Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Trump Always Chickens Out

Trump Always Chickens Out

ٹرمپ آلویز چکنز آؤٹ

سوشل میڈیا کو اپنی طاقت کا حقیقی سرچشمہ سمجھنے والے ٹرمپ اور اس کے حامی روایتی میڈیا خصوصاً پریس کی ایجاد کے بعد متعارف ہوئے اخبارات سے بہت خارکھاتے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ، نیویارک ٹائمزاور وال سٹریٹ جرنل جیسے اخبارات کووہ Legacy Media پکارتے ہیں۔ نظر بظاہر اخبارات کے لیے یہ لقب باعث افتخار ہونا چاہیے کیونکہ یہ ان اخبارات کو تاریخی ورثہ کے طورپر اجاگر کرتا ہے۔ ٹرمپ اور اس کے حامی مگر اس ترکیب کو قدیمی اخبارات کے لیے لکیر کا فقیر، ثابت کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں جو دورِ حاضر میں ابلاغ کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتے۔ خبر کو مستند، بنانے کے چکر میں کئی گھنٹے ضائع، کردیتے ہیں۔

ہمارے ہاں بھی اخبارات کے بارے میں نئی نسل کا ویسا ہی رویہ ہے۔ اس رویے کو فروغ دینے میں عمران خان کی بنائی تحریک انصاف نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یہ جماعت اقتدار میں باریاں، لینے والے چوروں اور لٹیروں، سے ملک کو نجات دلانے کے نام پر معروضِ وجود میں آئی تھی۔ اس کی دانست میں اخبارات کے لیے لکھنے والے مجھ جیسے صحافی اقتدار میں باریاں لینے والوں، کے ہاتھ بکے منشیوں، جیسے ہیں۔ ان کی تذلیل کیے بنا وطن میں تبدیلی لانا ممکن نہیں۔

بات مگر ٹرمپ سے شروع ہوئی تھی۔ فی الوقت اس کی شخصیت اور ترجیحات ہی پر مرکوز رہناہوگا۔ اصل موضوع پر ٹکے رہنے کی خاطر یاد دلارہا ہوں کہ برطانیہ سے 1888ء میں پہلی بار شائع ہوا فنانشل ٹائمز، آج بھی روزنامہ کی صورت روزانہ چھپتا ہے۔ اسے پڑھے بغیر آپ برطانیہ ہی نہیں دنیا بھر کی منڈیوں میں حاوی رحجانات کا اندازہ نہیں لگاسکتے۔ اپنی تاریخ کی وجہ سے اگرچہ یہ اخبار ٹرمپ اور اس کے حامیوں کی نگاہ میں Legacyیا لکیر کا فقیر، میڈیا ہی کہلائے گا۔

مذکورہ اخبار کا ایک سینئر کالم نگار ہے۔ نام ہے اس کا رابرٹ آرمسٹرانگ(Robert Armstrong)۔ وہ ٹرمپ کا شدید ناقد ہے۔ وائٹ ہائوس لوٹنے کے تقریباً تین ماہ بعد رواں برس کی یکم اپریل کو امریکا کے دوسری بار منتخب ہوئے صدر نے یومِ آزادی، ٹھہراتے ہوئے اپنے ملک میں چین، بھارت، برازیل اور دیگر بے تحاشا ممالک سے آئی برآمدات پر بھاری ٹیکس عائد کردیے تھے۔ اس کے اعلان کے بعد امریکا ہی نہیں دنیا بھر کے اسٹاک ایکسچینج شدید مندی کے رحجانات کی زد میں آئے۔

رابرٹ آرمسٹرانگ نے مگر نہایت دلیری سے سرمایہ کاروں کو یقین دلایا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ جلد ہی ٹرمپ اپنا فیصلہ واپس لے لے گا۔ نہایت اعتماد سے یہ دعویٰ کرتے ہوئے اس نے ٹرمپ کو Tacoکا نام بھی دیا۔ یہ انگریزی کے ایک فقرے کا مخفف ہے: Trump Always Chickens out ٹرمپ ہمیشہ بکری ہوجاتا ہے، اس فقرے کا سادہ ترجمہ ہوسکتا ہے۔ رابرٹ یہ دعویٰ کرتے ہوئے بالآخر سچا ثابت ہواکیونکہ امریکی منڈی میں ٹیرف والے اعلان سے چھائی مندی سے گھبراکر ٹرمپ نے درآمدات پر عائد ٹیکسوں کے عملی اطلاق میں نوے دنوں کے وقفے کا اعلان کردیا۔

ٹرمپ کے لیے ٹاکو کا لقب میں عرصہ ہوا بھول چکا تھا۔ گزرے ہفتے کی جمعرات کے دن مگر امریکی صدر کی چینی صدر سے ملاقات اور اس کے بعد آئی خبروں کا ٹی وی پر مشاہدہ کرتے ہوئے یہ لفظ بجلی کی طرح میرے ذہن میں چمکنا شروع ہوگیا۔ اپنے پہلے دورِاقتدار ہی سے ٹرمپ ہمارے دیرینہ یار چین کو اپنا اصل ویری ٹھہراتا رہاہے۔ اس کا خیال ہے کہ امریکی صنعت کاروں نے سستی اجرت کا فائدہ اٹھانے کے لیے چین میں 1980ء کی دہائی سے جو سرمایہ کاری شروع کی وہ بالآخر امریکا کے معاشی زوال کا باعث ہوئی۔

دنیا بھر میں جدید ترین ٹیکنالوجی متعارف کروانے کے تناظر میں تقریباً اجارہ دار شمار ہوتا امریکا اب روزمرہ ضرورت کی تمام اشیاء نہیں بلکہ جدید ٹیکنالوجی پر مبنی مشینیں اور کاریں بھی چین سے منگوانا شروع ہوگیا ہے۔ چینی درآمدات پر کامل انحصارنے امریکی معیشت کو جمود کا نشانہ بنانے کے بعد اس ملک میں بے روزگاری کا طوفان برپا کردیا ہے۔ امریکا کو دوبارہ عظیم، بنانے کے لیے لہٰذا ضروری ہے کہ چین سے امریکا آنے والی اشیاء پر بھاری ڈیوٹی عائد کردی جائے۔ اجتماعی طورپر چین سے آئی ہر شے پر 57فیصد ٹیکس لگانے کا اعلان ہوا۔ اس کے علاوہ ایپل جیسی ہائی ٹیک کمپنیوں سے تقاضا یہ بھی شروع ہوا کہ وہ چین میں لگائی فیکٹریوں کو امریکا منتقل کرنے پر توجہ دیں۔

چین سے آئی درآمدات پر بھاری ٹیکس عائد کرنے کے بعد ٹرمپ اپنے ملک ہی میں نہیں دنیا بھر کے سربراہوں کے سامنے بھی اِتراتا رہا۔ جاپان اور جنوبی کوریا جیسے دیرینہ حلیفوں، کو ان کی برآمدات پر عائد ناقابل برداشت ٹیکس میں نرمی لانے کے لیے امریکا میں بھاری سرمایہ کاری کا مطالبہ کرنا شروع ہوگیا۔ امریکا میں سرمایہ کاری کے یہ مطالبے ہر حوالے سے بلیک میلنگ، تھے۔ جاپان اور کوریا ہی نہیں بلکہ یورپ کے جرمنی جیسے حلیف بھی لیکن ٹرمپ کا جی خوش کرنے کو مجبور ہوئے۔ ٹرمپ کو گمان تھاکہ اپنی معیشت کو توانا اور رواں رکھنے کے لیے چین بھی امریکا میں سرمایہ کاری کے وعدے کرتے ہوئے اپنی برآمدات کے لیے رعایتو ں کا طلب گار ہوگا۔ چین نے مگر جھکنے سے انکار کردیا۔

ٹرمپ کی طرح بڑھک بازی کے بجائے انتہائی بردباری سے اس نے اعلان یہ کیا کہ امریکا چین سے نایاب معدنیات حکومت کی اجازت کے بغیر اپنے ہاں درآمد نہیں کرسکے گا۔ چین سے ایسی معدنیات خریدنے والے دیگر ممالک کو بھی تحریری ضمانت دینا ہوگی کہ وہ یہ معدنیات کسی امریکی کمپنی کو نہیں بیچیںگے۔

نایاب معدنیات، ایک پیچیدہ موضوع ہے۔ میں جاہل ان کی تفصیلات بیان کرنے کے قابل نہیں۔ اپنی اور آپ کی آسانی کے لیے محض یہ عرض کررہا ہوں کہ ان کے بغیر موبائل فون بنانا ناممکن ہے۔ لیپ ٹاپ اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے پیچیدہ اہداف حاصل کرتے کمپیوٹر بھی ان معدنیات کے بغیر کسی کام کے نہیں۔ نایاب معدنیات، کی عدم دستیابی کی وجہ سے پٹرول کے بغیر چلائی گاڑیوں کی پیداوار بھی ناممکن ہوجائے گی۔

امریکا کی معیشت، کے بجائے اس کے دفاعی، نظام کے لیے سپر پاور والی طاقت برقرار رکھنے کی خاطر بھی نایاب معدنیات کلیدی کردار ادا کررہی ہیں۔ جدید ترین ڈونز اور میزائل ان کے بغیر بنائے ہی نہیں جاسکتے۔ جنگی جہازوں کو دشمن کے مقابلے میں بالاتر بنانے کے لیے بھی ان معدنیات کا استعمال ضروری ہے۔

یاد رہے کہ اس وقت دنیا بھر میں نایاب معدنیات کا تقریباً 70فیصد حصہ چین کے پاس ہے۔ نایاب معدنیات کو زمین سے نکالنا اپنے تئیں اہم نہیں۔ زمین سے نکال کر ان کے اثر کو صفائی ستھرائی، کے بعد دو چند کرنا بھی ضروری ہے۔ اس تناظر میں دنیا بھر میں ہر حوالے سے مصفا اورمجرب معدنیات، کا 90فیصد (جی ہاں 90فیصد)ان دنوں چین کے پاس ہے۔

نایاب معدنیات پر چین کی کامل اجارہ داری نے لہٰذا ٹرمپ کو بہت کچھ سوچنے کو مجبور کردیا۔ اپنے مخصوص انداز میں چینی صدر کو عظیم، پکارتے ہوئے وہ جمعرات کے روزان سے جنوبی کوریا میں ملا۔ چینی صدر نے اس کے چرب زباں خوشامدی فقروں کے جواب میں کاغذ پر لکھی مختصر تقریر پڑھی۔ کیمروں پر ایک دوسرے کا خیرمقدم کہنے کے بعد دونوں صدور میں جو ملاقات ہوئی وہ دو گھنٹوں تک بھی نہ چلی۔ اس کے اختتام پر ٹرمپ نے چین سے اپنے ملک آئی اشیاء پر عائد ڈیوٹی میں دس فیصد کمی کا اعلان کردیا ہے۔ اس کے علاوہ جو فیصلے ہوئے ان میں بھی چینی صدر ٹرمپ کو کچھ دیتے، نظرنہ آئے۔ تمام رعایتیں، امریکی صدر ہی نے فراہم کی ہیں۔ رابرٹ آرمسٹرانگ سچاثابت ہوا ہے۔ ٹرمپ بالآخر اس کا بیان کردہ Taco(ٹاکو) ہی ثابت ہوا ہے۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali