شمع جونیجو کی "اصلیت" جاننے کو بے چین ہمارے شاہین صحافی

"صحافت" نام کی شے وطن عزیز میں باقی رہ گئی ہوتی تو میرے نامی گرامی اور ٹی وی چینلوں پر ریٹنگوں کے شیر تصور ہوتے ہوئے ساتھیوں کی اکثریت اس بحث میں وقت ضائع نہ کررہی ہوتی کہ شمع جونیجو نام کی خاتون کون ہیں۔ وہ کس حیثیت میں لندن سے اس جہاز میں بیٹھ گئیں جو وزیر اعظم پاکستان کو ان کے وزراء اور اعلیٰ سطح کے افسران سمیت نیویارک میں منعقد ہونے والی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے لے جارہا تھا۔
بارہا وہ خاتون وضاحت کرچکی ہیں کہ انہوں نے مختلف موضوعات پر پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کررکھی ہیں۔ ان کے علم سے وزیر اعظم شہباز شریف کثرت سے رجوع کرتے ہیں۔ حالیہ پاک-بھارت جنگ کے دوران وہ لندن میں تشریف فرماہوتے ہوئے بھی پاکستانی وزیر اعظم کے لئے "پالیسی ایڈوائسز" بھجواتی رہیں۔ اس امر کی البتہ انہوں نے وضاحت نہیں فرمائی ہے کہ ان کی جانب سے ارسال کردہ "ایڈوائس" ای میل یا واٹس ایپ کے ذریعے وزیر اعظم کو میسر ہوتی رہی یا ان دونوں کے مابین پیغام رسانی کسی "کوڈ" کی بدولت ہوتی جس کو ڈی کوڈ کرنا ہمارے دشمنوں کے لئے ممکن ہی نہ تھا۔۔
"پالیسی ایڈوائس" کی اطلاع دینے کے حوالے سے محترمہ شمع جونیجو صاحبہ نے یہ دعویٰ بھی فرمایا کہ انہیں نیویارک جانے کا "حکم" وزیر اعظم نے دیا تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ نیویارک میں قیام کے دوران وہ اس ٹیم کی معاونت کریں جو جنرل اسمبلی کے لئے شہباز شریف صاحب کی تقریر تیار کررہی تھیں۔ محترمہ کا تعاقب کرتے چند صحافتی شاہینوں نے براہ راست اقوام متحدہ سے رجوع کرتے ہوئے اس سوال کا جواب طلب کیا کہ وہ "کس حیثیت" میں اس وقت ہمارے وزیر دفاع جناب خواجہ آصف کی پچھلی نشست پر بیٹھی تھیں جب موصوف جنرل اسمبلی کے اس سیشن سے خطاب کررہے تھے جو غالباََ مصنوعی ذہانت اور کرپٹو کرنسی کے موضوع پر غور کررہا تھا۔
سچی بات یہ بھی کہ محترمہ شمع جونیجو صاحبہ نے صحافتی شاہینوں کو ازخود اپنے پر حملہ کرنے کو اُکسایا۔ ان کی ایک تصویر Xکہلاتے پلیٹ فارم پر نمایاں ہوئی جس میں وہ اسرائیل کی کسی خاتون سفارت کار یااعلیٰ عہدے دار کے ساتھ تشریف فرما تھیں۔ مذکورہ ملاقات کا مقصد اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو تک رسائی حاصل کرنا تھا۔ مقصد اس رسائی کا ایک تھیسس لکھنا تھا جو غالباََ ڈیجیٹل سفارت کاری کے بارے میں شمع جونیجو صاحبہ لکھنا چاہ رہی ہیں۔
شمع جونیجو صاحبہ کی اسرائیلی سفارت کار یا افسر کے ساتھ تصویر Xپر نمایاں ہوئی تو سوشل میڈیا پر تھرتھلی مچ گئی۔ اس تھرتھلی کا فوری نشانہ خواجہ آصف تھے جنہیں کٹہرے میں کھینچ کر یہ جاننے کی کوشش ہوئی کہ نظر بظاہر برطانیہ میں مقیم ایک پاکستانی اسرائیل کے ساتھ روابط کے برملا اعتراف کے باوجود ان کی تقریر کے دوران جنرل اسمبلی میں کیوں موجود تھیں۔ خواجہ آصف صاحب کے ساتھی کئی دہائیاں قبل1990ء سے 1993ء کے درمیان قائم رہی اسمبلی کے دوران بے تکلفانہ مراسم استوار ہوئے تھے۔ بتدریج مگر موصو ف نے دریافت کرلیا کہ "دوٹکے کے رپورٹروں" کو ان کی اوقات میں رکھنا چاہیے۔ ان کا رویہ وزیروں والا ہوگیا اور میں اپنے لاہور کے شاہ حسین کی طرح "بھنبھناہٹ" سے آزادی پانے کی وجہ سے مطمئن رہا۔ موصوف خوش گوار گفتگو کے عادی ہیں۔ گزشتہ چند دنوں سے مگر ہر شے سے اُکتائے محسوس ہورہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ان کی مبینہ طورپر "پرواسرائیل" پاکستانی خاتون کے ہمراہ تصویر وائرل ہوئی تو موصوف نے ایک لمبے چوڑے پیغام کے ذریعے Xپر واضح کردیا کہ وہ مذکورہ خاتون سے قطعی ناواقف ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی تک رسائی پاکستان کی وزارت خارجہ کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہے۔ وہ اس ضمن میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتے۔ جو بات انہوں نے کہی وہ سو فیصد درست ہے۔ میں نے 1986ء سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے بے شمار اجلاسوں کو کور کیا ہے۔ اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ لندن میں نیویارک کے لئے پرواز لیتے ہی ان کا نام پاکستان کے ان مندوبین میں شامل کردیا گیا ہوگا جو 80ویں جنرل اسمبلی میں وطن عزیز کی نمائندگی کریں گے۔ آپ کا نام اس فہرست میں شامل ہوجائے تو آپ کو ایک شناختی کارڈ ملتا ہے جو آپ کو جنرل اسمبلی میں ہمہ وقت داخلے کا حقدار بناتا ہے۔
اصولی طورپر ایسی فہرست وزارت خارجہ کی جانب سے فراہم ہوتی ہے۔ وزیر اعظم کا کوئی تگڑا معاون مگر وزارت خارجہ کو اس میں اضافی نام ڈالنے کا حکم دے سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ اس کے لئے وزیر خارجہ یا سیکرٹری خارجہ سے اجازت لی جائے۔ بہرحال خواجہ صاحب پر تنقید کے گولے برسے تو موصو ف نے اپنے دورِ جوانی سے فلسطین کے ساتھ اپنی محبت یاد دلائی۔ ان پیغامات کا حوالہ بھی دیا جو غزہ پر فضائی بمباری شروع ہونے کے بعد سے وہ روزانہ کی بنیاد پر اپنے احتجاجی جذبات کے اظہار کے لئے لکھ رہے ہیں۔ وزارتِ خارجہ نے مگر محترمہ شمع جونیجو صاحبہ سے لاتعلقی کا اظہار کردیا۔ وزیر اعظم صاحب عقل مند ہیں۔ اس فروعی بحث میں الجھے ہی نہیں۔ صحافی شاہین مگر شمع جونیجو صاحبہ کی "اصلیت" جاننے کو بے چین ہیں۔
محترمہ شمع جونیجو صاحبہ پر جو توجہ مبذول رہی اس کی وجہ سے ہم ابھی تک یہ جان ہی نہیں پائے کہ پاکستان کے وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل نے امریکی صدر ٹرمپ کو کیا "گیدڑسنگی" سُنگھائی ہے کہ اس جیسا مغرور شخص کیمروں کے روبرو ان دونوں کو "عظیم رہ نما" پکارتے ہوئے اعتراف کرتا ہے کہ وہ ان کا انتظار کررہا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل صاحب کے ساتھ ملاقات ہوئی تو اس کے شروع ہونے یا اختتام کے بعد میڈیا کے سوالات بھی نہیں لئے گئے۔ ایسا ہی رویہ رواں برس کے جون میں اپنایا گیا جب آرمی چیف عاصم منیر صاحب کوامریکی صدر نے دوپہر کے کھانے پر بلایا تھا۔
جون 2025ء سے پاک امریکی تعلقات نے جو رخ لیا ہے وہ 1953ء کی یاد دلارہا ہے۔ اس برس سے شروع ہوئے رشتے سیٹوسینٹو فوجی اتحاد پر منتج ہوں گے۔ 1965ء کی پاک-بھارت جنگ نے ہمارے ہاں امریکہ کی سردمہری کو بے نقاب کیا۔ اس کے باوجود 1971ء میں ہم مشرقی پاکستان کے تحفظ کے لئے امریکی بحری بیڑے کا انتظار کرتے رہے۔ مذکورہ انتظار کے باوجود جنرل ضیاء کی قیادت میں امریکی مدد سے سوویت یونین کو پاش پاش کرنے کے لئے "افغان جہاد" میں بھرپور حصہ لیا۔ افغانستان کے ساتھ دوسرا سیزن نائن الیون کے بعدبھی کئی برس تک چلا۔
"صحافی" کا فرض ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں آئے نئے رخ پر نگاہ رکھتے ہوئے جاننے کی کوشش کرے کہ وہ کونسے اہم پہلو ہیں جو ممکنہ تعلقات کو 1950،1980اور 2000ء کی دہائی سے مختلف بناسکتے ہیں۔ ان سوالات کے جواب کے حصول کے لئے "فیصلہ ساز" حلقوں تک رسائی لازمی ہے اور ان حلقوں نے طے کرلیا ہے کہ ہمارے صحافی بنیادی طورپر چسکہ فروش منشی ہیں۔ منہ لگانے کے قابل نہیں۔ اپنی خفت مٹانے کو لہٰذا ہم محترمہ شمع جونیجو کی صورت میں ایک "غدار وطن" ابھارنے کی کوششوں میں مصروف ہوچکے ہیں۔

