Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Pak Afghan Taluqat Ke Bigar Mein Bharat Ka Kirdar

Pak Afghan Taluqat Ke Bigar Mein Bharat Ka Kirdar

پاک افغان تعلقات کے بگاڑ میں بھارت کا کردار

گھر آئے اخبارات کے پلندے پر نگاہ ڈالوں یا ریموٹ ہاتھ میں لے کر ایک ٹی وی چینل سے دوسرے چینل پر جائوں تو احساس ہوتا ہے کہ ہمارا نام نہاد مین سٹریم میڈیا افغانستان کے ساتھ ہماری کشیدگی کے بارے میں یقیناََ متفکر نہیں۔ ہماری بے نیازی کے مقابلے میں افغانستان سے کہیں دور بیٹھا ہمارا برادر ملک ترکیہ ہے۔ اس کے تاریخی شہر اور تہذیبی مرکز استنبول میں پاک-افغان معاملات کو سلجھانے ترکی کے علاوہ قطر کے نمائندوں کی معاونت سے مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے۔

ثالثوں کی پرخلوص کاوشوں کے باوجود وہ ناکام ہوگئے۔ ترکی اس کے باوجود ہمت کھوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اس کے صدر رجب طیب اردوان نے آذربائیجان سے اپنے ملک پرواز کرتے ہوئے بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی رائٹر کے مطابق اپنے ہمراہ سفر کرنے والے صحافیوں کو یہ بتایا ہے کہ ان کے وزیر خارجہ اور وزیر دفاع ترکیہ کے انٹیلی جنس چیف سمیت جلد ہی اسلام آباد آئیں گے۔

پاکستان میں قیام کے دوران یہ تینوں اپنے پاکستانی ہم عصروں سے ملاقاتوں کے دوران پاک-افغان مذاکرات جاری رکھنے کو یقینی بنانا چاہیں گے۔ صدر اردوان کے اعلان کے ساتھ ہی ہمارے ہمسایہ اور قریبی ملک ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اتوار ہی کے روز پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے دونوں ممالک کے مابین مذاکرات جاری رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا اور اس تناظر میں اپنی خدمات فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا۔

ترکیہ اور ایران کی پاک-افغان تعلقات کے بارے میں فکر مندی عندیہ دے رہی ہے کہ کابل اور اسلام آباد کے مابین کشیدگی غالباََ ایک دوسرے کے خلاف تندوتیز بیانات کے اجراء تک ہی محدود نہیں رہے گی۔ تنائو اس جانب بھی مڑسکتا ہے جہاں دونوں ممالک کے درمیان دوحہ میں ہوئی جنگ بندی برقرار رکھنا بھی مشکل ہوجائے۔ خدانخواستہ ایسا ہوگیا تو پاکستان اور افغانستان کے مابین کھلی جنگ یا سرحدوں پر مشتمل جاری جھڑپوں کے اثرات سے ایران بھی محفوظ نہیں رہ پائے گا۔ پاک-افغانستان کشیدگی کے تدارک کیلئے وہ لہٰذا کلیدی کردار ادا کرنے کا خواہش مند ہے۔

افغانستان سمندر سے دوری کی وجہ سے اپنی تجارت کے لئے پاکستان پر ضرورت سے زیادہ انحصار کرتا ہے۔ ایران کی بندرگاہیں اس کا متبادل فراہم کرتی ہیں۔ ان کی سکت میں مزید اضافے کے لئے بھارتی سرمایہ کار چاہ بہار بندرگاہ کو جدید ترین بنانے کی کاوشوں میں مصروف ہیں۔ امریکہ نے مگر ایران کا اقتصادی بائیکاٹ کررکھا ہے۔ اسی باعث چاہ بہار کو کشادہ اور جدید تر بنانے میں مصروف بھارتی سرمایہ کاروں کو ٹرمپ انتظامیہ نے ممکنہ پابندیوں کے بارے میں متنبہ کیا۔ انتباہی پیغام کے بعد مگر بھارتی سرمایہ کاروں کو چاہ بہار بندرگاہ کی توسیع کے لئے 6مہینوں کا استثناء فراہم کردیا گیا۔ مذکورہ استثناء کے ذریعے ٹرمپ انتظامیہ نے درحقیقت بھارت اور افغانستان کو سفارتکارانہ مکاری سے یہ پیغام دیا ہے کہ واشنگٹن دہلی اور کابل کے مابین سفارتی ہی نہیں کاروباری رشتوں کو بھی مضبوط تر دیکھنے کا خواہش مند ہے۔

پاکستان میں ہر موضوع پر "غزل" لکھنے کو دستیاب تبصرہ نگاروں کا ہجوم اس پہلو کو ابھی تک نظرانداز کئے ہوئے ہے۔ فقط یہ دیکھتے ہوئے جی بہلالیتا ہے کہ صدر ٹرمپ ہر دوسرے روز بھارت کو پاکستان کے ساتھ رواں برس کے مئی میں ہوئی ہزیمت یاددلاتا رہتا ہے۔ سات طیاروں کی بربادی کا ورد مودی کا دل جلانے کی خاطر کئے چلے جارہا ہے۔ ٹرمپ کے ہاتھوں مودی پر ہوئی طعنہ زنی کا لطف اٹھاتے ہوئے ہم یہ حقیقت نظرانداز کردیتے ہیں کہ وہ سیمابی طبیعت کا مالک ہوتے ہوئے بھی بنیادی طورپر ایک کاروباری آدمی ہے اور ایک انگریزی محاورے کے مطابق اپنے "تمام انڈے" پاکستان کے تھیلے میں رکھنا نہیں چاہے گا۔ جنوبی ایشیاء کے وسیع تر تناظر میں وہ بھارت کو حتمی طورپر نظرانداز نہیں کرسکتا۔ طالبان اس کی حکومت کے دوران دوحہ میں ہوئے ایک معاہدے کی بدولت فاتح بن کر کابل لوٹے ہیں۔ جو معاہدہ ان کی کابل واپسی کا باعث ہوا اس کی جزئیات افغان نڑاد امریکی زلمے خلیل زاد نے تیار کی تھیں۔

جبلی طورپر موقعہ پرستی کا عادی زلمے خلیل زاد اپنا اکثر وقت ان دنوں کابل میں گزاررہا ہے۔ اس کی وہاں موجودگی اور میل ملاقاتیں مجھے یہ سوچنے کو اُکساتی ہیں کہ دین سے مبینہ طورپر کامل محبت میں گرفتارطالبان نے اپنے ملک سے امریکہ جاکر آباد ہوئے اور وہاں کی "ڈیپ اسٹیٹ" کے پرانے سہولت کار کو خارجہ امور کے بارے میں اپنا معاون بنالیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ابھی تک زلمے کو خاطر خواہ گھاس نہیں ڈالی ہے۔ وہ مگر امریکی "سسٹم" کو شاید ٹرمپ سے بھی زیادہ بہتر انداز میں سمجھتے ہوئے کابل اور دوحہ میں وقت گزارتے ہوئے "اچھے دنوں " کا انتظار کررہا ہے۔

مجھے شبہ ہے کہ زلمے خلیل زاد ہی کے مشورے پر طالبان نے اپنے وزیر خارجہ امیر خان متقی کو بھارت بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ مودی حکومت ویسے تو "ہندوتوا" کی پرچارک ہے۔ اس کے مشیر برائے قومی سلامتی -اجیت دوول-نے مگر بھارتی خفیہ ایجنسیوں سے ریٹائر ہوتے ہی مختلف تھنک ٹینکوں کے سیمیناروں میں یہ خیال پھیلانا شروع کردیا تھا کہ بھارت کو "وسیع تر قومی مفادات" کی خاطر دارالعلوم دیوبند کی وساطت سے طالبان کے ساتھ رشتے استوار کرنا ہوں گے۔ متقی کے دورہ بھارت کو میں نے اس کے بیان کردہ تناظر ہی میں سمجھنے کی کوشش کی۔

دارالعلوم دیوبند کے ذریعے بھارت کی طالبان کا دل موہ لینے کی خواہش اس وقت عملی صورت اختیار کرتی نظر آئی جب امیر خان متقی دارالعلوم دیوبند میں اپنے علم حدیث کا "امتحان" دینے سہارن پور پہنچا۔ اس کا وہاں والہانہ استقبال ہوا۔ "امتحان" میں کامیابی کے بعد امیر خان متقی پاکستان کے ساتھ تعلقات کو "طالبانی" نظر سے نہیں بلکہ وطن پرستی کے جذبات کے ساتھ دیکھنا شروع ہوگیا ہے۔ "وطنیت" اور مذہب کی بنیاد پر "قومیت" کے مابین فرق کو دارالعلوم دیوبند کے اکابرین قیام پاکستان کی تحریک کے دوران اجاگر کرنا شر وع ہوگئے تھے۔ دو قومی نظریہ ان کی دانست میں "وطنیت" کی روگردانی تھی۔ طالبان پاکستان کے ساتھ اپنی مشکلات کو اب اسی سوچ کے تحت دیکھنا شروع ہوگئے ہیں۔

"طالبانی" سوچ میں وطنیت یا افغان قوم پرستی کا تڑکا لگاتے ہوئے امیر خان متقی جیسے افراد ان ہزاروں افغان افراد کے دل موہ لینے میں بھی کامیاب ہوئے جو طالبان کے کابل لوٹنے کے بعد ہجرت کرنے کو مجبور ہوئے۔ ان میں سے اکثر ان دنوں یورپ میں پناہ گزین ہیں اور وہاں کے کئی ملکوں میں تارکین وطن سے نفرت میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان کو یہ افغان پناہ گزین اپنی تمام مصیبتوں کا واحد ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ طالبان سے قدیمی نفرت بھلاکر لہٰذا وہ متقی کے طرف دار ہوگئے۔

صدر اردوان کے پاکستان کے بارے میں پرخلوص جذبات پر ایک لمحہ شک کرنا بھی احسان فراموشی ہوگی۔ بھارت ان کی پاکستان سے محبت کے بارے میں ہم سے کہیں زیادہ باخبر ہے۔ اسی وجہ سے حال ہی میں ترکیہ کے یوم آزدی کی دلی میں ہوئی تقریب سے بھارتی حکومت نے سرکاری ملازموں کو دور رہنے کا تحریری حکم صادر کیا۔ ترکی کے ساتھ بھارت کے رویے کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں یہ لکھنے کی جسارت کروں گا کہ وہ صدر اردوان کی جانب سے پاک-افغان تعلقات کو معمول پر لانے کی ہر کوشش کو ناکام بنانے کے لئے متحرک رہے گا۔ پاک-افغان تعلقات کو معمول پر لانے کے بعد بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہوئے ہمیں اور ہمارے خیر خواہ ممالک کو بھارت کا کردار نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz