عمران خان صاحب ! شاید یاد آ جائے
طالبان نے ابھی کابل فتح نہیں کیا تھا، لیکن امریکہ کی رخصتی ہو چکی تھی اور بگرام ایئر پورٹ خالی کیا جا چکا تھا۔ امریکی شکست اور طالبان کی آمد آمد کے ماحول میں عمران خان صاحب لاہور تشریف لائے۔ ایک سلسلے میں میری ان سے ملاقات ٹھہری۔ سلسلہ انہیں کی جانب سے تھا، میری کوئی غرض و غایت اس میں شامل نہ تھی۔ گورنر ہائوس پنجاب کے ایک بڑے سے کمرے میں ان سے ملاقات ہوئی۔
یاد دہانی کیلئے عرض کر دوں کہ یہ جنابِ وزیر اعظم سے ان کے حجلۂ اقتدار میں داخلے کے بعد سے میری نہ صرف پہلی ملاقات تھی، بلکہ پہلی گفتگو بھی تھی۔ یعنی میرا اس دوران کسی قسم کا کوئی رابطہ کبھی نہیں رہا۔ جو مشورہ دینا ہوتا، اسی کالم کے صفحات میں عرض کر دیتا۔ یہ سب اس لئے لکھ دیا تاکہ سند رہے اور آئندہ کام آئے۔ اس نیم رسمی و نیم غیر رسمی ملاقات میں تحریکِ انصاف کے سینیٹر اعجاز چوہدری صاحب بھی موجود تھے۔ ملاقات کے دوران اصل موضوع سے ہٹتے ہوئے میں نے محترم وزیر اعظم سے کہا کہ "پاکستانی سیاست سے آپ مذہبی عنصر (Religious Factor) کو اگلے سو سال تک نہیں نکال سکتے۔
میرے اس فقرے کے جواب میں انہوں نے تنک کر پہلو بدلا اور جواب دیا، "کیسے کہتے ہیں آپ، دیکھیں مولانا فضل الرحمن اور جماعتِ اسلامی، دونوں کی سیاست ختم ہو چکی ہے"۔ میرے لئے یہ جواب انتہائی غیر متوقع تھا اور میں اس کا جواب دے کر بات کو مزید اُلجھانا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن میں نے گیارہ اگست 2021ء کو ایک تفصیلی کالم میں تحریر کر دیا تھا کہ خان صاحب کو اندازہ ہونا چاہئے کہ مذہبی سیاسی پارٹیوں اور مذہبی عنصر میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اس فرق کو قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک ہر جمہوری پارٹی نے خوب سمجھا اور جانا ہے۔ آغاز کی سیاسی پارٹیوں میں تو کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ عوام کے اسلامی جذبات سے مختلف کسی بھی قسم کے سیکولر یا لبرل خیالات کا کبھی عوامی سطح پر اظہار بھی کیا جائے۔
کیمونسٹ اور سوشلسٹ تحریکیں ایک خاص طبقے میں مقبول تھیں، لیکن اس حوالے سے عوامی سیاست، پاکستان پیپلز پارٹی نے 1967ء میں شروع کی، جس کے منشور کے چار بنیادی ستون تھے، (1) اسلام ہمارا دین ہے (2) سوشلزم ہماری معیشت ہے (3) جمہوریت ہماری سیاست ہے اور (4) طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اور اس کے نظریاتی ساتھی کتنے بھی روشن خیال اور مذہب بیزار کیوں نہ تھے، مگر ان کی تقریروں اور سیاسی افعال میں مذہبی وابستگی ضرور دکھائی دیتی تھی۔ خود ذوالفقار علی بھٹو عوام کے مذہبی جذبات کا اس قدر خیال رکھتا تھا کہ شاید ہی کسی اور نے اسلام کے حوالے سے اس قدر اہم اقدامات کئے ہوں، جس قدر بھٹو نے کئے تھے۔
قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے، شراب اور ریس کورس کے جوئے پر پابندی سے لے کر جمعہ کی چھٹی تک سب بھٹو کے تحفے ہیں، جبکہ موجودہ آئینِ پاکستان جس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی گئی ہے اور جو آج بھی ہر سیکولر، لبرل اور ملحد کے گلے کی ہڈی ہے، وہ بھٹو کی سیاسی بصیرت کا نتیجہ تھا۔ 1970ء کے الیکشنوں میں بھٹو کی پیپلز پارٹی کے مقابل پر جماعتِ اسلامی اور مولانا مودودیؒ کی شخصیت، اسلام کے ایک توانا تصور کے ساتھ پیش کی جاتی تھی۔
پیپلز پارٹی کے ورکروں اور عام سیاسی قائدین کا عالم بھی بالکل عمران خان کے بے لگام میڈیا مینجروں جیسا تھا۔ ایک ایڈیٹر نے بھی اداکارہ نغمہ کے دھڑ پر مولانا مودودی کا سر سجایا اور ان دنوں کی مشہور فلم "انورا" کے نام پر ان کا نام "مولانا انورا" لکھ کر کیپشن لگا دیا۔ اس تصویر کے پوسٹر کارکن جلوسوں میں اُٹھاتے تھے۔ لیکن اس ماحول کے باوجود بھٹو نے کبھی مولانا مودودیؒ سمیت کسی دینی شخصیت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے تہذیب و شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔
وہ اصغر خان کو "آلو خان" اور خان عبدالقیوم خان کو "ڈبل بیرل خان" تو کہتا تھا لیکن وہ ایسا بھی مہینوں اور سالوں بعد موقع محل دیکھ کر کہتا تھا، جبکہ اس کے مقابلے میں عمران خان چونکہ مشرف دَور کی سیاسی پیداوار ہے اور اب ملکی ماحول کو روشن خیالی کا تڑکہ لگ چکا ہے اس لئے اس کے جلسوں میں پی ٹی آئی کے کارکن ایک کورس میں "ڈیزل ڈیزل" پکارتے اور وہ خود بھی اس کا لطف لیتا۔ انتخابات کی جیت نے اس کے اس جذبۂ تضحیک کو خوب ہوا دی اور وہ ہر لمحہ تمسخر کرنے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ وہ ایسے ہر شخص کے دل و نگاہ سے دُور ہوتا چلا گیا جو ذرا سا بھی اسلام کیساتھ تعلق رکھتا تھا۔
عمران خان نے اپنی تقریروں میں بار بار ریاستِ مدینہ کا تذکرہ کیا، سیرتِ نبی ؐ کے حوالے دیئے، اقوام متحدہ میں اسلامو فوبیا پر تقریر کی، لیکن ایسا سب کچھ لوگوں کے دلوں میں اس کی اسلام سے محبت اور دینی تعلق کے تصور کو اُجاگر نہ کر سکا۔ لوگ عمران خان کے نعروں اور تقریروں کو ہمیشہ ایک سیاسی مصلحت، وقتی نعرہ بازی اور کھوکھلے پن سے تعبیر کرتے رہے۔ دوسری جانب عمران خان کی بدقسمتی یہ ہوئی کہ ان کی پارٹی کا سیکولر اور لبرل طبقہ انہیں اپنے لئے ایک مجبوری سمجھ کر برداشت کرتا چلا آ رہا ہے۔
ان کے نزدیک عمران خان تقریروں میں جو اسلامی اصطلاحات استعمال کرتا ہے، اس سے نوجوانوں کے دل میں اسلام سے ایک تعلق قائم ہو جاتا ہے، جو بعد میں سیکولر ازم اور لبرل ازم کی راہ کھوٹی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان آج نواز شریف، زرداری اور مولانا فضل الرحمن جیسے ان سیاسی رہنمائوں کی صف میں جا کر کھڑے ہو چکے ہیں جن کا اپنا کوئی نظریہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ صرف اور صرف ایک ردّعمل کی پیداوار ہوتے ہیں اور اسی ردّعمل کو جاری رکھتے ہیں۔ ردّعمل نیوٹن کے کلیے کے تحت اپنے سے زیادہ سخت ردّعمل کو جنم دیتا ہے۔ وہی عمران خان اور ان کی سیاست کیساتھ ہوا۔
کرپشن کاخاتمہ ان کا ردّعمل تھا، لیکن ان کے پاس "ایماندارانہ" حکومت کا کوئی نقشہ ہی نہ تھا، اس لئے ان کا ردّعمل کھوکھلا ہو کر رہ گیا اور کرپشن کے علمبردار عناصر زیادہ مضبوط ردّعمل کے ساتھ سامنے آگئے۔ مولانا فضل الرحمن اور جماعتِ اسلامی کی سیاست کی مخالفت ان کی سیاسی مجبوری تھی، لیکن اس کو نفرت کی حد تک لے جانیوالے ان کے چند ایسے رفقاء تھے جو عمران خان کو ایک آزاد خیال سیکولر، لبرل اور پر تعیش شخص کے طور پر پیش کرنا چاہتے تھے۔
یہ سب کے سب پرویز مشرف کی روشن خیالی کے دَور میں سیاسی اُفق پر نمایاں ہوئے تھے یا پھر پیپلز پارٹی کی عدمِ مقبولیت سے گھبرا کر تحریک انصاف میں آ گئے تھے۔ انہوں نے ایسی ایسی دُرفنطنیاں چھوڑیں، جان بوجھ کر شعائر اسلامی کا مذاق اُڑایا، مذہبی رہنمائوں کی بھدّ اُڑائی اور یوں عمران خان کو ان تمام مذہبی طاقتوں سے دُور کر دیا۔ ہر مسلک کے منبر و محراب پر بیٹھے علماء عمران کو ایک مذہب دُشمن شخص تصور کرنے لگے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔
حماقتوں کا عالم یہ ہے کہ ہم جنس پرستی کے حق میں قانون شاہد خاقان عباسی کی حکومت نے پاس کروایا، لیکن جب سینٹ میں اس پر احتجاج ہوا تو شیریں مزاری نے اس کی حمایت کر کے تحریکِ انصاف کو اسلام دُشمن ثابت کرنے کی پوری کوشش کی۔ فواد چوہدری کے ریمارکس آئندہ کئی سالوں تک تحریکِ انصاف کے گلے کی ہڈی بنے رہیں گے جن کا الیکشنوں میں دفاع کرنا مشکل ہو گا۔
عمران خان صاحب کی ساری سیاست ردّعمل کی سیاست ہے جسے وہ تبدیلی کا نام دیتے ہیں۔ تبدیلی ایک مثبت عمل ہوتا ہے جس کیلئے آپ کے پاس ایک مکمل لائحہ عمل اور تفصیلی پلان نعم البدل کے طور پر موجود ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر ردّعمل کے مقابلے میں ردّعمل ہی اُبھرتا ہے اور پہلے سے بڑھ کر شدید ہوتا ہے۔ آپ نے جس قوت کو بھی اپنا نشانہ بنا کر حملے کئے ہوتے ہیں، واپسی پر وہی قوت زیادہ طاقت سے حملہ آور ہوتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے، کہ دونوں قوتیں کسی بھی مثبت تبدیلی، پروگرام اور لائحہ عمل سے خالی ہی رہتی ہیں۔ یہ اکھاڑے کے ایسے پہلوان ہوتے ہیں جن کے سروں میں سوائے کُشتی جیتنے کے اور کچھ نہیں سمایا ہوتا۔