Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Orya Maqbool Jan
  3. Dollar Ki Qeemat Aor Soodi Masnui Kaghzi Currency

Dollar Ki Qeemat Aor Soodi Masnui Kaghzi Currency

ڈالر کی قیمت اور سودی مصنوعی کاغذی کرنسی

پورے ملک میں شور برپا ہے کہ دن بدن پاکستانی روپے کی قدر و قیمت ڈالر کے مقابلے میں گرتی چلی جارہی ہے۔ یہ رونا آج سے نہیں گذشتہ تقریبا ستر سال سے رویا جا رہا ہے، اور یہ صرف ہم نہیں روتے، دنیا کا ہر وہ ملک روتا ہے، جس نے اس عالمی سودی نظام کی اساس، مصنوعی کاغذی کرنسی کو تسلیم کیا اور پھر ان قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلنے لگا، جو جب، جیسے اور جس وقت چاہیں، کسی ملک کی کرنسی کو عالمی مارکیٹ میں ذلیل و رسوا کر دیں اور جس کرنسی کو چاہیں عزت و توقیر بخش دیں۔

یہ مصنوعی کرنسی اس عالمی سودی نظام کی اساس اور بنیاد ہے، جس پر جدید سودی بنکاری کی عمارت کھڑی ہے۔ یہاں تک کہ اپنی تمام تر فقہی احتیاطوں کے باوجود اسلامی بینکاری کی عمارت بھی اسی مصنوعی کاغذی کرنسی پر ہی استوار ہے۔ اس مصنوعی کرنسی کے نظام کو نکال دیا جائے، تو پوری سودی عالمی معیشت کی عمارت دھڑام سے گر جاتی ہے۔ نہ افراطِ زر کی کہانیاں باقی رہتی ہیں اور نہ ایکسچینج ریٹ، منڈیاں اور بازار صدیوں تک مستحکم ہو جائیں گے اور لوٹ مار کے دروازے بند۔

سب سے پہلا سوال جو اکثر مسلمانوں کے ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ سود تو دراصل کسی شخص کو قرض دے کر اس پر زائد روپے کی وصولی کا نام ہے، اب ہم کاغذ کے نوٹوں میں قرض دیں یا پھر سونے کے سکوں میں، فرق کیا پڑتا ہے۔ یہ کاغذی کرنسی رباء (سود) کی تعریف میں کیسے آ گئی۔ اس سے پہلے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اس ناجائز سودی کرنسی کو دیکھا جائے، سود کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اگر کوئی فرد کسی دوسرے کو آج 2018ء میں ایک لاکھ روپے قرض دیتا ہے تو پانچ سال بعد یہ ایک لاکھ روپے عین ممکن ہے صرف دس ہزار روپے کی قدر و قیمت کے برابر رہ جائیں۔ اس لیے دراصل وہ سود وصول نہیں کر رہا ہوتا بلکہ اپنے اصل سرمائے کے برابر ہی قیمت وصول کر رہا ہوتا ہے۔

گویا اگر یہی قرض سونے، چاندی یا پھر گندم اور چاول کی صورت میں دیا جائے تو واپس لیتے ہوئے کسی نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ اسلام اسی جدید سودی نظام کی اساس پر سب سے پہلے ضربِ کاری لگاتا ہے اور پوری انسانیت کے لئے مال، زر یا کرنسی کی تعریف فراہم کرتا ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی متفق علیہ حدیث یوں ہے کہ "حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت بلال ؓ، رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں کچھ برنی کھجوریں لے کر آئے۔ جب حضور ﷺ نے دریافت فرمایا کہ یہ کھجوریں وہ کہاں سے لائے ہیں، تو حضرت بلالؓ نے جواب دیا "یارسول اللہ ﷺ میرے پاس کچھ اس سے کم تر درجے کی کھجوریں تھیں، جس کے دو صاع دے کر میں نے اس کا ایک صاع لے لیا"۔

رسول اکرمﷺ نے فرمایا "یہی تو ربائ(سود) کی اصل ہے، پھر فرمایا "یہی تو رباء کی اصل ہے، اس میں مت پڑو۔ جب تم ایسا کرنا چاہو تو پہلے الگ سے ان کھجوروں کو بیچو اور اس سے جو مال ملے اس سے دوسری خریدو"(بخاری و مسلم)۔ ایسے سودے پر اس قدر سخت بات کہ رسول اکرم ﷺ نے اسے سود کی اصل قرار دے دیا، جب کہ صحابہؓ میں یہ روایات عام تھیں کہ وہ چار اونٹوں کے بدلے ایک سواری والی اونٹنی خریدا کرتے تھے۔ وہاں یہ اصول کیوں کارفرما نہیں کیا گیا۔

دراصل یہاں رسول مقبولﷺ نے اسلام کا تصور کرنسی یا زر کو پوری امت پر واضح کیا اور یہ تصور آج کی جدید ترین معاشیات کے ہر پیمانے پر پورا اترتا ہے۔ چونکہ آئندہ آنے والے زمانوں میں پورا سودی نظام اس مصنوعی کرنسی پر استوار ہونا تھا اور اسلام رہتی دنیا تک کا دین ہے، اسی لیے اس کی کھول کھول کر وضاحت کردی گئی۔ جدید معاشیات میں زر، مال یا "Money" کی بنیادی خصوصیت یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس کی اصلی، حقیقی، قدرتی اور پیدائشی قیمت "Intrinsic value"اس کے اندر موجود ہو جیسے سونا، چاندی، یا کوئی بھی قیمتی دھات۔

اس کے بعد دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس کی اپنی ایک زندگی طویل یا مختصر مدت ہو جسے آج کی زبان میں "Shelf life"کہتے ہیں اور تیسری خصوصیت یہ کہ اسے قیمت یا اجرت کے طور پر قبول کیا جاتا ہو، یعنی آج کی زبان میں وہ "Medium of exchange" ہو۔ سید الانبیاء ﷺنے قرآن میں دی گئی دولت، زر یا "Money" کے تصور کے عین مطابق تفصیل سے وضاحت فرما دی کہ مسلمانوں کے نزدیک کرنسی یا زرد و دولت کا پیمانہ کیا ہونا چاہیے۔

ایک اور حدیث میں کرنسی کی تعریف کرتے ہوئے آپﷺ نے ربا یعنی سود کی بھی ساتھ ہی تعریف فرما دی۔ حضرت ابو سعید الخدری ؓ نے فرمایا کہ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ "سونے کے بدلے سونا، چاندی کے بدلے چاندی، گندم کے بدلے گندم، جو کے بدلے جو، کجھور کے بدلے کھجور اور نمک کے بدلے نمک۔ جب سودا ایک جیسی چیزوں کا ہو اور ادائیگی اسی وقت ہو، ایسے میں اگر کوئی زیادہ دے یا زیادہ مانگے تو انہوں نے رباء (سود) کا ارتکاب کیا اور لینے اور دینے والے دونوں برابر کے قصوروار ہیں "(صحیح مسلم)۔

اس حدیث میں کرنسی کو رہتی دنیا تک واضح کر دیا گیا ہے۔ یعنی اسلام میں دولت، زر، کرنسی یا Money" بنیادی طور پر قیمتی دھاتیں یعنی سونا اور چاندی ہیں اور گذشتہ چودہ سو سال سے پوری امت کی فقہہ کی ہر کتاب ان دونوں ہی کو "نقدین"یعنی کرنسی کا نام دیتی آئی ہے اور حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی، اور جعفری فقہوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ کسی معاشرے، گاؤں، علاقے میں اگر یہ قیمتی دھاتیں میسر نہ ہوں تو پھر وہ اشیاء جن کی ایک طویل زندگی "Shelf life"ہو اور وہ استعمال کی جاتی ہوں، تو انہیں کرنسی کے طور پر استعمال کیا جائے۔

یوں ایک اصول طے کردیا گیا، اب اگر عرب میں "کھجور"اور "جو"ایسی اشیاء وافر مقدار میں ہیں تو ویت نام میں "چاول"کو کرنسی کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کرنسی کی چونکہ ایک عمر ہونی چاہیے اسی لیے جانور یا جلد تباہ ہونے والی اشیاء کو لسٹ سے خارج کر دیا گیا۔ سونے اور چاندی کو "نقدین" کے طور پر کیوں تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس لئے کہ یہ گذشتہ پانچ ہزار سال کی انسانی تاریخ میں کرنسی اور سٹینڈرڈ کے طور پر مستعمل ہیں اور 1945ء کے بریٹن ووڈز "Bretton Woods"معاہدے تک پوری دنیا انہی سونے اور چاندی کے سکوں میں ہی کاروبار کرتی تھی۔ لیکن جنگ عظیم میں اتحادی افواج کی فتح کے بعد عالمی سودی معیشت نے رباء کی اساس یعنی مصنوعی کاغذی کرنسی کو پوری دنیا پر زبردستی لاگو کردیا۔

ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف وجود میں آئے اور بینک آف انٹرنیشنل سیٹلمنٹ Bank of international settlementکو یہ اختیار دے دیا گیا کہ وہ طے کرے کہ کس کے کاغذ کے مصنوعی نوٹ کی کیا قدر و قیمت ہے۔ یہ وہ مصنوعی دولت ہے جس پر سودی معیشت کی عمارت کھڑی کی گئی ہے۔ پانچ ہزار سال کی تحریر شدہ انسانی تہذیبی تاریخ میں انسان کو کبھی یہ ضرورت پیش نہیں آئی کہ سونے اور چاندی کے متبادل کے طور پر اس کاغذی کرنسی نما چیز کو قبول عام کا درجہ حاصل ہوا ہو۔

قرآن پاک میں بھی جہاں کہیں دولت کا ذکر ہوا ہے اللہ نے دینار (سونے کے سکے) اور درہم (چاندی کے سکوں) سے وضاحت کی ہے۔ "اہل کتاب میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ اگر تم ان کے پاس دولت کے انبار امانت کے طور پر رکھواؤ تو وہ تمہیں واپس کر دیں گے، اور ان میں سے کچھ ایسے ہیں کہ اگر ایک دینار کی امانت بھی ان کے پاس رکھواؤ وہ تمہیں واپس نہیں دیں گے، الّا یہ کہ تم ان کے سر پر کھڑے رہو (آل عمران:75)۔ اس آیت میں دینار (سونے کے سکے) کا ذکر ہے اور دوسری آیت میں "اور پھر انہوں نے یوسف کو بہت ہی کم قیمت میں بیچ دیا، جو گنتی کے چند درہموں کی شکل میں تھی (یوسف:20)۔

یہاں چاندی کے سکوں یعنی درہم کا ذکر ہے۔ ان آیات کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کی بے شمار آیتوں میں صرف سونے اور چاندی کو ہی دولت کی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ جدید مصنوعی کاغذی کرنسی جو ایک جھوٹا اور فراڈ وسیلہ تبادلہ "medium of exchange"ہے، خواہ وہ آج کے دور کا سٹینڈرڈ ڈالر ہی کیوں نہ ہو۔ کیا اس ڈالر کو کئی نسلوں تک سونے اور چاندی کے سکوں کی طرح محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔

جیسے سورہ کہف کا وہ واقعہ جس میں حضرت موسی ؑاور حضرت خضرؑ ایک دیوار کی مرمت کرتے ہیں کہ اس کے نیچے ایک صالح اور نیک باپ کا خزانہ دفن تھا اور اللہ چاہتا تھا کہ وہ اس کی نسلوں میں سے کسی کے کام آئے۔ آج کا ڈالر، یورو یا پاکستانی روپیہ، کیا اپنے اندر یہ صلاحیت رکھتا ہے۔ آج امریکہ پر زوال آ جائے جیسے ستر سال پہلے جرمنی پر زوال آیا تو "ڈش مارک" ذلت و رسوائی میں گر گیا، اسی لیے جرمن یہودیوں نے سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں سونا جمع کروایا تھا، یا پھر پچیس سال پہلے جب روس کو زوال آیا تو" روبل" اپنی قدر و قیمت کھو بیٹھا۔

گویا ان مصنوعی کاغذوں کی نہ اپنی کوئی حیثیت ہے اور نہ کوئی پیدائشی قیمت۔ جن نوٹوں کی حیثیت یہ ہو کہ ایک رات کوئی شخص سو کر صبح اٹھے تو وہ اگر سو روپے سے عالمی منڈی میں دس لیٹر پٹرول خرید سکتا تھا مگر صبح اٹھتے ہی پانچ لیٹر ملنے لگے تو گویا راتوں رات اسکی جیب پر پچاس روپے کا ڈاکہ مارا گیا اور اس شحص نے اس ڈاکے کو بخوشی قبول بھی کرلیا۔ یہ ہے رباء (سود) کی اساس۔ یہ سود کی بنیاد ہے اور سودی معیشت کی عمارت اس پر استوار ہے۔

ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمان، اور ستاون سے زیادہ اسلامی ملک اگر صرف ایک فیصلہ کر لیں کہ ہم اس کرنسی میں کاروبار کریں گے جو قرآن میں درج رسول اللہ ﷺ کے احکامات کے مطابق ہے تو پھر دیکھیں کیسے طوفان کھڑا ہوگا۔ پھر پتہ چلے گا کہ جدید مغربی تہذیبی نظام کی ہم سے اصل جنگ نہ انسانی حقوق کی ہے اور نہ حقوق نسواں کی، نہ جمہوریت کی ہے اور نہ آزادی تقریر و تحریر کی۔ آپ اس سودی نظام سے جڑے رہیں اور جو ظلم چاہے روا رکھیں آپ عالمی برادری کی نظروں میں محترم رہیں گے، لیکن آپ ایک دفعہ قذافی کی طرح اعلان کردیں کہ میں سونے کے عوض تیل بیچوں گا۔ پھر اپنا حشر دیکھ لیں۔

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.

Check Also

Roos, Nuclear Doctrine Aur Teesri Aalmi Jang

By Muhammad Aamir Iqbal