پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ضمنی انتخابات

اتوار کی صبح اٹھتے ہی یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ میری نظر میں یہ اتوار سیاسی اعتبار سے اہم تھا کیونکہ اس روز پنجاب اور خیبرپختونخوا سے قومی اسمبلی کی 6 اور صوبائی اسمبلی کی 7 نشستوں پر ضمنی انتخاب ہونا ہیں۔ قومی اسمبلی کے جو حلقے خالی ہوئے ہیں ان میں سے ایک فطری وجہ یعنی میاں اظہر صاحب کی وفات سے لاہور میں خالی ہوا۔ بقیہ حلقے یوں کہہ لیں کہ خالی ہوئے نہیں بلکہ خالی کروائے گئے ہیں۔
2024ء کے انتخاب میں ان نشستوں سے تحریک انصاف کے نامزد کردہ امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ پاکستان کے پہلے فوجی آمر ایوب خان کے پوتے عمر ایوب خان ان میں سرفہرست ہیں۔ منتخب ہونے کے بعد وہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی تسلیم ہوئے۔ ان پر تاہم ملک کے مختلف شہروں میں 9مئی کے روز لوگوں کو ہنگامہ آرائی اور فوجی تنصیبات پر حملوں کے لیے اکسانے کے الزامات لگے۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے مذکورہ الزامات کو درست مانتے ہوئے انھیں طویل سزائیں سنادیں۔ سنائی گئی سزا کی طوالت اور سنگینی ان کی نااہلی کا سبب ہوئی۔
عمر ایوب خان کے علاوہ 9 مئی کے واقعات ہی کی وجہ سے نااہل ہوا ایک بڑا نام محترمہ زرتاج گل کا بھی ہے۔ وہ ہمارے سیاسی اعتبار سے نسبتاً پسماندہ، شمار ہوتے ڈی جی خان سے قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئی تھیں۔ وزیرستان سے ڈی جی خان میں آباد ہوئی محترمہ زرتاج کا انتخاب کئی اعتبار سے حیران کن تھا۔ قیام پاکستان سے ڈی جی خان لغاری اور کھوسہ سرداروں کی راجدھانی، سمجھا جاتا ہے۔ ان دونوں خاندانوں کے اجارے کا زرتاج گل کے ہاتھوں خاتمہ تحریک انصاف کے مخالفین کے لیے بھی ایک خوش گوار تبدیلی کی صورت نمودار ہوا۔
اتوار کے روز ہونے والے انتخاب سے قبل میں نے گزشتہ ہفتے کی جمعرات ایک کالم لکھا تھا۔ اسے لکھتے ہوئے بنیادی طورپر اس حوالے سے فکر مندی کا اظہار کیا کہ میرے آبائی شہر لاہور کے تقریباً قلب میں واقع میاں اظہر مرحوم کی رحلت کی وجہ سے خالی ہوئے حلقے میں انتخابی مہم کی رونق نظر نہیں آرہی۔ رونق کی عدم موجودگی کے بارے میں اداسی کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کی تاریخ سے چند ضمنی انتخابات یاد کیے جنھوں نے نظر بظاہر جامد ہوئے سیاسی منظر نامے میں ہلچل مچادی تھی۔
اس کے علاوہ میں یہ سمجھنے سے بھی قاصر رہا کہ ایک طرف تحریک انصاف قومی اسمبلی کی زبردستی، خالی کروائے قومی اسمبلی کے حلقوں میں ہوئے ضمنی ا نتخاب کا بائیکاٹ کررہی ہے۔ اس بائیکاٹ کی وجہ سے حامد ناصر چٹھہ کے فرزند انتخابی دنگل سے باہر ہیں۔ بائیکاٹ کا یہ اصول محترمہ زرتاج گل پر بھی نافذ ہوا۔ حالانکہ ان دونوں حلقوں سے کسی بھی شخص کو نامزد کرتے ہوئے تحریک انصاف یہ پیغام اجاگر کرسکتی تھی کہ اس کا ووٹ بینک، تمام تر مشکلات کے باوجود آج بھی قائم ودائم ہے۔
حامد ناصر چٹھہ کے فرزند اور محترمہ زرتاج گل کے خالی ہوئے حلقوں میں اپنائی حکمت عملی کے برعکس ایوب خان کے پوتے عمر ایوب خان اپنا حلقہ، کسی اور کے حوالے کرنے کو آمادہ نہ ہوئے۔ انھوں نے اپنی اہلیہ کو خالی ہوئی یا خالی کروائی نشست پر کھڑا کردیا ہے۔ ذاتی طورپر ان کا ڈٹے رہنا مجھے اس لیے بھی اچھا لگا کیونکہ پاکستان کے جمہوری نظام کو سب سے کاری ضرب عمر ایوب خان کے دادا ایوب خان کے لگائے مارشل لاء نے 1958ء میں لگائی تھی۔ ان کے متعارف کردہ غیر جمہوری سانچے اور ڈھانچے آج کے پاکستان میں بھی پوری قوت سے موجود ہیں۔ ان سانچوں، ڈھانچوں اور روایتوں کو للکارنے کے لیے ان کے اپنے پوتے میدان میں آئے ہیں۔ حکمرانی نہیں بلکہ بغاوت، اس حوالے سے موروثی، ہورہی ہے۔ جھکی اذہان اگرچہ اصرار کررہے ہیں کہ عمر ایوب خان کے لیے تحریک انصاف نے پنجاب میں خالی ہوئی نشستوں پر انتخابی عمل کے بائیکاٹ کا اصولی فیصلہ، اس لیے بھلادیا کیونکہ وہاں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت ہے۔
خواہ مخواہ کی بحث کو آج جی نہیں چاہ رہا۔ دل پہ کئی دنوں سے اداسی چھائی ہوئی ہے اور نہایت سنجیدگی سے اپنے ذہن میں امڈے سوالات کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کررہا ہوں۔ گزرے ہفتے کی جمعرات کے دن لکھا کالم جمعہ کی صبح چھپ کر سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوا تو تحریک انصاف کے عاشقان نے نہایت درشت الفاظ میں میرے لتے لیے۔ لڑاکو عورتوں کی طرح سینہ پھلاکر مجھے یاد دلایاکہ فروری 2024ء کے دن پاکستان کے عوام کثیر تعداد میں ووٹ ڈالنے گھروں سے باہر آئے تھے۔
تحریک انصاف سے اس کا انتخابی نشان چھین لیا گیا تھا۔ اس کے باوجود انھوں نے بیلٹ پیپر پر نہایت توجہ سے غور کرتے ہوئے تحریک انصاف کے نامزد کردہ ا میدوار کا نشان ڈھونڈ لیا اور اس پر مہر لگاکر گھرلوٹ آئے۔ 24فروری کی رات انتخابی نتائج کااعلان ہوا تو انھیں محسوس ہوا کہ تحریک انصاف کی محبت میں جو دیوانگی دکھائی گئی تھی وہ کسی کام نہیں آئی۔ تحریک انصاف واحد اکثریتی جماعت کی صورت یقیناََ ابھری۔ حکومت مگر اسے نصیب نہ ہوئی۔ مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی کی مدد سے شہباز حکومت قائم کردی۔
مجھ بڈھے کھوسٹ، کو شاہین بچوں، نے یاد دلایا کہ تحریک انصاف نے اس کے ہاتھ سے چھینی، قومی اسمبلی کی پانچ اور میاں اظہر مرحوم کی رحلت کی وجہ سے خالی ہوئی نشستیں واپس لے بھی لیں تو شہباز حکومت اپنی جگہ قائم رہے گی۔ اس لیے اتوار کے روز ہونے والے ضمنی انتخابات میں حصہ لینا وقت اور وسائل کا قطعاً زیاں ہے۔ اس میں حصہ لینے کی پاداش، میں تحریک انصاف کے کئی نوجوان کارکنوں کو گرفتار کرکے کئی مقدمات میں الجھایا جاسکتا ہے۔ میرے لتے لیتے ہوئے مگر شاہین بچوں، نے اس سوال کا جواب فراہم نہیں کیا کہ اگر اتوار کے روز ہوئے ضمنی انتخابات میں حصہ لینا اتنا ہی مکروہ، فعل ہے تو عمر ایوب خان اس میں حصہ کیوں لے رہے ہیں۔
تحریک انصا ف کے طرز سیاست کے بارے میں ہزاروں تحفظات کے باوجود میں اصرار کروں گا کہ کسی سوچ یا نظریہ پر قائم ہوئی جماعت کو تمام تر مشکلات کے باوجود خود کو سیاسی عمل سے باہر نہیں رکھنا چاہیے۔ تاریخ کی بے شمار مثالوں کے ذکر سے آپ کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہ رہا۔ صرف ایک ملک پر توجہ دیتے ہیں اور وہ ہے ہمارا برادر ملک ترکیہ۔ وہاں کنعان ایورن کی فوجی آمریت کے دوران اسلام پسندوں نے سیکولر، سوچ کو للکارنے کے لیے 1984ء میں رفاہ پارٹی بنائی تھی۔ ترکیہ کے موجودہ صدر رجب طیب ایردوان اس کے استنبول کے لیے چیئرمین بنائے گئے۔ ان کو ایک شعر پڑھنے کی وجہ سے جیل میں ڈال دیا گیا۔ ان کے دیگر ساتھیوں کی باغیانہ روش، سے اکتاکر بالآخر رفاہ پارٹی پر پابندی لگادی گئی۔
اس جماعت نے مگر ہمت نہ ہاری۔ فضلیت، پارٹی کا روپ دھارکر سیاسی میدان میں اپنا وجود برقرار رکھا۔ بالآخر 1999ء کے عام انتخاب میں وہ 15.4 فیصد ووٹ اور 111 نشستیں جیت کر دوسری بڑی جماعت کے طورپر اتری۔ اس کے باوجود ترکیہ کی آئینی عدالت، نے (جی ہاں ویسی ہی آئینی عدالت، جو ہمارے ہاں حال ہی میں متعارف ہوئی ہے) اس پر ملک کے آئینی ڈھانچے کی مخالفت کی بنیاد پر پابندی لگادی۔ اسی جماعت نے مگر ایک ہی سال بعد نومبر2002ء میں اے کے پی کے نام سے انتخاب جیت لیے اور اس برس سے آج تک ایردوان بطور سلطان، ترکی کے حکمران ہیں۔ عرض صرف یہ کرنا ہے کہ سیاسی جماعتوں اور کارکنوں کے پاس اقتدار میں آنے کا واحد راستہ سیاسی عمل اور انتخابات ہیں۔ ان سے دوری آپ کا منزل تک پہنچنا تقریباً ناممکن بنادیتی ہے۔

