لئے بوڑھے ماں باپ کو اکیلا چھوڑ دیتا ہے۔ بچہ اور بوڑھا یہ وہ دو محتاج تھے جن کی دیکھ بھال کے لئے انسان نے ایک شفیق، مہربان اور محبتوں کا امین ادارہ خاندان تخلیق کیا تھا۔ جب یہ ادارہ تباہ کیا گیا تو مغرب نے اس کے متبادل ادارے تخلیق کئے جو آج کے جدید مغربی سماجی بہبود کے تصور کی بنیاد ہیں۔
خاندانی شفقت سے محروم بچوں کے لئے درجہ بدرجہ ادارے وجود میں آئے مثلاً ڈے کیئر سینٹر، بے بی سنٹر اور لے پالکی(Foster care) سے لے کر یتیم خانوں تک اور بوڑھوں کے لئے حسب توفیق اور حسب استطاعت اولڈ ایج ہوم قائم ہوئے۔ خاندان کی بربادی سے جنم لینے والے ان دونوں طبقات کے گرد جدید مغرب کا خیراتی(Charity) کا نظام گھومتا ہے۔ خاندان اس قدر شفیق اور مہربان ادارہ تھا کہ یہ اپنے معذوروں، خواہ وہ اندھے، گونگے بہرے یا ذہنی پسماندہ کیوں نہ ہوتے کمال محبت سے انہیں پالتا۔ لیکن اب تیز رفتار جدید مغربی تہذیب نے ان کے لئے ادارے قائم کر دیے جہاں والدین اپنے معذور بچوں کو اپنی شفقت سے دور کرکے چھوڑ آتے ہیں اور وہ وہیں پل بڑھ کر جوان ہوتے ہیں۔ شروع شروع میں یہ ادارے حکومتوں کے تحت قائم ہوئے اور اب مغرب کا سارا خیرات اور سماجی بہبود کا نظام ہی ان اداروں کے قیام اور ترقی کے گرد گھومتا ہے۔ شروع شروع میں انہیں خیراتی(Charity) ادارے کہا جاتا۔ پھر سماجی بہبود (Sociaf welfair) کے نام سے پکارا جانے لگا اور اب یہ ادارے فیشن زدہ نام"این جی اوز" کے پرچم تلے قائم ہیں۔ ماں باپ، بہن بھائیوں اور رشتے داروں کی محبت سے دور ان اداروں میں جو بچے پروان چڑھتے ہیں ان کے بارے میں نفسیات دان متفق ہیں کہ وہ ساری زندگی طرح طرح کی نفسیاتی الجھنوں کا شکار رہتے ہیں۔ ماضی سے انکا فرار ممکن نہیں ہوتا اور وہ اس کا تذکرہ بھی پسند نہیں کرتے۔ پوری دنیا میں اسے اداروں میں زندگی گزارنے کے کے اثرات کو Institutional syndrome سے جانا جاتا ہے جو شخصیت تباہ کر دیتے ہیں۔
مغرب کے اس خیراتی نظام کا براہ راست اثر دنیا کے ہر معاشرتی و خاندانی دیکھ بھال کے نظام پر مرتب ہوا ایک یتیم کو پالنے، معذورکی پرورش کرنے یا بیوہ کی دیکھ بھال کرنے کی بجائے کس قدر آسان راستہ تھا کہ ہر ماہ چند ہزار یا چند لاکھ روپے خیراتی این جی اوز کو دیکھ کر رات کو میٹھی نیند سویا جائے۔ آج سے چند سال پہلے تک آپ کو ہمارے معاشرے میں لاتعداد ایسے کامیاب لوگ مل جاتے تھے جنہیں یتیمی میں ان کے ماموں، چچا، دادا، نانا، پھوپھی جیسے محبت بھرے رشتوں نے اپنی اولادوں کی طرح پالا تھا، لیکن اب یہ تصور خال خال ہے اب تو مغرب کی پیروی میں عالم یہ ہے کہ اگر ایک لڑکی کی نوجوانی میں طلاق ہو جائے یا وہ بیوہ ہو جائے تو اپنے بچے کو کسی ایسے ادارے کے سپرد کر کے دوسری شادی رچا لیتی ہے۔
مغرب کے وہی تصور خیرات سے بے نظیر انکم سپورٹ اور احساس جیسے پروگرام پیدا ہوئے جہاں ایک غریب اور مفلوک الحال شخص ایک انسان نہیں ایک "ڈیٹا بیس کارڈ" ہے ایک فائل ہے خاندانی معاشرتی نظام میں انسان کی ضروریات اور حیثیت کے مطالعے کے بعد اس کی مدد کی جاتی تھی۔ جدید خیراتی نظام میں مانگنے والے یا بظاہر مجبور نظر آنے والے کی مدد تو ہوتی ہے اور وہ بھی ذلت و رسوائی کے ساتھ لیکن اسلام محتاجوں کی ایک ایسی قسم کی طرف توجہ دلاتا ہے جو مدد کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ اللہ فرماتا ہے خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھر گئے ہیں کہ اپنے ذاتی کسب معاش کے لئے زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کر سکتے۔ ان کی خودداری دیکھ کر ناواقف آدمی گمان کرتا ہے کہ وہ خوشحال ہیں۔ تم ان کے چہروں سے ان کی اندرونی حالت پہچان سکتے ہو۔ مگر وہ ایسے لوگ نہیں ہیں کہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کچھ مانگیں۔ ان کی اعانت میں جو مال تم خرچ کرو گے وہ اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گا۔ (البقرہ:278)۔ آج کا جدید خیراتی نظام ان لوگوں کو پہچانتا تک نہیں جن کی خودداری انہیں دست سوال دراز کرنے سے روکتی ہے۔ کون ہے جو چہروں کی کسمپرسی سے جاننے کی کوشش کرے کہ یہ شخص محتاج ہے۔