Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Netanyahu Ki Khwahish Par Trump Aman Formule Mein Tabdeeliyan

Netanyahu Ki Khwahish Par Trump Aman Formule Mein Tabdeeliyan

نیتن یاہو کی خواہش پر ٹرمپ امن فارمولے میں تبدیلیاں

پاکستان سمیت وہ تمام مسلمان ملک پریشان ہیں جنہوں نے امریکی صدر ٹرمپ کا تیار کردہ 20نکاتی فارمولا دیکھا تھا۔ مقصد اس فارمولے کا غزہ میں فوری جنگ بندی کے بعد اس کی بحالی کی جانب توجہ مرکوز کرنا تھا۔ اسی باعث یہ اپنی "اصل صورت" میں نمودار ہوا تو ہزاروں تحفظات کے باوجود پاکستان سمیت مسلمان ملکوں نے اس کا "خیرمقدم" کیا۔ "خیر مقدم" کا سفارتی زبان میں مطلب اگرچہ کامل منظوری نہیں ہوتا۔ یہ محتاط انداز میں پیش کردہ فارمولے میں"مثبت تبدیلیوں" کے امکانات برقرار رکھتا ہے۔ "مثبت تبدیلیاں" اگرچہ ہم مسلمانوں کے حصہ میں نہیں آتیں۔ عموماََ اسے دوسرے فریق اچک لیتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے پیش کردہ فارمولے کے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نیویارک ہی میں قیام پذیر رہا۔ ہمارے قارئین کی اکثریت کو غالباََ یہ علم ہوگا کہ ٹرمپ کا داماد جیرڈکشنر یہودی النسل ہے۔ اس کے خاندان کے نیتن یاہو کے خاندان سے دیرینہ مراسم ہیں۔ ان مراسم کی بدولت نیتن یاہو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے امریکہ آیا تو نیویارک میں کشنر کے گھر میں تعلیم مکمل ہونے تک قیام پذیر رہا۔ وہ اور کشنر ایک ہی کمرے میں رہا کرتے تھے۔

کشنر سے دوستی کو بروئے کار لاتے ہوئے نیتن یاہونے امریکی صدر کے دئے فارمولے پر "غور" کے لئے Witkoff Steve سے ملاقات کا تقاضہ کیا۔ جمعرات کی صبح چھپے کالم میں عرض کرچکا ہوں کہ وٹکوف نے ٹرمپ کا مصالحتی فارمولا تشکیل دینے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ وہ جوانی سے ٹرمپ کے ساتھ پراپرٹی کے کاروبار میں شراکت دار رہاہے۔ وائٹ ہاؤس لوٹنے کے بعد ٹرمپ نے اسے روس اور مشرق وسطیٰ کے ساتھ معاملہ سازی کے لئے اپنا حتمی خصوصی سفیر تعینات کیا ہے۔

جیرڈ کشنر کی مہربانی سے نیتن یاہو اور وٹکوف کے مابین چھ گھنٹے کی طویل ملاقات ہوئی۔ کشنر بھی اس ملاقات میں موجود تھا۔ اس ملاقات میں ٹرمپ کے 20نکاتی فارمولے کی ایک ایک شق پر غور ہوا۔ تقریباََ ہر شق کے متن کو نیتن یاہو کی خواہش کے مطابق بدل دیا گیا۔ اہم ترین تبدیلی جنگ بندی کے بعد اسرائیلی افواج کی غزہ سے جلد از جلد واپسی تھی۔ نیتن یاہونے اس شرط کو غزہ میں"امن کے استحکام" سے وابستہ کردیا۔

اسرائیلی مغویوں کی رہائی کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی تعداد بھی مختص کرنے سے کنی کترالی۔ ٹرمپ کے اصل فارمولے میں"ہتھیار پھینک دینے والے" حماس کے کارکنوں کے لئے عام معافی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ نیتن یاہونے مگر یہ الفاظ ڈلوائے کہ "عام معافی" صرف ان کارکنوں کو ملے گی جو اپنا اسلحہ اسرائیلی فوج کے روبرو شکست خوردہ فوجیوں کی طرح حوالے کردیں گے۔ جنگ بندی کے بعد غزہ کی تعمیر نو کے لئے ٹرمپ کے فارمولے میں سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے نام لے کر ان سے سرمایہ کاری کی امید باندھی گئی تھی۔ نیتن یاہونے ان ممالک کے نام کٹواکر "بین الاقوامی سرمایہ کاری" کی ترکیب شامل کروادی۔

نیتن یاہو کی چھ گھنٹہ لمبی میٹنگ کے بعد ٹرمپ کے نام سے منسوب "امن فارمولے" کا نظرثانی شدہ مسودہ قطر اور ترکی کو دکھایا گیا۔ ان دو ممالک سے رجوع کرنے کی وجہ غالباََ یہ حقیقت تھی کہ حماس کے ساتھ گفتگو کے لئے ان دو ممالک ہی سے رجوع کیا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر مستند گردانے تمام اخبارات دعویٰ کررہے ہیں کہ قطر اور ترکی نے تبدیل شدہ مسودے کو دیکھا تو حیران رہ گئے۔ ٹرمپ انتظامیہ سے درخواست کی کہ اسے منظور کرنے سے گریز کرے۔ قطر اور ترکی ہی نہیں بلکہ ان تمام مسلم ممالک سے مشاورت کے بغیر جنہیں ٹرمپ کے پیش کردہ "اصل" فارمولے پر اعتماد میں لیا گیا تھا "نظرثانی شدہ" مسودے کو پبلک نہ کیا جائے۔ اسرائیل نے دریں اثناء￿ عالمی میڈیا میں اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے نیتن یاہو کے ساتھ ہوئی میٹنگ میں تبدیل ہوئی ہر شق کو اصل شق کے ساتھ رکھ کر دنیا بھر کے لئے عیاں کردیا۔ "ٹرمپ کا تیار کردہ" امن معاہدہ اب سانپ کے منہ میں چھچھوندر کی شکل اختیار کرچکا ہے جسے نگلا جاسکتا ہے نہ اگلنے کی گنجائش ہے۔

گومگو کے اس عالم میں امریکی صدر نے نہایت "فیاضی" سے یہ اعلان کردیا کہ قطر پر حملہ اب امریکہ پر حملہ تصور ہوگا۔ یہ اعلان کرتے ہوئے وہ خفت مٹانے کی کوشش ہوئی جو اسرائیل نے قطر پر میزائل حملوں کے ذریعے واشنگٹن کے لئے کھڑی کی تھی۔ ٹرمپ کی خواہش پر قطر میں حماس کے رہ نمائوں کو صلح کے لئے مذاکرات کیلئے بلوایا گیا تھا۔ ان سے مذاکرات سے قبل ہی اسرائیل نے مگر "دہشت گردوں" کے قتل کے لئے قطر کی جانب میزائل روانہ کردئے۔ قطر میں Centcom US کا اہم ترین فوجی اڈہ بھی موجود ہے۔ مشرق وسطیٰ میں امریکی افواج کی سب سے زیادہ تعداد جدید ترین اسلحہ سمیت اس اڈے میں موجود ہے۔

اسرائیل سے آئے میزائل کے بارے میں اس اڈے پر تنصیب ریڈار مگر "بے خبر" رہے۔ انہیں فضا میں ناکارہ بنانے کے لئے پتہ بھی نہ ہلا۔ امریکی افواج کی موجودگی میں قطر کی سرزمین پر ہوا حملہ اس ملک کیلئے انتہائی ندامت کا باعث ہے۔ غالباََ اسی وجہ ہی سے قطر پر اسرائیل کے حملے کے فوراََ بعد سعودی عرب نے پاکستان کیساتھ دفاعی تعاون کے جامع معاہدے کا اعلان کردیا۔ ایسا کرتے ہوئے امریکہ کو پیغام دیا کہ سعودی عرب اپنے دفاع کے لئے امریکہ کے وعدوں پر اعتبار نہیں کرسکتا۔

مجھے خبر نہیں کہ قطر امریکہ کی جانب سے اسرائیلی حملے کے بعد ہوئے ٹرمپ کے اعلان کو کتنی اہمیت دے گا۔ "قطر پر حملہ امریکہ پر حملہ تصور ہوگا" والا اعلان مگر قطر پر دبائو بڑھائے گا کہ وہ حماس کو جلد از جلد امریکی اسرائیل شرائط پر جنگ بندی کو رضا مند کرے۔ قطر کی بنیادی مشکل مگر یہ ہے کہ حماس کی جانب سے غزہ میں مزاحمت کا کامل کنٹرول اب ان افراد کے پاس ہے جو غزہ کی پٹی ہی میں محصور ہیں۔

واضح سکیورٹی وجوہات کی بدولت ان سے روابط آسان نہیں۔ کافی تگ ودو کے بعد جو روابط چند عرب صحافیوں نے کئے ہیں وہ عندیہ دے رہے ہیں کہ غزہ میں محصور رہتے ہوئے اسرائیل کی مزاحمت کرنے والے حماس کمانڈر اسرائیلی مغویوں کو یکمشت رہاکرنے کو آمادہ نہیں۔ وہ اصرار کررہے ہیں کہ اسرائیل کے مغویوں کو یکمشت رہا کردینے کے بعد اس کے پاس اسرائیل ا ور امریکہ سے مذاکرات کے لئے کوئی طاقتور "پتے" موجو نہیں رہیں گے۔ نیتن یاہونے اپنے دوست کشنر کی وساطت سے "ٹرمپ فارمولے" میں جو تبدیلیاں کروائی ہیں وہ اس دستاویز کو ناقابلِ عمل بناسکتی ہیں۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam