Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Orya Maqbool Jan
  3. Insani Irtiqa Aur Bahaya Tehzeeb (2)

Insani Irtiqa Aur Bahaya Tehzeeb (2)

انسانی ارتقاء اور باحیاء تہذیب (2)

حیاء انسانی تہذیب اور طرزِ معاشرت کی روح بھی ہے اور اس کی پہچان بھی۔ جس طرح کسی تخلیق کو تکمیل کے آخری مرحلوں میں خوبصورت اور آراستہ کیا جاتا ہے تاکہ اس کی دلکشی اور حسن نمایاں ہو جائے، اسی طرح انسانی تہذیب جب تکمیل کے آخری مرحلوں میں تھی تو اس نے اپنے اندر موجود سب سے اہم صفت "حیائ" کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناکر اسے درجۂ کمال تک پہنچایا۔ حیاء کا لفظ دنیا کی ہر زبان میں ایک طرح کے معانی اور ایک ہی جیسے لائف سٹائل کی علامت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اردو میں یہ عربی اور فارسی کے ذریعے آیا۔ فارسی میں اسے پاکدامنی، باحجاب اور منکسر المزاجی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ عربی میں اس کا مفہوم "عیب لگائے جانے کے خوف سے انسان کا جھینپنا ہے" اور اردو میں بھی اسکے معنی شرم، غیرت اور حجاب کے ہیں۔ علم نفسیات کے مطابق وہ بنیادی فطری جذبے جن کا اظہار انسان جسمانی طور پر کرتا ہے، ان میں سے ایک حیاء بھی ہے۔ غم و اندوہ میں ہم روتے ہیں، خوشی میں ہم مسکراتے اور قہقہہ لگاتے ہیں اور شرمندگی میں ہمارا چہرہ حیا کی سرخی سے لال ہو جاتا ہے۔ حیاء انسان کی فطرت اور جبّلت میں رکھ دی گئی ہے۔ یہ جذبہ ہر انسان یہاں تک کہ ہر جاندار میں موجود ہوتا ہے اوراصناف کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے۔ دنیا کے ہر جوڑے میں اس کی مؤنث زیادہ باحیاء اور شرمیلی ہوتی ہے۔

حیاء مہذب معاشرے کا وہ عنصر ہے کہ اگر یہ غائب ہونا شروع ہو جائے تو معاشرہ اپنے زوال کی طرف تیزی سے گامزن ہوجاتا ہے۔ جرم اسے گھیر لیتے ہیں اور انسانیت اس سے رخصت ہوجاتی ہے۔ خواتین کا زبردستی جنسی استحصال یا "ریپ" تو اس زوال کی ایک چھوٹی سی علامت ہے۔ یہ اس معاشرتی گٹرکی وہ بدبو ہے جوبظاہر محسوس ہوتی ہے، جبکہ بے حیاء معاشرے کی سڑانڈ میں غوطہ زن افراد کو تو احساس تک نہیں ہوپاتا کہ وہ کن اخلاقی برائیوں اور معاشرتی غلاظتوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ آج کا جدید دور ایک ایسا ہی گٹر ہے، جہاں جنسی استحصال یا "ریپ" صرف اور صرف اس وجہ سے ایک برائی یا جرم تصور ہوتا ہے کہ یہ کسی خاتون یا مرد کی مرضی کے خلاف کیا جاتا ہے۔ ورنہ ایسا ہی کچھ اگر کسی پسندیدہ ماحول میں خاتون کی مرضی سے کیا جائے، تو اسے آج کے سیکولر لبرل دور کی "اخلاقیات" نہ صرف قبول کرتی ہے بلکہ اس فعل کو خوبصورت ناموں اور تلازموں سے نوازتی ہے۔ ایک عمومی نام "Orgy"ہے جس کا مطلب "رنگ رلیاں " اور "خرمستیاں کرنا" ہے۔ ایسی خرمستیوں پر لاتعداد ناول اور افسانے لکھے گئے اور ہزاروں کے حساب سے فلمیں بنائی گئیں ہیں۔

اس فعل کو روایتی تقدس دینے کے لیئے یونانی اور رومی دیوتاؤں کی زندگیوں سے اسے ڈھونڈ کر نکالا گیا۔ تہذیب حاضر کے جنسی تلذذ والے ماحول کی مروجہ انگریزی زبان میں درج ذیل تعریف کی گئی ہے "A Party in which people behave in a very uncontrolled way، including Sexual activity" یعنی "ایک ایسی پارٹی جس میں لوگ بے قابو حرکتیں کریں جو جنسی اختلاط سے متعلق ہوں "۔ آپ گذشتہ ایک صدی کے ناولوں اور افسانوں کی ورق گردانی کریں اور فلموں کاجائزہ لیں تو آپ کو ان میں ایسے جنسی مناظر ایک خوابناک ماحول(Fantacy) کے طور پر نظر آئیں گے۔ صرف Orgy ہی نہیں بلکہ ہر وہ جنسی بے راہ روی جسے ایک حیاء دار معاشرہ ممنوع قرار دیتا ہے، انہیں حسین خواب کی صورت ادب اور فلم یا ڈرامہ میں پیش کیا جاتا ہے۔ نیم فحش ادب اور نیم فحش فلمی دنیا اسی جنسی منظرنامے کو میٹھے زہر کی طرح لوگوں کی رگوں میں داخل کرتی ہے۔ یہ موہوم اور نامکمل جنسی مناظر لوگوں کی طلب میں اضافہ کرتے ہیں، پھر اس جنسی بھوک کو مٹانے کے لیئے لاکھوں کی تعداد میں فحش فلمیں تیار کی جاتی ہیں۔ یہ فلمیں پہلے سینما گھروں میں دکھائی جاتی تھیں، پھر وی سی آر، سی ڈیز اور اب ویب سائٹس کے ذریعے ہر شخص کے موبائل میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ان فلموں میں تمام ناآسودہ خواہشات اور ہیجان انگیز جنسی کیفیات کی تسکین کے لیئے لاکھوں مناظر فلمبند کیئے جاتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی انڈسٹری ہے جسے دنیا کا ہر جدید سیکولر لبرل معاشرہ شرف قبولیت کی سند عطا کر چکا ہے۔

صرف فحش فلموں کا کاروبار ہی 97ارب ڈالر کی انڈسٹری ہے۔ ہالی ووڈ ہر سال چھ سو خالصتاً فحش فلمیں بناتا ہے اور دس ارب ڈالر منافع کماتا ہے جبکہ باقی دنیا کے فلمساز ادارے ہر سال تیرہ ہزار (13000)نئی فحش فلمیں مارکیٹ میں لاتے ہیں۔ ان فلموں کے موضوعات دیکھ لیں تو آپ کے پاؤں تلے سے زمین سرک جائے۔ چند ایک یہ ہیں: مقدس رشتوں سے اختلاط (Incest)، ایک دوسرے سے پارٹنر بدلنا (Swaping)، مرد یا عورت کا زبردستی جنسی فعل میں لذت (Domination)، کم سن بچوں اور بچیوں کا اختلاط (Teen Age sex) وغیر وغیرہ۔ صرف موضوعات کی تعداد ہی ہزاروں میں ہے۔ لیکن ان فحش فلموں کا راستہ تو ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کے فحش مناظر سے ہوکر جاتا ہے۔ عام عوام کے دیکھنے والی فلموں میں جان بوجھ کر صرف چند منٹ کے جنسی سین ضرور ڈالے جاتے ہیں تاکہ دیکھنے والوں کے جنسی جذبات برانگیختہ ہوجائیں۔ جب ہیجان پیدا کر دیا جاتا ہے تو پھر ایسے لوگوں کی تسکین کیلئے سب سے آسان راستہ فحش فلمیں ہی ہوتی ہیں، جو ان کی ساری ناآسودہ خواہشات کو پردۂ سکرین پر دکھاتی ہیں۔ یہ ایک قسم کی وقتی تسکین ہوتی ہے مگر دیکھنے والے کے اندر ایک آگ کی چنگاری سلگا دیتی ہے۔ اسی سلگتی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیئے پوری دنیا میں ایک بہت بڑی انڈسٹری قائم کی گئی ہے۔ اس انڈسٹری کا اہم ترین کاروبار جسم فروشی (Prostitution) ہے۔ اس وقت ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ساڑھے چار کروڑ طوائفیں ہیں۔ ان میں 70فیصد اغوا اور سمگل کرکے لائی گئی ہیں۔ ان میں وہ خواتین شامل نہیں جو کسی اور کاروبار کے پردے میں جسم فروشی کرتی ہیں، جیسے Escort Service، یا مساج پارلرز وغیرہ۔ اس کے علاوہ دنیا کے ہر بڑے شہر میں نائٹ لائف کے نام پر برہنہ کلبوں کا ایک سلسلہ ہے۔ جنسی کھلونوں کی انڈسٹری ہے، لائیو شوز ہیں، رسالوں، میگزینوں کی دنیا ہے۔ یہ سب ڈیڑھ سو ارب کا دھندا ہے۔ یہ صرف فحش کاروبار ہے۔ اس میں روزمرہ کی فیشن انڈسٹری، عام فلمیں، ڈرامے وغیرہ کچھ بھی شامل نہیں ہیں جو فحاشی کی جانب ایک سیڑھی کا کام دیتی ہیں۔

ان تمام فحش فلموں اور فحش ادب کا عام ذہنوں پر ویسا ہی اثر ہوتا ہے جیسا ویڈیو گیمز کا ہوتا ہے۔ یہ ایک ناآسودہ شخص کو ہیجان انگیز بناتی ہیں۔ جنون اس کے سر پر سوار ہوجاتا ہے، جس کی تسکین کیلئے وہ ایسا ہر راستہ اپناتا ہے جو اس کا پاگل پن اسے دکھاتا ہے۔ کسی مریض نما شخص نے چھوٹے بچوں سے جنسی اختلاط کے مناظر ذہن میں بسائے ہوتے ہیں، تو کوئی مقدس رشتوں سے تعلق کے خواب دیکھتا ہے، کسی کو اذیت دے کر جنسی عمل کے مناظر نے گھیررکھا ہوتا ہے تو کوئی پارٹی سیکس کے خوابوں میں ڈوبا ہوتا ہے۔ اس طرح کے ذہنی مریض ہم روز اپنے معاشروں میں پیدا کرتے چلے آرہے ہیں۔ ہر روز ایک نئی کھیپ تیار ہوتی ہے۔ یہ لوگ اپنے جذبوں کی تسکین کے لیئے کچھ بھی کر گذرتے ہیں، قتل، منشیات کا استعمال، طوائفوں سے تعلق، جنسی کھلونوں سے کھیلنا، چوری قتل اور جرم کی ہر وہ قسم جو اس پورے دھندے سے وابستہ ہوتی ہے، جنسی استحصال یا "ریپ" اس کا ایک اظہار ہے۔ جس فعل کوبالرضا یعنی مرضی کے ساتھ لائف سٹائل کا مقام حاصل ہوایسے فعل کو بالجبر کرنے سے روکنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے بھوکے کو نوالہ چھیننے سے روکنا مشکل ہوتا ہے۔ اسی لیئے اسلام ایک ایسے حیاء دار معاشرے کا مطالبہ کرتا ہے جس میں زنا بالرضا اور زنا بالجبر کو برابر جرم قرار دیا جائے۔ جن معاشروں میں زنا بالرضا تو فن، آرٹ، حسن اور خوبصورتی ہو وہاں زنا بالجبر کا عذاب ضرور نازل ہوتا ہے۔ (ختم شد)

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.

Check Also

Siasat Yoon Hoti Hai

By Mubashir Ali Zaidi