آزاد کشمیر نہیں ، آزاد ہندوستان
مجھے معلوم ہے بے شمار ایسے لوگ ہونگے جو اس عنوان کو دیکھ کر ہنسے ہوں گے، مجھے جاہل کہا ہوگا، کتنے غصے میں آئے ہوں گے۔ اسی قبیل کے لوگ اس دن بھی میرے جیسے لوگوں کی سوچ پر کھلکھلا کر ہنسے تھے جب 7 اکتوبر 2001ء کو کسی عفریت کی طرح دندناتا ہوا امریکہ اپنے ساتھ اڑتالیس ترقی یافتہ ممالک کی ٹیکنالوجی اور افرادی قوت کے ساتھ افغانستان جیسے پسماندہ ملک پر حملہ آور ہوا تھا۔
اس وقت میرے جیسے دقیانوس، ماضی پرست، معروضی حالات سے بے خبر یہ کہتے تھے کہ اس کائنات کا ایک حقیقی فرمانروا ہے جو فتح سے ہمکنار کرتا ہے، لیکن اسکے لیے صرف ایک ہی شرط ہے کہ اسکی ذات پر مکمل بھروسہ کیا جائے۔ کوئی قوم جو صرف اپنے دست و بازو، اسلحہ و بارود، شاندار ٹریننگ، عسکری نظم و ضبط اور جدید ٹیکنالوجی پر کامل بھروسہ کرکے میدان میں اترتی ہے اورصرف تسلی کیلئے اللہ کو بھی شریک کرنے کے لئے دعا کرتی ہے تو وہ اسے اسکے مال و اسباب کے سپرد کردیتا ہے۔ اسکا تو واضح حکم ہے "نکلو اللہ کی راہ میں، ہلکے ہو یا بوجھل" (التوبہ: 41)۔
آج اٹھارہ سال کے بعد وہ تمام تبصرہ نگار اور دفاعی تجزیہ نگار منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ لیکن گواہ رہے، آج کا یہ دن، اس خطے کا کشمیر، موجودہ متحدہ بھارت اور ملت اسلامیہ کی واحد ایٹمی قوت پاکستان کہ کشمیری اب جس توکل سے بھارت کا مقابلہ کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے ہیں وہ یہ ہے کہ انکا ہر مجاہد اپنے لئے جذبے کی تحریک صرف افغان طالبان کی فتح سے لے رہا ہے۔ یہ آغاز برہان وانی اور ذاکر موسیٰ کی شہادت اور انکے ساتھیوں کے جہاد سے ہو چکا ہے۔
اب یہ جنگ صرف کشمیر کی آزادی تک نہیں رکے گی، یہ بھارت میں بسنے والے تیس کروڑ مظلوم مسلمانوں کی آزادی اور اس خطے پر اللہ کی مکمل حاکمیت کے پرچم کے لہرانے تک چلے گی۔ یہ کوئی خواب نہیں۔ اللہ کا وعدہ ہے ان سے جو صرف اس پر بھروسہ کرکے نکلتے ہیں اور سید الانبیائﷺکی بشارت ہے جو اس خطے سے فتح کی علامت کی طرح وابستہ ہے۔ میرے ان دوستوں کی تسلی کیلئے جو میری گفتگو کو اسوقت نسیم حجازی کا ناول سمجھ رہے ہونگے، تھوڑی دیر معروضی حالات میں کشمیر کی موجودہ صورتحال کو پرکھتے ہیں اوراللہ کی حاکمیت کو میرے ان دوستوں کی طرح ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔
عمران خان کے دورہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اس رازکو افشا کرنے کے بعد کہ مودی نے اسے ثالثی کی درخواست کی تھی، یہ اچانک کشمیر کا محاذ اتنا گرم کیسے ہوگیا۔ سب سے پہلے لائن آف کنٹرول پر فائرنگ شروع ہوئی، پھر وادی میں ایک بہت بڑے آپریشن کی تیاری شروع ہوگئی۔ تمام لاؤ لشکر اور اسلحہ و بارود پہنچادیا گیا، خوف زدہ کرنے کے لیے کلسٹر بم پھینکے گئے، چاروں جانب دستے مارچ کرنے لگے، سیاحوں کو علاقہ چھوڑنے کا حکم دیا گیا، ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی، امرناتھ یاترا والوں کو بھی وادی چھوڑنے کا سندیس دے دیا گیا۔
صدارتی حکم نامے سے آرٹیکل 370 ختم کردیا گیا اور اب لوگ سبھا میں امیت شاہ نے وہ بل بھی پیش کردیا ہے جسکے تحت آرٹیکل(A) 35 بھی ختم ہو جائے گا اور کشمیر ایک ایسا خطہ بن جائے گا جس میں ہر کوئی جاکر آباد ہو سکے گا۔ مقصد وہی ہے کہ جس طرح اسرائیل نے یہودیوں کو یروشلم میں آباد کرکے فلسطینیوں کو بے دخل کیاتھا، ویسا ہی اب کشمیر میں بزور طاقت کیا جائے گا۔ لیکن یہ اتنا سادہ معاملہ نہیں ہے۔
عالمی سطح پراسوقت 1920ء کی عرب دنیا، خلافت عثمانیہ کی ذلت آمیز شکست کے بعد قومی اور قبائلی ریاستوں میں منقسم ہونے کے ساتھ ساتھ برطانیہ اور فرانس کے تسلط میں بھی تھی۔ آج 2019ء کی عالمی سطح بالکل مختلف ہے اور وہ یہ کہ طالبان کی افغانستان میں فتح نے اس خطے کا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ امریکہ کی 18سالہ جنگ میں سرمایہ اور ٹیکنالوجی، دونوں کو شکست ہوئی ہے اور بھارت کی بھی اٹھارہ سالہ افغان حکمت عملی بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ڈوبنے کے ساتھ ساتھ اسے ذلیل و رسوا کرکے کان سے پکڑ کر افغانستان اور اسکے معاملات سے بے دخل کر دیا گیا ہے۔
کہاں 2001ء میں اس نے پورے خطے پر مکمل کنٹرول کا خواب دیکھا تھا اور کہاں اب یہ خطرہ کہ امریکہ کے افغانستان سے نکلنے اور طالبان کے اقتدار میں آنے کے فورابعد دنیا بھر کے جہادیوں کا اگلا ٹھکانہ کشمیر ہوگا اور جب یہ لوگ کشمیر میں داخل ہوں گے تو اس شوق اور ولولے کے ساتھ ہونگے کہ وہ ابھی ابھی ایک عالمی طاقت اور اسکے اڑتالیس حواریوں کو افغانستان میں شکست دے کر آئے ہیں۔ دنیا بھر کے جہادی جن احادیث سے اپنے لئے رہنمائی لیتے ہیں وہ کشمیر کی فتح کا ذکر نہیں کرتیں بلکہ جہاد ہند کی بشارتوں والی فتح کے تذکرے سے معمور ہیں۔
کشمیر میں جہادیوں کا داخل ہونا جو بھارت کی سات ہزار پانچ سو سالہ (7، 516) کلومیٹر لمبے سمندری ساحل کی موجودگی میں اس قدر آسان ہے کہ طاقتور ترین فوج بھی اسے نہیں روک سکتی۔ اگر یہ وہاں داخل ہوگئے، تو پھر انکی منزل کشمیر کی آزادی نہیں بلکہ جہاد ہند ہوگی۔ ایسی صورت میں یہ جنگ بھارت کے ہر شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ اسرائیل کے اردگرد آباد مصر، سعودی عرب، اردن، شام، لبنان، عراق اور خلیجی ریاستوں میں مسلمانوں کی کل آبادی بیس کروڑ کے قریب ہے جبکہ اکیلے بھارت میں 25 کروڑ مسلمان آباد ہیں اور یہ ایسے مسلمان ہیں جو گذشتہ دہائیوں سے ذلت اور رسوائی کی زندگی گزار رہے ہیں اور ہر جگہ خوف میں زندہ ہیں۔
مشرق وسطیٰ کے بیس کروڑ مسلمانوں پر کم از کم دس حکومتیں ہیں جو جہادیوں کے کنٹرول کرنے کیلئے امریکی مفادات پر عمل پیرا ہیں، جبکہ بھارت تو اسوقت اٹھارہ ریاستوں میں خانہ جنگی سے نبرد آزما ہے۔ ان 25 کروڑمسلمانوں میں سے چند ہزار بھی کشمیر کے جہاد میں شامل ہوگئے تو بھارت ایک ایسا ملک بن جائے گا جہاں آسام سے لے کر پلوامہ تک ہر محلہ آگ و خون میں نہلا رہا ہوگا اور اس منظرنامے پر اسی دن سے بھارت میں غور شروع ہوگیا تھا جب تین سال پہلے کشمیریوں کے ساتھ شہید ہونے والوں میں کیرالہ کے نوجوان بھی شامل تھے۔ پوری انتظامیہ خوف میں ڈوب گئی تھی۔
یہ جو اچانک اس محاذ پر گرم جوشی آئی ہے یہ ایک عالمی طے شدہ پلان کا حصہ ہے۔ جس طرح 2018ء کے اگست میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ طالبان پر مکمل قوت سے آخری بار حملہ کرکے انہیں تباہ وبرباد کر دیا جائے۔ اور پھر دنیا کے سب سے بڑے غیر ایٹمی بم سمیت سب کچھ استعمال کیا گیا تھالیکن نتیجہ الٹ نکلا۔ ویسے ہی بھارت کو کہا گیا ہے کہ طالبان امریکہ معاہدہ ہونے سے پہلے پہلے جس طرح ممکن ہو سکے کشمیریوں کی تحریک کو دبا دے۔
عالمی تبصرے یہ ہیں کہ ایسا مشکل ہی نہیں، نا ممکن بھی ہے۔ کیونکہ اس ایکشن کے بعد کشمیریوں کی آپس میں تھوڑی بہت تقسیم بھی ختم ہو جائے گی اوراس جہاد کی آگ، بھارت میں پھیلنے کا بھی خطرہ ہے۔ ایسے میں وہی الزام جو امریکہ لگاتا تھا کہ یہ سب پاکستان کی مدد سے ہو رہا ہے، ویسا ہی الزام لگا کر پاکستان سے کنٹرول لائن پر جنگ کا آغاز ہوگا۔ اس ایٹمی فلیش پوائنٹ کا بہانہ بنا کر اقوام متحدہ اور عالمی برادری اس میں کودے گی، جس کا آخری منظر وہ ہوگا جسکا اشارہ ڈونلڈ ٹرمپ نے دیا ہے کہ وہ ثالثی کرنے کو تیار ہے۔
اس ثالثی کا بنیادی مقصد صرف ایک ہوگا کہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو ایک عام قومی آزادی کی جنگ سے آگے نہ بڑھنے دیا جائے۔ اسے ویتنام اور انگولا کی طرح قوم پرستی اور خطے کی آزادی تک تسلیم کرکے مسئلہ حل کیا جائے۔ اس معاملے میں دونوں جانب سے پس پردہ بہت کام ہو چکا ہے، کافی حد تک حل بھی تجویز ہو چکے ہیں۔ پاکستان اور چین کے لیے گلگت بلتستان اہم ہے کیونکہ سی پیک وہاں سے گزرتی ہے یہ پاکستان کو دے دیا جائے۔ لداخ میں بدھ آباد ہیں اور یہ چین اور بھارت کے درمیان بہترین بفر زون بن سکتا ہے، اسے نیم خودمختاری دے دی جائے۔
سوال وادی اور جموں پر آئے گا۔ اس علاقے کو کچھ سالوں کے لئے اقوام متحدہ کی نگرانی اور دونوں ملکوں کی مشترکہ کمان کے تحت ایک سیاحتی خطے کا درجہ دیا جائے گا اور پھر دس سال بعد اگر رائے شماری کرائی جائے گی تو اس وقت تک کشمیری ایک عالمی سیاحتی مرکز کی تمام خرابیوں کے عادی ہو چکے ہوں گے۔ ایسے میں نتیجہ یقینا مختلف ہی نکلے گا۔ یہ ہے وہ عالمی طاقتوں کا خواب جو اب کشمیریوں کے خون سے تحریر کیا جارہا ہے۔ لیکن ایسا ہی خواب افغانستان میں بھی دیکھا گیا تھا۔ امریکی ڈالروں کی بھرمار، نائٹ لائف اور کلبوں کی زندگی، تعیش اور معیار زندگی کی بلندی بھی افغان طالبان کے خلاف نفرت پیدا کر سکی اور نہ ہی انہیں شکست دے سکی۔
اس لئے کوئی کچھ تعبیر کرے میرے لئے میرے آقا سید الانبیائﷺ کی یہ بشارت اہم ہے کہ یہ خراسان (افغانستان) ہے، یہاں سے کالے جھنڈے نکلیں گے اور ایلیا (بیت المقدس) میں گاڑ دیے جائیں گے۔ آج وہ کالے جھنڈے افغانستان میں سر بلند ہو چکے ہیں۔ اب وہی حکمت عملی کشمیر میں اپنائی جائے گئی اور یہاں بھی میرے آقا کی بشارت موجود ہے "جب تم ہند کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لاو گے تو عیسیٰ ابن مریم کو اپنے درمیان پاؤ گے (کتاب الفتن)۔
ہم اس معرکے میں داخل ہوچکے۔ اب یہ افغانستان کی طرح اٹھارہ سال چلتا ہے یا زیادہ یا پھر کم، لیکن فتح کی بشارت موجود ہے، صرف کشمیرکی فتح نہیں آزاد ہندوستان کی بشارت۔