حرمت رسولؐ اور ہمارا اجتماعی دیوالیہ پن
بھکاریوں، بھک منگوں اور فقیروں کی ایک نفسیات ہوتی ہے جواگر کسی قوم کی اجتماعی زندگی میں ڈھل جائے تو پھر غیرت، عزت، حمیّت سب کچھ رخصت ہو جاتاہے۔ ایسی قوموں میں اگر شفاف ترین الیکشن بھی کروا لیں، بہترین کامیاب ذہن جرنیل مارشل لاء بھی لگادیں، مگر ان دونوں قیادتوں کے اذہان سے محتاجی کا رونا اور دنیا بھر کی جانب خیرات کے لیئے ہاتھ پھیلا کر "قومی سطح" پر بھیک مانگنے کی نفسیات کو نہیں نکالا جا سکتا۔ جس ملک کا صدر، وزیراعظم یا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اپنی سب سے بڑی کامیابی یہ تصور کرے کہ اس نے اپنے عہد میں عالمی برادری سے کتنی امداد (Aid)حاصل کی، ایسے رہنماؤں کو قومی بھکاری کا "تمغہ ٔامتیاز" دینے کی بجائے انہیں ایک کامیاب سیاستدان یا حکمران کے لقب سے پکاراجاتا ہے۔ یہ حکمران دراصل بحیثیت قوم ہمارے اعمال کا عکس ہوتے ہیں۔ حضرت کعبؓ سے روایت ہے، "اللہ ہرزمانے کا بادشاہ اس زمانے والوں کے دلوں کے حالات کے مطابق بھیجتا ہے (البیقہی)، دوسری روایت حضرت ابوبکر ہؓ سے مروی ہے، کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا، "جیسے تم خود ہو گے ویسے ہی تم پر حکمران بنا دیئے جائیں گے (البیہقی)۔
ہم گذشتہ پچاس سالوں سے عالمی سطح پر بحیثیت ایک بھیک منگے اور بھکاری کی حیثیت سے ابھرے ہیں۔ ہماری تاجر برادری کی شناخت بھی ایک ایسے گروہ کی نہیں ہے جو اپنے مال کی بہتری، خوبصورتی اور پائیداری کی بنیاد پر مال بیچنا چاہتا ہے، بلکہ اسے رعایتوں کی بھیک چاہیے۔ ہمارے تاجر عالمی منڈی میں مقابلہ نہیں کر سکتے، اس لیئے چاہتے ہیں کہ یورپی یونین انہیں "جی ایس پی پلس"کی رعایتیں دے کر ان پر ترس کھائے اور انکا مال خریدے تاکہ "وطنِ عزیز" کی معاشی حالت بہتر ہو۔ فرمایا میرے آقا سید الانبیاء ﷺ نے، "جو شخص مال بڑھانے کے لیئے بھیک مانگے تو وہ انگارہ مانگتا ہے، اب چاہے کم کرے یا زیادہ" (صحیح مسلم)۔ بحیثیت قوم ہم، سید الانبیاء ﷺ کی دی گئی اس وارننگ کا مکمل عکس ہیں۔ آپؐ نے فرمایا، "جو مانگنے کی عادت ڈالتا ہے اللہ اس پر محتاجی کا دروازہ کھول دیتا ہے" (السلسلۃ الصحیحہ)۔ ہم پر محتاجی کے دروازے مدتوں سے ایسے کھلے ہیں کہ بند ہونے کا نام نہیں لیتے۔ ایک جگہ اسی حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ایسے محتاج سے اللہ غیرت و حمیّت بھی چھین لیتا ہے۔ کیا عالمی برادری میں آج ہم ایک عزت دار قوم ہیں؟
حرمتِ رسول ﷺ، ناموسِ رسالت یا سید الانبیاء ﷺکے نام پر جان، مال، اولاد قربان کرنے کے دعوے تو بہت دور کی بات ہے، ہم تو وہ قوم ہیں، جنہوں نے صرف چند کپڑوں کی گانٹھیں بیچنے کے لیئے بھی یورپی یونین سے بھکاریوں کی طرح رعایات حاصل کرنے کے عوض 9ستمبر 2008ء کو پھانسی کی سزا پر پابندی لگائی اور ایسے مجرموں کی جیلوں میں اب تک مسلسل مہمان نوازی کرتے چلے آرہے ہیں، جنہوں نے اس ملک میں بے رحمانہ قتل کیئے تھے، چھوٹے بچوں اور بچیوں کو جنسی تشدد کرکے مارا تھا، بلاوجہ فائرنگ کر کے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا، یہاں تک کہ جنہوں نے بم دھماکے کیے تھے۔ 2014ء تک ایسے قاتلوں، دہشتگروں اور جنسی درندوں کی تعداد 8، 200تھی، جن کی زندگیاں اس لیئے بخش دی گئیں کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل کے مالکان کی مصنوعات یورپی یونین کے ممالک میں بک سکیں۔ آئی ایم ایف اور اس کے قائم کردہ عالمی سودی مالیاتی نظام کا سب سے بڑا کرشمہ اور سب سے بڑی بیماری یہ ہے کہ وہ جہاں جاتا ہے، اس ترقی پذیر قوم کو برآمدات (Export) کا جھانسہ دے کر اس کی پوری معیشت کا رخ عوام کی بہبود کے لیئے نہیں بلکہ اسے زرِ مبادلہ کے حصول کے پیچھے لگا دیتا ہے۔ کیونکہ ملیں اگر ڈالر کمائیں گی تو اس کے بینکاروں کوقرضے کا سود مسلسل ادا ہوتا رہے گا۔ لیکن اگرملوں نے ایسا مال بنانا شروع کر دیا جو بائیس کروڑ عوام کی ضروریات کے مطابق ہوا اور اس کی یہیں کھپت ہوئی تو پھر نہ زر مبادلہ، نہ ڈالر اور نہ ہی عالمی قرضوں کا استحصال اور نہ ہی ان کی واپسی کی ضمانت۔ دنیا کے جس ملک میں بھی آئی ایم ایف کے سودی مالیاتی نظام کا "سڑکچرل ایڈجسٹمنٹ" (Stuctural Adjustment) پروگرام گیا ہے، وہاں طریقۂ واردات یہی رہا ہے کہ یہ "مقروض ملک" پہلے اپنی معدنیات، خوراک اور مصنوعات وغیرہ عالمی منڈی میں بیچے، زرمبادلہ کی صورت ڈالر کمائے، ہمارا قرضہ اتارے اور جو باقی بچ گیا ہے اس سے اپنے عوام کے لیئے گندم، چینی اور دالیں وغیرہ خریدے۔
پاکستانی معیشت بھی اب اسی زوال پر لاکر کھڑی کر دی گئی ہے۔ ہم روزانہ ترقی اس طرح مانپتے ہیں کہ ہمارے پاس زر مبادلہ کے ذخائر کسقدر موجود ہیں۔ کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ ہمارے عوام کے پاس پیٹ بھرنے کے لیئے اناج، تَن ڈھانپنے کے لیئے کپڑا، زندگی گذارنے کے لیئے گھر، علاج کے لیئے دوا اور تعلیم کے لیئے کتنے استاد موجود ہیں۔ آئی ایم ایف کی سودی معیشت والی حکومتوں کو ہمیشہ یہی لالچ دیا جاتا ہے کہ تمہارے پاس زر مبادلہ ہوگا تو تم سب کچھ خرید لوگے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل ملیں "ایکسپورٹ کوالٹی" اشیاء بناتی ہیں۔ وہ کپڑا، موزے شرٹیں، پینٹس اور بیڈ شیٹس وغیرہ ایسی بناتی ہیں جو مغربی ممالک میں پسند کی جائیں۔ لیکن جو فاقہ زدہ لوگ ان پاور لومز کے پٹوں پر دن رات کام کرتے ہیں، وہ انہیں چھو تو سکتے ہیں، پہن نہیں سکتے۔ مزدور تو دور کی بات ہے، پاکستان کا ایک امیر آدمی بھی اگر ہماری ٹیکسٹائل ملوں کی بنائی ہوئی جراب یا شرٹ پہننا چاہے تو اسے کسی بڑے شہر کی برانڈ والی دکان پر جانا پڑے گا جہاں وہ کمپنی ایک ڈالر میں پاکستان کی ٹیکسٹائل مل سے خریدی ہوئی ہی جراب یا شرٹ اسے بیرون ملک پیکنگ کر کے واپس دس ڈالر میں بیچے گی۔ یادش بخیر دنیا ابھی کیمونزم اور کپٹیل ا زم کی لڑائی میں تقسیم تھی تو غریبوں کی اس بدحالی کے نوحہ گر بھی موجود تھے۔ وہ جانتے تھے کہ سرمایہ دارانہ نظام صرف سرمایہ کے گرد گھومتا ہے جس پر وہ انسان، انسانیت، اخلاق، اقدار یہاں تک کے عقیدہ اور مذہب بھی قربان کر دیتا ہے۔ ساحر لدھیانوی نے کیا نقشہ کھینچا ہے
زمیں کی قوت تخلیق کے خداوندو
ملوں کے منتظموں، سلطنت کے فرزندو
ملیں اسی لیئے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں
کہ دخترانِ وطن تار تار کو ترسیں
سرمائے کی ہوس میں لتھڑا ہوا یہ حکمران گروہ جس ٹیکسٹائل انڈسٹری کا بہانہ بنا کر کبھی فرانس کی گستاخ رسول حکومت کے سفیر کو بھیجنے میں تساہل دکھاتا ہے، یہ وہی ٹیکسٹائل انڈسٹری ہے کہ جب پاکستان کو بھکاریوں والی مراعات نہ ملیں تو یہاں کے سرمایہ دار، چالیس فیصد ٹیکسٹائل انڈسٹری 2012ء تک بنگلہ دیش منتقل کرگئے، کیونکہ اس وقت یورپی یونین کا بھکاریوں والا "جی ایس پی پلس"کا مرتبہ بنگلہ دیش کے پاس تھا۔ آج، اس وقت دنیا کے 235 ممالک میں سے نوے ممالک ایسے ہیں جو جی ایس پی کی اس لائن میں کھڑے ہیں جن پر یورپی یونین ترس کھا کر چین، بھارت، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور ویت نام جیسے مضبوط ملکوں کے مقابلے میں ان بیچاروں کا مال بھی خریدتا ہے۔ ان نوے بھکاریوں کی لسٹ میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اس بات کا دکھ نہیں کہ گذشتہ چالیس سالوں میں ہمارے معیشت دانوں اورحکومتوں کے لیئے گئے قرضوں نے ہمیں اس حال تک پہنچایا دیا ہے، بلکہ دکھ اس بات کا ہے کہ ہمارے حکمران اور سیاستدان عوام کو یہ کہہ کر مسلسل ڈراتے جا رہے ہیں کہ اگر ہم نے مغرب کو ناراض کردیا تو ہمیں کان پکڑ کر بھِک منگوں اور بھکاریوں اور فقیروں کی لسٹ سے نکال دیں گے۔ جس قوم کے سرکا تاج بھیک بن جائے وہ اپنی عزت کی رکھوالی نہیں کر سکتی، ناموس رسالت کا تحفظ بہت دور کی بات ہے۔