آنکھ جھپکنے جتنی غلطی …اور…
چین کے اخبارات و رسائل اور الیکٹرانک میڈیا کے حالاتِ حاضرہ کے پروگراموں میں ان دنوں ان کی تاریخ کی مشہور ضیافت کا تذکرہ ملتا ہے جسے "ہانگ مین ضیافت" (Hongmen Banquet) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ چینی تاریخ میں اس کا دوسرا نام "راج ہنس والے دروازے پر پُرتکلف دعوت " (Feast at Swan Goose Gate) ہے۔ یہ دراصل 206قبل مسیح کا واقعہ ہے جب چین پر کوئن (Qin) خاندان کی حکومت تھی۔ اس خاندان کے اقتدار کے خلاف چین کے مختلف علاقوں میں بغاوتیں پھوٹ پڑیں اور بالآخر یہ دو بڑے گروہوں میں تقسیم ہوگئیں اور دونوں گروہ علاقوں پر علاقے فتح کرنے لگے۔ اس جنگ میں دو اہم رہنما لیو بینگ (Liu Bang) اور ژانگ یو (Xiang yu) ابھرے، جن کی فوجیں چین کے تخت پر قبضے کے لیئے لڑ رہی تھیں۔ 207قبل مسیح کے اختتام پر لیو بینگ کی فوج نے کوئن بادشاہت کے دار الحکومت ژیان ژانگ کا محاصرہ کر لیا۔ کوئن بادشاہ نے ہتھیار ڈال دیئے اور یوں اس خاندان کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا۔ لیکن لیو بینگ اپنی حکومت اور اقتدار قائم نہ کر سکا، کیونکہ ژانگ یو کی افواج علاقوں پر علاقے فتح کرتی جا رہی تھیں۔ لیو بینگ نے بادشاہت کے اعلان سے قبل ژانگ یو کو منانے کی کوشش کی اور مختلف افراد کے ذریعے شراکتِ اقتدار اور رشتے داری سمیت ہر طرح کی پیشکش بھی کی۔ لیو بینگ ایک سادہ دل آدمی تھا، وہ چین میں امن و امان کی خاطر ژانگ یو کے سامنے خود کو اقتدار سے علیحدہ کرنے پر بھی راضی ہو گیاتھا۔ اس مقصد کے لیئے ژانگ یو نے اس مشہورِ عام ضیافت کا اہتمام کیا گیا۔ لیوبینگ سو ساتھیوں سمیت راج ہنس والے دروازے سے اندر داخل ہوا، جس کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ لیو بینگ نے کہا کہ وہ خوش قسمتی سے پہلے دارالحکومت پر قابض ہو گیا تھا ورنہ وہ ژانگ یو کی شجاعت کا دل سے قائل ہے۔ دراصل بیشمار حاسدوں نے ہمارے درمیان اختلافات پیدا کردیئے ہیں۔
دعوت جاری تھی، تمام مہمان میزوں پر بیٹھے تھے کہ ژانگ یو کے جرنیل فان ینگ نے اسے اشاروں اشاروں میں کہا کہ موقع اچھا ہے لیوبینگ کو قتل کردو، لیکن اس نے توجہ نہ دی۔ تھک ہار کر اس نے ژانگ یو کے چچا زاد، ژانگ ژوانگ کو کہا کہ تم تلوار گھمانے والے کھیل کا تماشہ کرنے کے روپ میں اندر داخل ہو جاؤ اور موقع پاتے ہی لیوبینگ کو قتل کر دو۔ لیو بینگ کا جرنیل فان کوئی دعوت کے خیمے سے باہر پوری زرہ بکتر اور ہتھیاروں سے لیس کھڑا تھا۔ اسے تلوار کا تماشہ دکھانے والے پر شک گزرا اور وہ اند داخل ہوا اور اس کے مقابلے پر آکر تلوار بازی کرنے لگا جس پر مجمع حیرت میں ڈوب گیا۔ ژانگ یو بھی متاثر ہوا اور اس نے اسے گوشت کا ایک بڑا ٹکڑا پیش کیا تاکہ وہ اسے کھا سکے۔ فان کوئی نے گوشت کو تلوار کی نوک پر اٹھایا اور زرہ پر رکھ کر کھاتا رہا تاکہ اس کی نظر بچا کر کوئی لیوبینگ کو قتل نہ کر دے۔ اس دوران لیوبینگ باتھ روم کا بہانہ کرکے اٹھا اور جرنیل فانگ کوئی کے ساتھ دعوت سے فرار ہو گیا۔ جاتے ہوئے اس نے تمام تحائف جو وہ لیکر آیا تھا خیر سگالی کے طور پر ملازمین کے حوالے کر دیئے۔ اس کے بعد جنگ جاری رہی، لیوبینگ کی نیک نیتی اور حسنِ سلوک نے اسے جنگِ گیشیا میں فتح نصیب کی اور ژانگ یو نے اس جنگ کے بعد خودکشی کرلی۔ چین کے لوگ اس تاریخی داستان کو ایک ایسی کیفیت سے تعبیر کرتے ہیں جس میں بظاہر خوشی، رنگ، روشنی اور مسرت نظر آرہی ہو مگر اس میں دھوکہ، غداری، بے ایمانی اور فریب چھپا ہو۔
"ہانگ مین ضیافت" کی داستان کو 19مارچ 2021ء کو الاسکا میں ہونے والی امریکہ اور چین کی اعلیٰ سطح کی کانفرنس کے حوالے سے یاد کیا جا رہا ہے۔ اس کانفرنس میں پہلی دفعہ دونوں ملکوں کے اعلیٰ ترین عہدیداروں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا اور برسر ِعام ملامت کی۔ جوبائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ سفارتی نوعیت کی پہلی اعلیٰ سطحی کانفرنس تھی، جس میں سفارتی آداب بالائے طاق رکھ دیئے گئے اور نوبت براہ راست طعن و تشنیع پر آگئی۔ اس کانفرنس میں امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلینکن (Antony Blinken) اور قومی سلامتی کے مشیر جیک سولیون (Jake Sullivan) شریک تھے، جبکہ چین کی طرف سے چینی وزیر خارجہ وانگ یی (Wang yi) اور چین کی حکومت اور پولٹ بیورو کا اہم ترین رکن یانگ جیچی (Yang Jiechi) نے شرکت کی۔ یہ شخص چین کی کیمونسٹ پارٹی کی خارجہ امور کی کمیٹی کا سربراہ ہے۔ میٹنگ کا آغاز امریکی وزیر خارجہ کی مختصر ابتدائی تقریر سے ہوا جس کی وجہ سے پورے ماحول میں تلخی پیدا ہو گئی۔ بلینکن نے کہا کہ میں ابھی ابھی امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن، جاپان اور کوریا کے وزرائے خارجہ اور اپنے دیگر دو اہم اتحادیوں سے ملاقاتیں کر کے لوٹا ہوں۔ یہ سب ہماری اور آپ کی اس کانفرنس میں بہت دلچسپی لے رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس میٹنگ میں ہم چین کے ان اقدامات پر بحث کریں جو وہ سنکیانگ، ہانگ کانگ اور تائیوان کے حوالے سے کر رہا ہے اور امریکہ پر اسکے بار بار سائبر حملوں کے بارے میں بھی گفتگو کریں۔ ہم یہاں چین سے اس بارے میں بھی سوال کرنا چاہتے ہیں کہ اس نے ہمارے اتحادیوں کا معاشی استحصال کرنا کیوں شروع کر کھا ہے۔
چین کے یہ تمام اقدامات دنیا بھر کے امن اور استحکام کے لیئے بہت بڑا خطرہ ہیں۔ ان معاملات میں سے اکثر کا تعلق چین کی داخلی کیفیت سے ہے، لیکن ہم پھر بھی انہیں بالکل ایک اندرونی معاملہ نہیں سمجھتے۔ یہ تھے وہ ابتدائی نکات جن سے کانفرنس کی فضا میں تلخی پیدا ہوئی تھی۔ اس کے فوراً بعد چین کی جانب سے یانگ جیچی تقریر کیلئے کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ بلینکن نے چونکہ سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھ کر بالکل مختلف تقریر کی ہے اس لیئے میں بھی مجبور ہوگیا ہوں کہ اب ذرا مختلف انداز سے گفتگو کروں۔ اس کے بعد اس نے 2منٹ کی پابندی کو بالائے طاق رکھ دیا اور سولہ منٹ تک بولتا رہا۔ اس نے کہا کہ امریکہ میں رہنے والے اکثر لوگ امریکی جمہوریت پر اعتماد نہیں رکھتے، جبکہ چین نے اس عرصے میں انسانی حقوق کے حوالے سے بہت زیادہ پیش رفت کی ہے۔ اس نے کہا کہ امریکہ کا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے پوری دنیا کو اپنی ذاتی رعایا سمجھتے ہوئے اپنا جبر قائم کر رکھا ہے اور وہ اپنے ان اقدامات کو امریکی سلامتی کے تحفظ کا نام دیتا ہے۔ اس نے طاقت بھی استعمال کی ہے اور معاشی پابندیاں بھی لگائی ہیں جن کی وجہ سے دنیا میں ایک معمول کی تجارتی فضا بالکل ختم ہو چکی ہے۔ ان دنوں امریکہ اپنے مقاصد کے حصول کیلئے دنیا کے بے شمار ممالک کو اکسا رہا ہے کہ وہ چین پر حملہ کردیں۔ ان ابتدائی کلمات کے بعد میڈیا رخصت ہو گیا تو بلینکن اور سولیون قریب آئے اور انہوں نے یانگ کی کمر تھپکی اور کہا کہ امریکہ اور چین کا ایک دوسرے کو چیلنج کرنا اچھا نہیں لگتا ہے جس پر چینی یانگ نے طنزاًکہا کہ دراصل غلطی میری ہے کہ مجھے امریکی وزیر خارجہ کو محتاط زبان استعمال کرنے کیلئے میٹنگ سے پہلے ہی کہہ دینا چاہیے تھا۔
اس کے بعد جو کچھ میٹنگ میں ہوا اور بعد میں جو کچھ دونوں ملکوں کے اخبارات میں لکھا جارہا ہے، اس کا لبِ لباب صرف یہ ہے کہ چین اب یہ سمجھتا ہے کہ گزشتہ دس سالوں سے دنیا میں معیشت اور طاقت کا توازن اس کی طرف ہو چکا ہے اور یہ وقت ایسا ہے کہ امریکہ اور یورپ چونکہ کرونا کا شکار ہیں اس لیے اسے اپنی قوت دکھانی چاہیے، جبکہ امریکہ یہ سوچ رہا ہے کہ اگر چین کے بڑھتے ہوئے قدم ابھی سے بزور قوت نہ روکے گئے تو پھر اسے روکنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ کیا یہ کیفیت جنگ چھیڑ سکتی ہے؟ ماہرین کہتے ہیں ایک آنکھ جھپکنے جیسی غلطی کسی بھی وقت عالمی جنگ کا آغاز کر سکتی ہے۔