Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Tehran Ki Pehlu Badalti Kahani

Tehran Ki Pehlu Badalti Kahani

"تہران" کی پہلو بدلتی کہانی

اتوار کی رات نیند نہیں آرہی تھی۔ سرہانے رکھے ناول کو اٹھاکر پڑھنے کو دل مائل نہ ہوا تو ریموٹ اٹھاکر Netflix(نیٹ فلکس) کا بٹن دبادیا۔ اس کے مینوئیل میں نئی شامل ہوئی فلموں میں سے ایک کا عنوان تھا "تہران"۔ پہلی سطر میں دوسرے نمبر پر موجود فلم کے عنوان نے چونکادیا۔ فرض کرلیا کہ امریکہ، ایران یااسرائیل کے کسی فلم ساز نے "تازہ ترین" تہران کو کسی کہانی میں نمایاں کیا ہوگا۔ بے ساختہ بٹن دبادیا۔ فلم کے ابتدائی کریڈٹ شروع ہوئے تو علم ہوا کہ مذکورہ "تہران" کی کہانی کسی بھارتی نے لکھی ہے۔ اس کے ڈائریکٹر اور فلم ساز بھی بھارت ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ دیکھ کر مزید خوش ہوا۔ میری خوشی مگر جلد ہی مایوسی اور بالآخر غصے میں بدل گئی۔

"تہران" ایک ایسے پولیس افسر کی کہانی ہے جو پاکستان اور بھارت میں مقبول ان پولیس والوں جیسا ہے جو خطرناک ملزموں کو پکڑ کر قانون کے حوالے کرنے میں وقت ضائع نہیں کرتے۔ اپنے طورپر ہی جلادبن کر "بدی کا خاتمہ" کرتے ہوئے اپنے جی کو مطمئن اور افسروں کو ناراض کرتے رہتے ہیں۔ یہ کردار ادا کرنے والے اداکار کا نام سن رکھا تھا۔ جان ابراہم کی لیکن یہ پہلی فلم تھی جو مجھے دیکھنا پڑی۔

فلم کے آغاز میں پولیس افسر کا گینگ وار میں ملوث ایک کردار کا کسی بڑے شہر کو دوسرے سے ملانے والی سڑک کے کنارے پر واقع چارپائیوں والے ریستوران پر پولیس اہلکاروں کے روبرو ماردینا مجھے یہ پیغام دیتامحسوس ہوا کہ شاید جس گینگ وار کے کردار سے کہانی شروع ہوئی ہے اس کا مرکزی کردار کسی نہ کسی طرح بھارت سے فرار ہوکر ایران چلا گیا۔ اسے ڈھونڈنے کوشاید "ضدی" پکارے پولیس افسر کو تہران جانا پڑے گا۔ یہ سوچتے ہوئے فلم بدلنا چاہ رہا تھا توسکرین کے ذریعے پتہ چلا کہ مذکورہ پولیس افسر کی ایک بیٹی بھی ہے۔ اس کی سالگرہ کا دن ہے۔ سالگرہ کی تقریب شروع کرنے کے لئے اس کی بیوی مہمانوں کی موجودگی میں بے چینی سے انتظار کررہی ہے۔

دریں اثناء سکرین پر چلائے چند مناظر اور ان کے متعلق ہوئی "وائس اوور (over Voice)سے پتہ چلا کہ فلاں برس کی فلاں تاریخ کو تین مختلف ممالک میں بیک وقت تین اسرائیلی سفارت کاروں کو ان کی گاڑیوں پر بم نصب کرکے مارنے کی کوشش ہوئی۔ ایسی ہی ایک کوشش دلی میں بھی ہوئی تھی۔ اسرائیلی سفارت کار کی گاڑی میں نصب ہوئے بم کی وجہ سے مگر سڑک پر گلاب بیچنے والی ایک بچی بھی جھلس گئی اور یہ بچی اتفاق سے پولیس افسر کی بیٹی کی ہم عمر تھی۔

لکھاری اور ڈائریکٹر نے واضح طور پر نہیں بتایا۔ پولیس افسر کا دفتر اور رویہ مگر یہ پیغام دیتا تھا کہ اس کا تعلق انسداد دہشت گردی یا کسی اورٹاسک کے لئے بنائی "خصوصی فورس" سے ہے۔ اس فورس کا سربراہ اسرائیلی سفارت کار کی گاڑی پر ہوئے حملے کی خبر ملتے ہی یہ طے کرلیتا ہے کہ مذکورہ واقعہ کا ذمہ دار "ہمارا ہمسایہ ملک" یعنی پاکستان ہے۔ پاکستان کے سر اس حملے کی ذمہ داری ڈال کر لہٰذا مزید تفتیش سے جان چھڑالی جائے۔ بہتر یہی ہوگا کہ مبینہ طورپر پاکستان سے آئے حملہ آوروں کا سراغ بھارتی خفیہ ایجنسی را(Raw)ہی لگائے۔

"تہران" فلم کا افسر مگر اصرار کرتا ہے کہ پاکستان اسرائیلی سفارت کار کی گاڑی پر دلی کی سڑک پر ہوئے حملے کا ذمہ دار نہیں۔ اپنی بات کے ثبوت میں وہ اپنے سینئر کو دو پاکستانی تنظیموں کے نام لے کر یاد دلاتا ہے کہ ان کے نشانے پر آیا شخص کبھی بچا نہیں۔ اس کے بعد وہ دلی میں ہوئے حملے کو دیگر ممالک میں اسرائیلی سفارت کاروں پر ہوئے حملے کے ساتھ جوڑتے ہوئے مصر رہتا ہے کہ مذکورہ واقعہ (جو حقیقتاََ فروری 2012ء میں ہوا تھا) درحقیقت بھارت میں"گھس آئے چند "ایرانی ایجنٹوں" کی کارروائی ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی کی ایک خاتون افسراس کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے جان ابراہم کو اصل ملزم کا پتہ چلانے کو اُکساتی ہے۔

فروری 2021ء میں جو واقعہ ہوا تھا اس میں دہلی کی مشہور اورنگزیب روڈ پر اسرائیل کے بھارت میں تعینات ڈیفنس اتاشی کی گاڑی پر حملہ ہوا تھا۔ حملے کے وقت وہ اس گاڑی میں موجود نہ تھا۔ بم دھماکے کی وجہ سے مگر اس کی بیوی ہلاک ہوگئی تھی۔ "تہران" فلم کے لکھاری اور ڈائریکٹر نے اس حقیقت کو فراموش کرتے ہوئے ناظرین کو اس امر پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ "ضدی اور خودسر تہران" کا ہیرو پولیس افسر درحقیقت ایک غریب بچی کی ہلاکت کی وجہ سے گاڑی کو دھماکے سے اڑانے والے شخص کی تلاش کو بے قرار تھا۔ اس کی "رحمدلی" اجاگر کرنے کے لئے اس بچی کے چھوٹے بھائی کو بھی بہت درد ناک حالات میں دکھایا گیا ہے۔

را کی اپنے جیسی "خودسر" خاتون افسر کی ایما پر وہ اس "ایرانی ایجنٹ" کی تلاش کو ڈٹ جاتا ہے جو اس کی دانست میں اسرائیلی سفارت کار کی گاڑی کو بم دھماکے سے اڑانے کا ذمہ دار تھا۔ جدید ترین سائبر آلات اور جیوفینسنگ کے ذریعے ہوئی تحقیق بالآخر اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ جو "ایرانی ایجنٹ" مذکورہ دھماکہ کا ذمہ دار تھا وہ ایران کے کسی سرکاری محکمے کا ملازم نہیں۔ اسے "پاسداران انقلاب"کے ایک افسر نے اس کی بدکرداری، جنسی بے راہ روی اور ہوس زر کا عادی ہونے کی وجہ سے اپنا "ذاتی" ایجنٹ بنایا ہوا تھا۔ اسرائیلی سفارت کار کی گاڑی کو بم نصب کرکے تباہ کرنے کے چند ہی گھنٹے بعد وہ دہلی سے ایران پرواز کرگیا تھا۔

اس کے دلی میں قیام کے دوران ایک بھارتی خاتون اخبار نویس بھی "ایرانی ایجنٹ" کی اسرائیلی ایمبیسی میں تعینات لوگوں کے بارے میں معلومات فراہم کرتی رہی تھی۔ وہ بھی گرفتار کرلی گئی۔ اس کے علاوہ ایک اور آدمی بھی گرفت میں آتا ہے جو اپنے "رکشے" کو ہمیشہ اسرائیلی ایمبیسی کے قریب رکھتے ہوئے وہاں تعینات سفارت کاروں کی نقل وحرکت پر نگاہ رکھتا تھا۔ تحقیق کے اس انجام تک پہنچنے کے بعد بھارتی حکومت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ اسرائیلی سفارت کار کی گاڑی بم سے تباہ کرنے والے کا مزید پیچھا نہ کیا جائے۔ "اسرائیل سے ہمیں جدیدہتھیار لینا ہیں اور ایران سے تیل"۔ ان کے جھگڑے میں لہٰذا بھارت کو مزید گھسنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

بھارتی ریاست کے سینئر ترین افسروں کی جانب ہوئے اس فیصلے کو لیکن "تہران" کا پولیس افسر ماننے سے انکار کردیتا ہے۔ وجہ اس کی نظر بظاہر فقط ایک بچی کی ہلاکت ہے جو سڑک پر گلاب بیچتی تھی اور اس کی بیٹی کی ہم عمر تھی۔ را کی خاتون افسر بھی "وطن سے محبت" کی خاطر خود سر ہوئے پولیس افسر کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ وہ ایران جانے کے لئے آذربائیجان پہنچ جاتا ہے تو اسے فوراََ واپس بھارت آنے کا حکم ملتا ہے۔ اس حکم کو تسلیم کرنے کے بجائے "تہران" کا پولیس افسر متحدہ عرب امارات پہنچ کر "سمندری راستے" سے ایران جانا چاہتا ہے۔ بالآخر نجانے کیسے وہ پاکستانی پاسپورٹ کے ساتھ شلوارقمیض پہن کر بندر عباس بندرگاہ کے ذریعے ایران میں داخل ہوجاتا ہے۔

اس کے بعد ساری فلم میں اسرائیلی سفارت کار کی گاڑی کو بم دھماکے سے تباہ کرنے والے "ایرانی ایجنٹ" اور "تہران" کے پولیس آفیسر کے مابین بلی چوہے کا کھیل ہے۔ اس کا انجام ظاہر ہے "ایرانی ایجنٹ" کی موت پر ہوتا ہے۔ میں نے اس فلم کی کہانی اور اندازِ پیشکش کو ایک لمحے کے لئے بھی پاکستانی مسلمان ہوتے ہوئے نہیں جانچا۔ فلم کے عام قاری کی طرح ہی اسے برداشت کیا ہے۔ یہ فلم دیکھ لینے کے بعد یہ کالم لکھنے سے قبل تھوڑی تحقیق کی تو علم ہوا کہ "تہران" نامی فلم تو 2022ء میں مکمل ہوگئی تھی۔ اسے مگر 14اگست 2025ء میں Zee5 نام کے چینل پر دکھایا گیا جو غالباََ لائیو سٹریم کرتا ہے۔ نیٹ فلکس پر یہ رواں مہینے کی 14ستمبر کو ریلیز ہوئی ہے۔

سوال اٹھتا ہے کہ "تہران" کو دکھانے کی اجازت ملنے میں تین سال کیوں لگے؟ ان دنوں بھارت ایران سے تیل خریدنے کے بجائے روس کی جانب اس حوالے سے دیکھتا ہے۔ ٹرمپ اس کی وجہ سے مودی سے خفا بھی ہے۔ اسرائیل کے ساتھ مگر بھارت کے تعلقات مضبوط تر ہورہے ہیں۔ چند ہی دن قبل دلی میں نیتن یاہو کی طاقتور اتحادی جماعت کا سربراہ بھی موجود تھا۔ "ایرانی ایجنٹوں" کی وحشت "بے نقاب" کرنے کو یہ وقت ہی کیوں چنا گیا ہے؟

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali