سینٹ میں دونمبری کی توانا علامت
گزرے جمعہ کے روز سینیٹ کی کارروائی دیکھنے کے بعد سے مسلسل پریشان ہوں۔ خود سے انتہائی شرمندہ بھی محسوس کررہا ہوں۔ عمر کی تین سے زائد دہائیاں کامل جستجو سے پریس گیلری میں بیٹھ کر پارلیمان کی کارروائی دیکھنے میں صرف کردیں۔ 35برس کے طویل سفر میں بہت تماشے دیکھے۔ بطور صحافی مگر آپ کو بتاہی نہ پایا کہ عوام کی نمائندگی کے نام پر قائم پارلیمان کہلاتا یہ کارخانہ درحقیقت دونمبری دھندے کی بھرپور علامت ہے۔ ہمیں اس گماں میں مبتلا رکھتا ہے کہ ہم جابر یا شفیق سلطانوں کی رعایا نہیں۔ ایک جمہوری ملک کے شہری ہیں۔ ہمارے محض فرائض ہی نہیں چند حقوق بھی ہیں اور ان حقوق کی پاسداری کو یقینی بنانا میرے اور آپ کے ووٹوں سے منتخب ہوئی پارلیمان کی ذمہ داری ہے۔
عمر کے آخری حصے میں داخل ہوا تو جولائی 2018کے انتخاب کے ذریعے ایک نئی پارلیمان وجود میں آگئی۔ وہاں موجود افراد کے کرتب دیکھتے ہوئے بتدریج دریافت کیے جارہا ہوں کہ ہمارے معزز اراکین پارلیمان حقیقتاََ انسانوں کا روپ دھارے کٹھ پتلیاں ہیں۔ ان کی ڈور کوئی اور ہلاتا ہے یہ ڈور ہلے تو حکومتی بنچوں پر بیٹھے افراد حاکموں کے تیار کردہ قوانین پر سرجھکائے انگوٹھے لگادیتے ہیں۔ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے اراکین کو البتہ مزاحمت کا ڈرامہ رچانے والا کردار ملا ہے۔ وہ اس کردار کو اگرچہ بُرے اداکاروں کی طرح ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجھ جیسے سادہ لوح صحافیوں سے اس کے باوجود امید یہ باندھی جاتی ہے کہ ہم ان کی سینہ کوبی کو تاریخی ٹھہراتے ہوئے مداح سرائی میں مصروف رہیں۔
خود کی ملامت کرتے ہوئے احساس یہ بھی ہورہا ہے کہ موجودہ پارلیمان کی دونمبری تو میرے لئے آج سے دو برس قبل ہی عیاں ہوجانا چاہیے تھی۔ سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف بہت دھوم دھام سے تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تھی۔ اپوزیشن جماعتوں کے 64اراکین سینہ پھلاکر میری آنکھوں کے سامنے اس کی حمایت میں کھڑے ہوئے۔ 100 اراکین پر مشتمل ایوان میں یہ بھاری بھر کم اکثریت تھی۔ چند ہی لمحوں بعد تاہم خفیہ رائے شماری ہوئی تو ان میں سے 16کے قریب اراکین نے صادق سنجرانی کی حمایت میں ووٹ ڈال دیا۔ اپوزیشن قائدین بالآخر برآمد ہوئے نتیجہ سے ہکا بکا رہ گئے۔ اس عہد کا اظہار کرتے رہے کہ وہ اپنی صفوں میں موجود غداروں کی نشاندہی کریں گے۔
اپوزیشن قائدین کے علاوہ پاتال میں چھپی خبر بھی دریافت کرلینے والے کئی جید صحافیوں نے بھی مناسب لگن سے یہ معلوم کرنے کی کوشش ہی نہیں کہ وہ کون لوگ تھے جو آخری وقت میں اپنی جماعتوں کو دغا دینے کومجبور ہوئے۔ ان کی کونسی کمزوریوں نے انہیں بے وقار کٹھ پتلی بنارکھا ہے۔
آئین کی کتاب پڑھیں تو ایوان بالآخر یعنی سینیٹ ہمارا ایک بہت ہی باوقار ادارہ ہے۔ ہمارے تمام صوبوں کو اس میں برابر کی نمائندگی میسر ہے جو اس امر کو یقینی بناتی ہے کہ کسی چھوٹے صوبے کے ساتھ زیادتی نہ ہو۔ چھوٹے صوبوں کی احساس محرومی کا ذکر ہو تو بلوچستان اس تناظر میں سب سے زیادہ محروم نظر آتا ہے۔ اس صوبے سے لیکن بلوچستان عوامی پارٹی کے نام سے ایک جماعت نمودار ہوچکی ہے۔ مختصراََ اسے"باپ" بھی پکارا جاتا ہے۔ اس "باپ" سے متعلقہ اراکین ہی سینیٹ کو بے وقار بنانے میں مگر پیش پیش رہتے ہیں۔
صادق سنجرانی صاحب کا تعلق بھی اسی جماعت سے ہے۔ حکومت کے لئے آسانیاں فراہم کرنے کے لئے مگر وہ عمران خان صاحب کے جنونی مداحین سے بھی زیادہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سینیٹ میں موجود اپوزیشن اراکین کو کمال ہوشیاری سے انگلیوں پر نچاتے ہیں۔ بے بس ہوئے ان اراکین کو مگر شرمندگی کا احساس تک نہیں ہوتا۔ نہایت لگن سے سینیٹ اجلاسوں میں شریک ہوتے ہیں اور ہمیں یہ گماں دلانے میں مصروف کہ وطن عزیز میں نہایت وقار اور سنجیدگی سے قانون سازی ہورہی ہے۔ عوامی دُکھوں کا علاج ڈھونڈا جارہا ہے۔
اس برس کے مارچ میں سینیٹ کی آدھی نشستوں پر نئے انتخاب ہوئے تھے۔ ہر جماعت نے اس کے دوران اپنے جثے کے مطابق حصہ وصول کیا۔ پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں میں اس حوالے سے بہت مارا ماری ہوتی نظرآئی۔ آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے میں لیکن حیران کن مک مکا ہوگیا۔ مسلم لیگ (نون) کے پرویز رشید نااہل ہوگئے تو اس کے بعد اسی جماعت کے بقیہ نامزد کردہ اراکین بلامقابلہ منتخب ہوگئے۔"ووٹ کو عزت دو" کا سیاپاکُٹنے والی جماعت اسی تنخواہ پر کام کرنے کو دل وجان سے آمادہ نظر آئی۔ اس آمادگی کے باوجود مگر دعوے دار ہے کہ شہرِجاناں میں ان دنوں اس سے زیادہ باصفا کوئی نہیں۔"دستِ قاتل" فقط اسی پر ستم ڈھاتا ہے۔
طویل عرصے کی گوشہ نشینی کے بعد اسی برس کے مارچ میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی دھماکے کی طرح ڈاکٹر حفیظ شیخ کو قومی اسمبلی سے سینیٹ کا رکن بنانے کی راہ میں ڈٹ کر کھڑے ہوگئے۔ ان کی کامیابی نے حکومت کو حواس باختہ بنادیا۔ فاخرانہ سرگوشیوں کے ساتھ اپوزیشن والے ہمیں بتانا شروع ہوگئے کہ "ابھی تو پارٹی?"۔ چند ہی روز بعد مگرعمران خان صاحب نے قومی اسمبلی سے ازسرنواعتماد کا ووٹ لے کر اپنی اکثریت ثابت کردی۔ اس کے بعد صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ کی نشست پر براجمان رکھنے کو ڈٹ گئے۔ اپوزیشن انہیں روکنے کے لئے متحدہ حکمت عملی تیار نہ کرپائی۔
چیئرمین انتخاب کے روز ڈاکٹر مصدق ملک اور مصطفیٰ نواز کھوکھر نے ایوا ن میں خفیہ کیمرے نصب ہونے کی نشان دہی کی تھی۔ مجھ جیسے بے وقوف صحافیوں کو خفیہ کیمروں کی برآمدگی واٹر گیٹ جیسا سکینڈل نظر آئی جس نے بالآخر نکسن جیسے طاقت ور صدر کو استعفیٰ دینے کو مجبور کردیا تھا۔ گیلانی صاحب مگر اس سکینڈل کو فوراََ بھول کر خود کو سینیٹ میں قائد حزب اختلاف بنوانے کی مہم میں مصروف ہوگئے۔
ان کے انتخاب کو یقینی بنانے کے لئے حکومتی صفحوں سے چھ سینیٹروں نے اعلان کیاکہ وہ اب اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنا چاہتے ہیں اور گیلانی صاحب ان کے قائد ہوں گے۔ اس گروپ کے قائد دلاور خان تھے۔ موصوف ایک کاروباری آدمی ہیں۔ یہ شناخت انہیں نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کے قریب لائی۔ وہ اس کی بدولت سینیٹر منتخب ہوگئے تو عمران حکومت آگئی۔ خان صاحب ایف بی آر کو ہمیشہ خوش رکھنا چاہتے ہیں۔ جی حضوری میں لہٰذا مصروف ہوگئے۔
اس کے باوجود سینیٹ میں اپوزیشن کی پہلی نشستوں پر رضا ربانی اور محترمہ شیری رحمن صاحبہ جیسے بااصول تصور ہوتے سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔ بدھ کے روز انہوں نے اپنے گروپ سمیت عمران حکومت کا مگر 33قوانین پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے یکمشت منظور کروانے میں ڈٹ کر ساتھ دیا۔ جمعہ کے دن بھی کامل ڈھٹائی سے حکومت کو ایوان بالا سے اپنی پسند کے قوانین منظور کروانے میں کمک فراہم کرتے رہے۔
بنیادی سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا یہ سب ہوجانے کے بعد یوسف رضا گیلانی چیئرمین سینیٹ کو باقاعدہ چٹھی لکھ کر درخواست کریں گے کہ دلاور خان اور ان کے گروپ کو اپوزیشن کا حصہ تصور نہ کیا جائے اور وہ حکومتی بنچوں پر واپس بھیج دئیے جائیں۔ مجھے خدشہ ہے کہ قائد حزب اختلاف کا منصب گیلانی صاحب کو نام نہاد کتابی اصولوں سے زیادہ عزیز ہے۔ وہ اس تردد میں الجھنا نہیں چاہیں گے۔ دورِ حاضر کی دونمبری سیاست کی تواناترین علامت لہٰذا دلاور خان اور ان کا گروپ ہی ثابت ہوں گے اور میں بدنصیب بھی پارلیمانی جمہوریت کے گن گاتا رہوں گا۔