وزیراعظم اپنے ’’ترجمانوں‘‘ کی مجبوریوں کا ادراک کریں
بدھ کے روز جو کالم چھپا اسے پڑھ کر نواز شریف صاحب کے کئی چاہنے والے ناراض ہوگئے۔ سوشل میڈیا پر تبصرہ آرائی کے علاوہ کچھ لوگوں نے براہِ راست فون پر رابطہ بھی کیا۔ مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ اگر سابق وزیر اعظم کو ڈیل یا ڈھیل مل گئی تو سیاسی کشیدگی میں نمایاں کمی ہوجائے گی۔ "استحکام" کا ماحول بن جائے گا۔ استحکام بازار میں پھیلی کسادبازاری کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔
وہ خفا تھے کہ ان کی دانست میں اپنے کالم کے ذریعے میں نے یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کی ہے کہ نواز شریف کے ساتھ ڈیل یا ڈھیل سے خلقِ خدا کی بے پناہ اکثریت کو جو تنخواہ داروں اور کم آمدنی والوں پر مشتمل ہے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ اس سے "گریز" کامشورہ دیتا محسوس ہوا۔ میں نہایت احترام سے ان کا شکوہ سنتا رہا۔ اپنے دفاع میں ایک لفظ بھی نہ کہا۔
اس کالم کے ذریعے مگر انتہائی دیانت داری سے یہ بیان کرنے کو مجبور ہوں کہ ہمارے مقدر کے مالک اگر سابق وزیر اعظم کو ڈیل یا ڈھیل دینا چاہیں گے تو میرے "مشوروں" کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔ شریف خاندان اس وقت اپنی زندگی کے انتہائی کڑے ایام سے گزررہا ہے اور میں نے اپنے بدترین دشمنوں کے لئے بھی ہمیشہ خیر کی دُعا مانگی ہے۔
چند دنوں سے اس کالم کے ذریعے فقط یہ بیان کرنے کی کوشش کررہا ہوں کہ پاکستان میں پھیلے عدم اطمینان کا واحد سبب سیاسی کشیدگی ہی نہیں ہے۔ معاملات کو سنگین تر بنانے میں اس نے یقینا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کا خاتمہ معاملات کو بہتری کی جانب موڑنے میں مدد گارہوگا۔ ہمارے اقتصادی حالات کی "گوٹ" مگر IMF کے ساتھ ہوئے معاہدے میں پھنس چکی ہے۔ اس معاہدے پر کامل عمل درآمد کے لئے 39 مہینوں کا وقت طے ہوا ہے۔ تین برس سے زائد عرصہ کی اذیت ومشقت ہے۔ ان برسوں کے دوران ساری توجہ اس ہدف پر مرکوز رہے گی کہ ریاستِ پاکستان اپنے اخراجات کو میرے اور آپ سے لئے ٹیکسوں کے ذریعے چلائے۔ ہمارے گھروں میں جو بجلی فراہم ہورہی ہے کہ حکومت ان کے نرخوں کو قابل برداشت سطح پر قائم رکھنے کے لئے قومی خزانے سے رقوم Subsidy کی صورت خرچ نہ کرے۔ ہمارے چولہوں کو مہیا ہوئی گیس کے ضمن میں بھی یہی رویہ اختیار کیا جائے۔
IMF سے جو معاہدہ ہوا ہے اس کی شرائط بہت کڑی ہیں۔ ان پر عملدرآمد کسی بہتری کی امید دلاتا نظر نہیں آرہا۔ سیاسی کشیدگی کی وجہ سے ہمارے سیاست دان اور میڈیا کے بااثر لوگ ان شرائط کو عام فہم زبان میں خلقِ خدا کو بر وقت سمجھا نہیں پائے۔ ساری توجہ کرپشن اور منشیات کے الزامات کے تحت پکڑ دھکڑ پر مرکوز رہی۔ اس کے بعد گرما گرم مباحثے اس موضوع پر جاری رہے کہ "چوروں اور لٹیروں" کو قومی اسمبلی آنے کی اجازت کیوں دی جائے۔ جیل میں رکھے حضرات کو "وی آئی پی" سہولتیں نہ ملیں۔ قانون "سب کے لئے مساوی"نظر آئے۔
کرپشن کے خلاف برپا سیاپا فروشی کی وجہ سے ہمیں احساس تک نہ ہوا کہ ایک عالمی ادارے یعنی IMF کے ساتھ عمران حکومت نے نہیں بلکہ ریاستِ پاکستان نے ایک معاہدہ پر دستخط کرلئے ہیں۔ اس معاہدے سے روگردانی اسی صورت ممکن ہے اگر عالمی مالیاتی نظام پرحتمی کنٹرول کے حامل امریکہ جیسے ممالک کو اس کے عوض ریاستِ پاکستان سے "کچھ ملتا" نظر آئے۔ ٹھنڈے دل سے ہمیں یہ ڈھونڈنے کی ضرورت ہے کہ ہماری معیشت میں آسانیاں فراہم کرنے کے لئے ہم سے "کیا" طلب کیا جاسکتا ہے یا کیاجارہا ہے۔ ٹی وی سکرینوں پر لگے تماشے ہمیں اس جانب توجہ دینے کی مہلت ہی نہیں دے رہے۔
پنجابی کا ایک محاورہ اکثر یاددلاتا رہتا ہوں جو اصرار کرتا ہے کہ ہاتھوں سے لگائی گرہیں بسااوقات دانتوں کے استعمال سے کھولنا پڑتی ہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ ہماری معیشت میں جمود پیدا کرنے کے لئے گرہیں لگانے کا آغاز کب، کیسے اور کہاں سے ہوا۔ ان گرہوں کی دریافت کے بعد ہی انہیں کھلونے کی راہ ڈھونڈی جاسکتی ہے۔
یاد رہے کہ "گرہیں" فقط پاکستان ہی میں لگی نظر نہیں آرہیں۔ مثال کے طورپر برطانیہ دنیا کا قدیم ترین جمہوری ملک ہے۔ وہاں کی اشرافیہ بہت کائیاں شمار ہوتی ہے۔ اس کے ٹھنڈے مزاج کی وجہ سے برطانیہ کی تاریخ میں "انقلاب" اور "خانہ جنگی" کی وہ صورتیں نظر نہیں آئیں جو فرانس اور سپین جیسے ممالک پر اکثر نازل ہوتی رہیں۔ ٹھوس اور مستحکم بنیادوں پر قائم ہوا یہ نظام بھی لیکن Brexit کی وجہ سے انتشار کا نشانہ بن چکا ہے۔
عوامی جذبات کو بے بنیاد "حقائق" کو منظر عام پر لاتے ہوئے بھڑکایا گیا۔ اکثریت کو قائل کردیا گیا کہ یورپی یونین کا رکن ہونے کی وجہ سے برطانیہ اپنی ثقافت سے محروم ہورہا ہے۔ اس کی "خودمختاری" خطرے میں ہے۔ زراعت تباہ ہوگئی۔ فیکٹریاں بند ہوگئیں۔ بے روزگاری پھیلی۔ برطانیہ میں رونق لگانے کے لئے یورپی یونین سے جدائی لازمی دکھائی گئی۔
بے بنیاد "حقائق" کے فروغ نے برطانوی عوام کی اکثریت کو یورپی یونین سے علیحدگی کے سوال پر ہوئے ریفرنڈم میں Exit کی حمایت میں ووٹ ڈالنے کو مجبور کردیا۔ ریفرنڈم میں یورپی یونین سے جدائی کی حمایت حاصل کرنے کے باوجود حکومت کو یورپی یونین سے الگ ہوجانے کا حوصلہ نصیب نہ ہوا۔ تھریسامے نے استعفیٰ دیا۔ اس کی جگہ بورس جانسن وزیر اعظم بنا ہے اور اب دنیا میں قائم تمام پارلیمانوں کی "ماں" کہلاتی برطانوی پارلیمنٹ کو معطل کرتے ہوئے 31 اکتوبر تک یورپی یونین سے علیحدگی کو تلابیٹھا ہے۔ برطانوی اشرافیہ کو ہرگز سمجھ نہیں آرہی کہ وہ Brexit کی وجہ سے لگائی گرہیں کیسے کھولے۔
IMF کے ساتھ ہوا معاہدہ میری عاجزانہ رائے میں پاکستان کا Brexit ہے۔ اس کی وجہ سے جو کسادبازاری مسلط ہوئی ہے، تنخواہ دار اور کم آمدنی والے طبقات کی زندگی مسلسل اجیرن ہورہی ہے۔ اس سب کا سیاسی خمیازہ عمران خان اور ان کی جماعت کو بھگتنا ہوگا۔
IMF کے ساتھ ہوئے معاہدے پر کامل عمل درآمد کے لئے ڈاکٹر حفیظ شیخ صاحب کو وزارتِ خزانہ کے منصب پر بٹھایا گیا ہے۔ انہوں نے وزارت کا عہدہ حاصل کرتے ہوئے اپنے گلے میں وہ "پٹہ" بھی نہیں پہنا جو تحریک انصاف میں باقاعدہ شمولیت کے لئے عمران خان کے ہاتھوں پہنایا جاتا ہے۔ حفیظ شیخ صاحب کی چلائی پالیسیوں کے دفاع کے لئے مگر 35سے زیادہ "ترجمان" تعینات ہیں۔ وزیر اعظم صاحب ان "ترجمانوں" سے خفا رہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ ترجمان حکومت کی اچھی اور مثبت باتیں لوگوں کے سامنے لانے میں ناکام رہے ہیں۔ "ترجمانوں" کو مگر یہ باتیں دریافت کرنے میں بہت دِقت محسوس ہورہی ہے۔
"ترجمانوں" سے مجھے واقعتا دلی ہمدردی ہے۔ وہ کسی صورت اس حقیقت کا دفاع نہیں کرسکتے کہ میرے اور آپ کے گھروں میں آئے بجلی کے بل ناقابلِ برداشت ہوتے رہیں اور حکومت چند سیٹھوں کے مخصوص گروہ کو "کاروبار میں آسانی" کے نام پر رعایتیں دیتی چلی جائے۔ ماضی کی حکومت کی مبینہ "لوٹ مار" کی داستانیں سناتے ہوئے کب تک کام چلائیں۔ تنخواہ دار یا کم آمدنی والے طبقات کو محض یہ بتاتے ہوئے مطمئن نہیں رکھا جاسکتا کہ نواز شریف کے ساتھ عام قیدیوں والا برتائو ہورہا ہے۔
ایک "عام قیدی" ہوتے ہوئے نواز شریف سے جیل میں فقط ان کے "خونی رشتے دار" ہفتے میں ایک دن یعنی جمعرات کے روز چند گھنٹے کے لئے مل سکتے ہیں۔ قانون "سب کے لئے برابر ہوگیا"- تالیاں۔ "برابری" کے اطلاق کے بعد مگر شہباز شریف صاحب کو خواجہ آصف اور احسن اقبال کے ہمراہ پیر کے روز نواز شریف سے ملاقات کی "خصوصی اجازت"کیوں دی گئی۔ اس سوال کا جواب وہ "ترجمان" ہرگز فراہم نہیں کرسکتے جو گزشتہ کئی دنوں سے ٹی وی سکرینوں پر سینہ پھیلاتے ہوئے حقارت سے ہمیں یاد دلاتے رہے کہ نواز شریف ایک "سزا یافتہ مجرم" ہیں۔ ان کے ساتھ وہی سلوک ہوگا جو عام مجرموں کا مقدر ہوتا ہے۔ وزیر اعظم صاحب کو اپنے "ترجمانوں" کی مجبوریوں کا ادراک ہونا چاہیے۔ ان "ترجمانوں" کے ذریعے اصل مسائل اور سوالات کو زیر بحث لانے کی راہ نکالیں۔