Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Selab Se To Bharti Punjab Bhi Dooba Hai

Selab Se To Bharti Punjab Bhi Dooba Hai

سیلاب سے تو بھارتی پنجاب بھی ڈوبا ہے

پاکستانی پنجاب میں سیلاب نے جو قیامت برپا کررکھی ہے اس کے دور رس اثرات کے بارے میں ریگولر اور سوشل میڈیا سوچ بچار سے کترارہے ہیں۔ مشکل کی اس گھڑی میں قحط سالی کے امکانات پر غور کے بجائے ہم یہ طے کرنے میں مصروف ہوگئے کہ عمران خان کی ہمشیرہ محترمہ علیمہ خان پر اڈیالہ جیل کے باہر انڈا کس نے اچھالاتھا۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی سے وابستہ ایک اور خاتون بھی اسی جماعت کے فدائین میں سے ابھرے افراد کے طعنوں کی زد میں ہیں۔

ہمارے ہاں سیلاب کی تمام تر ذمہ داری بھارت کے سر ڈال دی گئی۔ رواں برس کے اپریل میں مقبوضہ کشمیر کے ایک سیاحتی مقام پر دہشت گرد حملے کے بعد بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ مذکورہ اعلان کے بعد ہمارے ہاں آتے دریائوں پر بنے ڈیموں کے پانی کو ذخیرہ کرنے کی کوششیں بھی ہوئیں۔ چناب مگر قابو میں نہ آسکا تو بھارتی حکومت نے ہاتھ کھڑے کردئے۔ چناب کا پانی سندھ طاس معاہدے کی وجہ سے پاکستان کا تھا۔ راوی اور ستلج مگر جہلم اور چناب کے بدلے ہم نے بھارت کے سپرد کردئے تھے۔

بھارت "اپنے حصے" کے دریائوں کا پانی روکنے میں بھی لیکن ناکام رہا۔ ہماچل پردیش میں ریکارڈ توڑ بارشوں کی وجہ سے یہ دریا بپھرے تو بھارت کے بنائے ڈیم اس کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے قابل نہ رہے۔ دریائی پانی نے لہٰذا فطری یادداشت کی بدولت ہمارے قصور کا رخ کرنے کے بعد بہاولپور کے مختلف اضلاع تک پھیلتے ہوئے بے تحاشہ دیہات اور کٹنے کو تقریباََ تیار ہوئی چاول، گنا اور کپاس کی فصلوں کو دریابرد کردیا۔ بھارت کی "آبی جارحیت" کا ذکر کرتے ہوئے ہم اس گماں میں مبتلا رہے کہ بھارتی پنجاب سیلاب کی تباہی سے محفوظ رہا ہے۔ ہمارا یہ خیال مگر اب غلط ثابت ہورہا ہے۔

راوی اور ستلج کے پانیوں نے بھارتی پنجاب کے 1500سے زیادہ دیہات اور 3لاکھ گھرانوں کی زندگی کو اجیرن بنادیا ہے۔ اس کی وجہ سے جو مالی اور جانی نقصان ہو اس کا کسی نہ کسی صورت ازالہ ہوسکتا ہے۔ بھارت میں سیلاب کی وجہ سے نازل ہوئی تباہی نے البتہ سکھ کمیونٹی کے ذہنوں میں جو سوالات بٹھائے ہیں ان کے تسلی بخش جواب مودی حکومت فراہم نہ کرپائی تو بھارتی پنجاب ایک بار پھر ویسی ہی ابتری اور خلفشار سے دوچار ہوسکتا ہے جس کا سامنا اسے 1980ء کی دہائی میں کرنا پڑا تھا۔

یادرہے کہ اس دہائی کے آغاز میں سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کی قیادت میں سکھ انتہا پسندی کو فروغ ملا۔ اپنے نوجوان حامیوں کے جتھوں کی پشت پناہی کے سبب وہ بالآخر امرتسر کے گولڈن ٹمپل منتقل ہوکر وہیں براجمان ہوا بھارتی ریاست کی رٹ کو للکارتا رہا۔ بالآخر اندراگاندھی کی حکومت بھارتی فوج کو سکھوں کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک کے اندر داخل کرنے کو مجبور ہوئی۔ بھنڈرانوالہ کئی ساتھیوں سمیت قتل ہوگیا۔ گولڈن ٹمپل کی "بے حرمتی" نے مگر سکھ نوجوانوں کو کئی برسوں تک مسلسل اشتعال دلائے رکھا۔

اندراگاندھی اسی وجہ سے اپنے ہی دوسکھ باڈی گارڈز کے ہاتھوں قتل ہوئیں۔ ان کے قتل نے دہلی کی ہندوآبادی کی کثیر تعداد کو اشتعال دلایا۔ قیام پاکستان کے بعد ہمارے پنجاب سے بے شمار سکھ گھرانے نقل مکانی کے بعد دلی کے مکین ہوگئے تھے۔ ان کی معقول تعداد بھارت کی اشرافیہ میں شمار ہوتی تھی۔ انہیں مگر چن چن کر قتل کرنے کی لامتناہی وارداتیں ہوئیں۔ میری بدقسمتی کہ اندراگاندھی کے قتل کے تقریباََ ایک ہفتے بعد میں زندگی میں پہلی بار بھارت گیا تھا۔ وہاں ایسے کئی سکھوں سے ملاقات ہوئی جنہوں نے خوف سے اپنے سراور داڑھی کے بال منڈوا دئیے تھے۔ ان سے گفتگو کرتے ہوئے مجھے منٹو کے لکھے کئی افسانے یاد آجاتے۔ دل گھبراجاتا۔ ہندو اور سکھوں کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے میں تقریباََ دو دہائیاں صرف ہوئیں۔

مزید بڑھنے سے قبل واضح کردینا چاہتا ہوں کہ بھارتی پنجاب میں ایک اور شورش کے خدشے کا اظہار پاکستانی صحافی نصرت جاوید نہیں کررہا۔ اپنے ہم وطنوں کی اکثریت کی طرح اتوار کی دوپہر تک میں بھی اس گماں میں مبتلا تھا کہ بھارت نے راوی اور ستلج کا پانی پاکستان کی جانب موڑ کر اپنے علاقوں کو بچالیا ہے۔ میری غلط فہمی کو ایک نامور بھارتی صحافی شیکھر گپتانے دور کیا ہے۔ موصوفCut the Clutterکے عنوان سے ایک یوٹیوب چینل چلاتے ہیں۔ شیکھر جب پنجاب کی بات کرے تو اسے سنجیدگی سے لینا ضروری ہے کیونکہ اپنی صحافت کے ابتدائی دنوں میں وہ بھارتی پنجاب میں پھیلی خلفشار اور ابتری کے بارے میں کئی برسوں تک رپورٹنگ کرتا رہا ہے۔ بھارتی پنجاب پر نازل ہوئے عذاب کی وجہ سے اٹھے سوالات کا ذکر اس نے یوٹیوب کے علاوہ اخباروں کے لئے لکھے کالم میں بھی کیا ہے۔

شیکھر گپتا نے گفتگو کا آغاز اس پیغام سے کیا جو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جاپان اور چین کے دورے سے واپس آتے ہی افغان حکومت کے لئے ایکس پر لکھا تھا جس کے ذریعے اس ملک میں آئے زلزلے پر افسوس اور ہمدردی کا اظہار کیا۔ مودی کا پیغام نمودار ہوتے ہی ایک معروف سکھ رہنما گیانی ہرپریت سنگھ نے بقول شیکھر گپتا زندگی میں پہلی بار انگریزی میں ایکس پر ایک پیغام لکھا(وہ عموماََ ایسے پیغامات گورمکھی میں لکھتے ہیں)۔ ہرپریت سنگھ نے مودی جی کو یاد دلایا کہ پنجاب افغانستان کی نسبت دلی کے زیادہ قریب ہے۔ وہ بھارت کا ایک صوبہ بھی ہے۔ کاش بھارت کے وزیر اعظم کو اپنے ہاں کے پنجاب میں سیلاب کی وجہ سے مچی تباہی کا بھی اتنا ہی درد محسوس ہوتا جو وہ افغانستان میں آئے زلزلے کی بابت محسوس کررہے ہیں۔ یہ پیغام لکھنے کے دوسرے دن موصوف نے نریندر مودی کے نام ایکس ہی پر تین صفحوں پر مشتمل ایک خط بھی لکھ دیا جس میں بھارتی وزیر اعظم کو مشرقی پنجاب میں سیلاب کی وجہ سے آئی تباہی کی تفصیلات سے آگاہ کیا ہے۔

گیانی ہرپریت سنگھ "اصلی" اکالی دل جماعت کا قائد ہونے کا دعوے دار ہے۔ نسبتاًنوجوان اور متحرک ہونے کی وجہ سے وہ بادل سنگھ کی قدیم اور روایتی اکالی دل کو تقریباََ تاریخ کا حصہ بنارہا ہے۔ اس کے مقابلے میں امرت پال سنگھ کی قیادت میں"وارث پنجاب دے" کے نام سے ایک اور جماعت بھی بہت مقبول ہورہی ہے۔ شیکھر گپتا اشاروں کنایوں میں یہ دعویٰ کرتا بھی سنائی دیا کہ مذکورہ بالا افراد کو پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی پشت پناہی بھی میسر ہے۔

مذکورہ بالاجماعتوں اور رہ نمائوں کو پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں سپورٹ نہ بھی کریں تو برطانیہ اور کینیڈا میں آباد سکھ انتہاپسند ان دونوں کے پیغام کو سوشل میڈیا کے پلیٹ فارموں کے ذریعے تیزی سے پھیلارہے ہیں۔ ایسے پلیٹ فارموں کا ذکر کرتے ہوئے شیکھر گپتا نے یہ اطلاع بھی دی کہ سوشل میڈیا پر مقبول سکھ یوٹیوبر ہمارے قصور کے آفاقی شاعر "بلھے شاہ" کا تواتر سے ذکر کرتے ہیں۔ شیکھر کے بقول بلھے شاہ ان کی دانست میں مسلم سکھ یکجہتی کے پرچارک تھے کیونکہ اسلام اور سکھ مت کو ماننے والے ربّ کی وحدانیت پر ایمان رکھتے ہیں۔ "خدائی" کو مختلف دیوتائوں میں نہیں بانٹتے۔

شیکھر گپتا مصر رہا کہ اگر مودی حکومت نے حالیہ سیلاب کی وجہ سے بھارتی پنجاب میں آئی تباہی پر توجہ نہ دی تو مبینہ طورپر پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں اس صوبے میں خلفشار کو ایک بار پھر بھڑکاسکتے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے موصوف کو اگرچہ اعتراف کرنا پڑا کہ سکھ تاریخی اعتبار سے ہمیشہ دلی کے خلاف رہے ہیں۔ شیکھر نے درست کہاہے۔ سکھ مت بنیادی طورپر پنجاب کے کسانوں کی تحریک تھی جو مذہبی تفریق سے بالاتر ہوکر دلی دربار کے عائد کردہ ٹیکس ادا کرنے سے اکتاچکی تھی۔ دلی میں بیٹھے مغل حکمرانوں سے نفرت نے بتدریج انہیں مسلم دشمن بھی بنادیا جس کا خوفناک اظہار قیام پاکستان کے دوران ہوئے فسادات میں کھل کر سامنے آیا۔

شیکھر گپتا نے جو کہا اور لکھا اس کے بارے میں سو اعتراض اٹھائے جاسکتے ہیں۔ ایک بات مگر طے ہے اور وہ یہ کہ بھارتی پنجاب کے سیاسی رحجانات سے بخوبی واقف یہ صحافی وہاں سیلاب کی وجہ سے دہلی کے خلاف ابھرے جذبات کو واضح الفاظ میں رپورٹ کررہا ہے۔ ہم مگر ان رحجانات سے قطعاََ بے خبر ہیں۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam