گرم پانیوں کی تلاش میں
قدرت نے اس قوم کوسرد موسموں کی شدت، شمال کی طرف برف سے ڈھکے ہوئے سمندروں اور باقی تین سمت دشمن اقوام کو آباد کرکے ایک بہت بڑی سرزمین پر یوں لگتا ہے مقید کردیا تھا۔ روس کے جغرافیے پر نظر ڈالیں تو آپ کو ایسے محسوس ہوگا جیسے اسے باقی دنیا سے کاٹ کر رکھ دیا گیا ہو۔ اس کا جغرافیہ اس کے لیئے بہت ہی ظالم رہا ہے۔ دنیا میں پھیلنے، تجارت کرنے یا فتوحات کے لیئے ان کے پاس نزدیک ترین سمندر بحر اوقیانوس ہے جو مغرب میں واقع تھا۔ یہاں تک پہنچنے کے بعد وہ باقی دنیا کے کھلے سمندروں میں نکل سکتے ہیں۔ لیکن روس میں آباد قوموں کی یورپ کے علاقوں فرانس اور جرمنی وغیرہ کے ساتھ صدیوں سے دشمنی رہی جس نے ان کا مغربی سمندر کی سمت کا راستہ بند کرکے رکھ دیا۔ جنوب میں ایران، افغانستان اور سابقہ برطانوی ہندوستان اور اب پاکستان کے ممالک ہیں۔ ان میں پاکستان مدتوں برطانوی تسلط میں رہااور ایران پر بھی یورپ کے ممالک کا ہمیشہ سیاسی غلبہ تھا، اس لیئے ایران اور پاکستان دونوں کی سمندری حدود بھی روس کے لیئے شجر ممنوعہ بنی رہیں۔ مشرق کی سمت چین اور جنوبی کوریا کے ممالک کے راستے مغربی چینی سمندر تک پہنچا جا سکتا تھا۔ روس کا مشہور ساحلی شہر "ولادی ووستک" واحد گرم پانیوں کی بندرگاہ ہے، لیکن اس بندرگاہ کے کچھ فاصلے پر توسو شیما (Tsushima) کی آبنائے (Strait) پر جاپانی اور جنوبی کوریا کی بالادستی نے مشرقی سمندر تک بھی روس کی رسائی مشکل بنا دی۔ روس کا معاملہ یہ ہے کہ گذشتہ کئی سو برسوں سے اس کی دشمنی پہلے عالمی طاقت برطانیہ سے رہی اور پھر امریکہ اس کا حریف بن گیا۔ دونوں کا دنیا کے گرم پانیوں پر ہمیشہ کنٹرول رہا ہے۔ گذشتہ دو سو برسوں سے روس کے حکمران گرم پانیوں تک رسائی کے لیئے جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ ان میں سب سے اہم دو نام ہیں۔
ایک پیٹر دی گریٹ ہے جو 7مئی 1682ء کو روس کا بادشاہ بنا اور 8فروری 1725ء تک اقتدار پر قائم رہا، دوسرا نام الیگزینڈر گورچاکوف (Alexander Gorchakov) کا ہے۔ یہ دراصل ایک شہزادہ تھا، مگر وہ 27اپریل 1856ء کو وزیر خارجہ بنا اور 9اپریل 1882ء تک اسی عہدے پر متمکن رہا۔ پیٹر دی گریٹ نے اپنے لیئے تین اہداف رکھے۔ (1)مغربی سمت میں واقع ایسٹونیا، لیٹویا اور لتھونیا پر قابو پ پا کر بالٹک کے سمندر تک رسائی، تاکہ پھر بحیرہ اوقیانوس اور پھر گرم پانیوں کے سمندر تک پہنچا جا سکے۔ (2) بحر اسود (Black Sea) کے ساحلوں پر کسی بندرگاہ کو حاصل کیا جائے اور (3)کسی بھی قیمت پر جنوبی سمندروں میں سے بحیرہ عرب کے ساحلوں تک رسائی حاصل کی جائے، خواہ اس کے لیئے ایران کو فتح کیوں نہ کرنا پڑے۔ اپنی سلطنت کو چاروں سمت بڑھانے کے لیئے روس ویسے تو ایوان سوئم کے زمانے سے علاقے فتح کرتا چلا آرہا تھا، لیکن سترہویں صدی میں اس نے پولینڈ سے دشمنی لیتے ہوئے یوکرین کو فتح کر لیا، لیکن ایسا کرنے کے باوجود بھی اس کا گرم پانیوں تک پہنچنے کا خواب پورا نہ ہو سکا۔ موجودہ امریکی ریاست کے 1777ء میں قیام سے پچاس سال قبل پیٹر دی گریٹ مرتے ہوئے اپنی ایک مشہور وصیت چھوڑ کر گیا۔ یہ وصیت اس دن سے لیکر آج تک روس، سویت یونین اور پھر دوبارہ روس کی حکومتوں کے لیئے ایک بنیادی اصول اور نشانِ منزل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس نے لکھا "جتنا ممکن ہو استنبول اور ہندوستان کے قریب پہنچ سکتے ہو پہنچو۔ یاد رکھو! جو ملک ان دو مقامات پر کنٹرول کرے گا وہی دنیا کا اصل حکمران ہوگا"۔ اس وصیت میں، اس زمانے کے ہندوستان کی جگہ آج پاکستان پڑھا جاتا ہے۔
پیٹر اپنے پیچھے ایک ایسا روس چھوڑ کر گیا تھا جو تمام تر وسائل کے باوجود پسماندہ تھا۔ اس کی تجارت محدود تھی اور وہ دنیا کی بڑی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات اس لئے نہیں کرسکتا تھا کہ اس کا دنیا کے سمندروں پر کوئی اختیار نہیں تھا۔ پیٹر کے مرنے کے بعد عالمی طاقتوں کی آپس میں کشمکش بڑھتی چلی گئی۔ ایسے میں روس نے دو راستوں کے ذریعے سمندر تک پہنچنے کی جدوجہد تقریباً ترک کر دی۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر بحر اسود تک پہنچ بھی گئے تو استنبول اور باسفورس کے تنگ بحری راستے پر کنٹرول انکی ساری تگ و دو کو مٹی میں ملا سکتا ہے اور مشرقی سمت میں انکی اپنی بندرگاہ ولادی ووستک کا راستہ تھا مگر اس راستے کو جاپان اور جنوبی کوریا جب چاہیں بند کر سکتے تھے۔ روس یا سوویت یونین کے پاس اب صرف اور صرف ایک ہی راستہ باقی بچا تھا جس تک اگر رسائی ہو گئی تو وہ دنیا کی تمام عالمی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکتا تھا۔ یہ راستہ بحیرہ عرب تک رسائی کا تھا۔ ایران اس دور میں روس کا پڑوسی تھا لیکن امریکہ کا سپہ سالار شاہِ ایران وہاں موجود تھا۔
امام خمینی کے آنے کے بعد بھی حالات اس لیئے نہ بدلے کہ ایران کے مذہبی طبقے نے جس گروہ کا قلع قمع شروع کیا وہ روس نواز "تودہ" پارٹی تھی جو وہاں کیمونسٹ انقلاب لانا چاہتی تھی۔ دونوں نے مل کر شاہِ ایران کو نکالاتھا لیکن انقلاب کے بعد مذہبی گروہ نے انہیں "منافقین" کہہ کر پکارا اور ہزاروں افراد کی گردنیں اڑا دی گئیں۔ مخالفت کی ایک اور وجہ نظریاتی تھی کہ سوویت یونین اپنا کیمونسٹ انقلاب دنیا بھر میں بھیج رہا تھا، جبکہ ایران نے بھی اس کے مقابلے میں اپنے اسلامی انقلاب کے نفاذ کی مسلم دنیا میں کوششیں شروع کررکھی تھیں۔ اس لیئے 1979ء میں ایران کے ذریعے بحیرہ عرب تک جانے کا خواب بھی تقریباً ختم ہوگیا۔ اس کی دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ اگر آبنائے ہرمز پر ایک جہاز بھی کھڑا کر دیا جائے تو خلیج فارس میں کھڑے تمام جہاز قید ہوجاتے ہیں۔ آبنائے ہرمز سے آزاد، گرم پانیوں تک رسائی کے لیئے اب واحد جگہ وہ ساحلی پٹی رہ گئی تھی جو پاکستان میں جیوانی سے لے کر پورٹ قاسم تک1046کلومیٹر طویل ہے اور اس ساحلی پٹی پر ایک مقام گوادر ہے جو ایسا سمندری ساحل ہے جسے قدرتی طور پر گہرے پانیوں کی بندرگاہ کہتے ہیں۔ جہاں بڑے سے بڑا جہاز بغیر کسی رکاوٹ کے آکر کھڑا ہو سکتا ہے اور وہاں جہاز کو ہر سمت موڑنے کے لیئے کسی مخصوص چینل بنانے کی ضرورت نہیں۔
بالٹک کے سمندر میں نیٹوافواج موجود، بحراسود اور استنبول میں بھی ترکی کے ذریعے نیٹو موجود اور آبنائے سو شیما پر جاپان اور جنوبی کوریا کے ذریعے امریکہ کا تسلط۔ پاکستان ہی باقی بچا تھا، مگراس کی ساحلی پٹی تک پہنچنے کے لیئے افغانستان کے سنگلاح پہاڑوں اور وسیع ریگستان کو عبور کرنا ضروری تھا۔ مردانِ کوہستانی اور بندگانِ صحرائی کے اس وطن افغانستان میں سوویت یونین نے دسمبر 1979ء میں اپنی افواج اتار دیں۔ امریکہ کی سربراہی میں پوری مغربی دنیا افغانستان میں روس کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کی مدد کو آن پہنچی۔ صرف آٹھ سال بعد سوویت یونین کا آخری سپاہی شکست کے عالم میں افغانستان کو خیرباد کہہ کر روس کی جانب روانہ ہوگیا۔ پاکستان کے ساحلی گرم پانیوں تک پہنچنے کا خواب ایسا چکنا چور ہوا کہ سوویت یونین ہی دنیا کے نقشے سے غائب ہوگیا اور پیٹر دی گریٹ کا روس واپس آگیا۔ وہ سینٹ پیٹرز برگ جس کا نام تبدیل کر کے لینن گراڈ رکھ دیا گیا تھا، اب وہ دوبارہ سینٹ پیٹرزبرگ کہلانے لگا۔ روس کے جانے کے بعد افغانستان میں چند سال خانہ جنگی رہی پھر امن ہو گیا۔ اس امن کے داعی اور افغان حکمران ملا عمرؒ کی حکومت کو عالمی طاقتوں نے کمزور جانا اور پھر امریکہ اپنے 48حواریوں کے ساتھ لیئے اس ملک پر ٹوٹ پڑا۔
چودہ سال کی جنگ کے بعد امریکہ کی ذلت و رسوائی کا عالم ایسا تھا کہ اسے روس کی منت سماجت کرنا پڑی کہ وہ امریکی افواج کے انخلا کو پرامن بنائے۔ افغانستان پر طاقت سے قابض ہونے اور خواب کو پورے کرنے کے چکر میں روس1992ء میں ٹوٹا اورآج 2021ء میں امریکہ کا بھی چکنا چور ہوچکا۔ لیکن خوابوں کے چکنا چور ہونے نے ایک حقیقت عیاں کر دی کہ افغان مسلمان طاقت سے نہیں جھکائے جا سکتے اور ان کے بغیر اس خطے میں کوئی منصوبہ سازی نہیں ہو سکتی۔ اس خطے کی چالیس سالہ جنگی تاریخ کے بعد اب ایسی بساطیں الٹی ہیں کہ روس جو کبھی قوت سے پاکستان میں داخل ہونا چاہتا تھا آج اس کا گرم پانیوں تک پہنچنے کا یہ خواب کیسے سفارتی سطح پرپورا ہو چکا ہے۔ کوئی 1979ء میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔