پاکستان پر دہشت گردی پھیلانے کے نئے بھارتی الزامات

دلی میں مودی سرکار کو اقتدار سنبھالے دس سے زیادہ برس گزرچکے ہیں۔ اپنے اقتدار کے دوران اس نے پنڈت نہرو اور کانگریس کی متعارف کردہ تمام روایات کا خاتمہ کردیا۔ نہایت ڈھٹائی سے بھارت کی ہندوشناخت پر اصرار کرتے ہوئے پاکستان اور مسلمانوں سے نفرت کو یہ شناخت قائم رکھنے کی خاطر مسلسل ابھارا جارہا ہے۔ برسوں سے جاری ذہن سازی کی بدولت عام بھارتیوں کی بے پناہ اکثریت اپنے ملک میں ہوئی تخریب کاری کی ہر واردات کا ذمہ دار اب پاکستان کو ٹھہرانے کو بے قرار رہتی ہے۔ وادی کشمیر سے ذہنی سکون کی خاطربھارت منتقل ہوئے پیشہ ور افراد بھی اس تناظر میں ہمیشہ شک کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں۔
جن دنوں پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی وجہ سے ہر سال تقریباََ 6 مہینے کے لئے بھارت میں قیام کرنا پڑتا تھا تو بتدریج یہ نوٹس کرنا شروع کیا کہ مقبوضہ کشمیر کے حالات سے گھبراکر دلی منتقل ہوئے نوجوان بتدریج غیر ملکی سیاحوں کو خدمات پہنچانے کے شعبے میں نمایاں ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ سیاحوں کی دیکھ بھال کشمیر میں تاریخی وجوہات کی بدولت اہم ترین دھندا رہی ہے۔ اس تناظر میں اپنی جبلت کا حصہ بنی صلاحیتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کشمیر سے دلی آئے نوجوان سیاحوں کو مختلف تاریخی مقامات دیکھنے کے لئے کرائے کی گاڑیاں فراہم کرنے کے علاوہ گائیڈ کا بندوبست بھی کرتے۔ ان کی وساطت سے نسبتاََ سستے داموں صاف ستھرے ہوٹلوں میں کمرے ملنا بھی آسان ہوجاتا۔ 2009ء میں دلی میں تقریباََ دس دن گزارنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ جس چلن کا میں مشاہدہ کررہا ہوں وہ جاری رہا تو سیاحتی شعبے کا کم از کم 50فی صد حصہ کشمیریوں کی اجارہ داری میں جاسکتا ہے۔
مجھے شبہ ہے کہ بھارت میں سیاحت سے وابستہ دھندے سے تعلق رکھنے والے غیر کشمیری بھی وہ سوچ رہے تھے جو میرے ذہن میں تھا۔ مودی سرکار کے 2014ء میں اقتدار سنبھالتے ہی لہٰذا منظم انداز میں کاروباری رقابت نسل پرستی کی صورت ابھری اور دلی شہر میں کشمیری طالب علموں اور نوجوانوں کا سکون سے رہنا تقریباََ ناممکن ہوگیا۔ کشمیریوں نے مگر ہمت نہیں ہاری۔ دلی چھوڑ کر اس کے نواحی شہروں میں چلے گئے۔ ان میں سے چند ہریانہ صوبے کا حصہ بھی ہیں۔ ہریانہ سے چند کشمیریوں نے یوپی کے شہروں کا رخ بھی کیا۔ سہارن پور اس ضمن میں کافی امکانات کا حامل تھا۔ یوپی سے کشمیر کے رشتے ویسے بھی بہت پرانے ہیں۔ کسی اور کا ذکر کیا کرنا۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے بزرگ بھی وادی کشمیر سے الہٰ آباد منتقل ہوئے تھے۔
گزشتہ چند دنوں سے مگر چند ایسے واقعات ہوئے ہیں جو میری دانست میں ہر کشمیری کو دلی ہی نہیں اس کے قریبی شہروں اور یوپی میں بھی "مشکوک" بنادیں گے۔ بات فقط کشمیریوں کے خلاف نفرت تک ہی محدود ہوتی تو شاید میں یہ کالم نہ لکھتا۔ حالیہ دنوں میں جو واقعات ہوئے ہیں میری دانست میں بالآخر پاکستان کے لئے بھی مسائل کھڑے کرسکتے ہیں۔
کسی ناول کے پلاٹ کی طرح بھارت کے ہر یانہ اور وہاں دلی کے بہت قریب اور اس صوبے کے سب سے بڑے شہر فرید آباد میں اکتوبر کے پہلے ہفتے سے پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کی جانب سے چھاپوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان چھاپوں کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر کے سری نگر کے نواح میں واقع قصبے کی دیواروں پر چند پوسٹروں کا نمودارہونا بتایا گیا۔ ان پوسٹروں میں پاکستان میں کالعدم ٹھہرائی ایک جہادی تنظیم سے وابستگی کا اظہار ہوا تھا۔
سری نگر کے نواحی قصبے کی دیواروں پر جوپوسٹر لگے اس نے وہاں کے ایس پی کو تحقیقات پر اُکسایا۔ کئی گھروں میں چھاپے مارنے کے بعد چند افراد سے یہ اگلوایا گیا کہ جو پوسٹر لگے تھے کہ وہ "رخصت" پر آئے ایک کشمیری ڈاکٹر-عمر نبی- نے اپنے قیام کے دوران دیواروں پر چسپاں کئے یا کروائے تھے۔ ڈاکٹر عمر دلی اور ہریانے کی سرحد پر واقع فرید آباد کے ایک مشہور ہسپتال میں ڈاکٹر تھا۔ وہ ایک فلاحی ہسپتال سے بھی وابستہ تھا جس کا نام "الفلاح ہسپتال" ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ ہسپتال کئی اعتبار سے "خیراتی" ہے۔ اسے مخیر ومتمول مسلمانوں کی مدد سے چلایا جارہا ہے۔
ڈاکٹر عمر کے علاوہ کشمیر ہی کے ایک ڈاکٹر مزمل کا نام بھی مشکوک افراد میں شامل ہوگیا۔ اس کا تعلق بھی کشمیر اور الفلاح ہسپتال سے بتایا جارہا ہے۔ کشمیر کے چند شہروں میں تقریباََ گھر گھر تلاشی لینے کے بعد ہریانہ کے ایک گائوں پر چھاپہ مارا گیا۔ وہاں سے مبینہ طورپر "بارودی مواد" بھاری مقدار میں بازیاب کرنے کی خبر پھیلائی گئی۔ جو چھاپے پڑرہے تھے ان کا ذکر کئی دنوں تک مین سٹریم میڈیا میں نہ ہوا۔ گزرے پیر کے روز البتہ بھارت کے تمام اہم اخباروں نے چیختی سرخیوں کے ذریعے "ڈاکٹروں کے بھیس میں دہشت گرد" دریافت ہونے کی اطلاع دی۔ ان سے 2900کلو گرام بارودی مواد ڈھونڈنے کا دعویٰ بھی ہوا۔
اس "اتفاق" کو حسنِ اتفاق پکارنے سے معذور ہوں کہ پیر ہی کی شام بھارتی وقت کے ساڑھے 6بجے کے قریب دلی کے لال قلعہ کے مرکزی دروازے کے قریب انڈرگرائونڈ ریل کے اسٹیشن کے عین سامنے ایک کار میں دھماکہ ہوا۔ اس دھماکے کی وجہ سے لگی آگ نے وہاں موجود کئی راہ گیروں اور گاڑیوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مستند اور ذمہ دار ذرائع کی جانب سے وضاحتوں اور تصدیق کا انتظار کرنے کے بجائے بھارتی میڈیا یکسوہوکر کار میں لگی آگ کو "دہشت گردی" کی واردات پکارنے لگا۔
"ہندوستان ٹائمز" نے مگر روایتی صحافت کے تقاضوں کا احترام کرتے ہوئے اعلیٰ پولیس افسروں سے رابطے کے بعد اصرار کیا کہ لال قلعہ کے قریب جس گاڑی میں آگ لگی ہے اس کی وجہ نظر بظاہر دہشت گردی نہیں۔ بم سے لدی گاڑی جب پھٹتی ہے تو زمین میں گہرا کھڈا نمودار ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ بارودی مواد میں شامل کیل اور بال بیرنگ وغیرہ چاروں جانب بکھر کر لوگوں کی ہلاکت کا باعث بنتے ہیں۔ زخمیوں کی کثیر تعداد کا سبب بھی ایسے ہی کیل اور بال بیرنگ ہوتے ہیں۔ یہ دعویٰ کرنا لہٰذا درست نہیں کہ دلی کے لال قلعہ کے قریب "کار بم" کے ذریعے دہشت گردی کی واردات ہوئی ہے۔
ٹھوس دلائل پر مبنی خبر نے سوشل میڈیا پر چھائے "کمانڈوز" کو ٹھنڈا کردیا۔ بھارتی حکومت نے مگر اب "خبر" یہ دی ہے کہ جو گاڑی تباہ ہوئی اسے کشمیری نڑاد ڈاکٹر عمر نبی چلارہا تھا۔ کشمیر کے مختلف شہروں، ہریانہ اور فرید آباد کے چھاپوں سے گھبراکر وہ "بارودی مواد" کہیں اور منتقل کرنا چاہ رہا تھا۔ عجلت میں لیکن اس کے پاس موجود "خام بم" پھٹ گیا۔
گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے اور یہ کالم لکھتے وقت بھی کشمیر کے کئی شہروں سے چھاپوں کی اطلاعات آرہی ہیں۔ ہمارے لئے اہم ترین خبر مگر ایک لیڈی ڈاکٹر شاہین کی گرفتاری ہے۔ لکھنوسے تعلق رکھنے والی یہ خاتون الفلاح ہسپتال میں کام کرتی تھیں۔ ان پر کشمیری "دہشت گردوں" کی سہولت کاری کا الزام لگایا ہی نہیں جارہا۔ دعویٰ یہ بھی ہورہا ہے کہ وہ پاکستان میں کالعدم ٹھہرائی ایک تنظیم کی جانب سے حال ہی میں قائم ہوئی "خواتین مومنات" نامی تنظیم کی بھارت میں قائد بنائی گئی ہے۔
کہانی کو طول دیتے ہوئے نئے کردار داخل کئے جارہے ہیں۔ نہایت احتیاط اور ہوشیاری سے تیارکی اس کہانی کا حتمی ہدف پاکستان کو ایک بار پھر بھارت میں دہشت گردی پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہرانا ہے۔ ہمارے ریگولر اور سوشل میڈیا میں لیکن اس جانب کماحقہ توجہ نہیں دی جارہی۔

