Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Nepal Ka Gen Z Inqilab

Nepal Ka Gen Z Inqilab

نیپال کا جین زی انقلاب

آپ سے کیا چھپانا؟ پاکستان میں انقلاب، کی امید میں 1986ء کے برس سے کھونا شروع ہوگیا تھا اور وقت کے ساتھ ساتھ قنوطی سے قنوطی ترہورہا ہوں۔ انقلاب، کے نام پر وطن عزیز یا دنیا کے کسی بھی کونے میں تھوڑی ہل جل ہوتو جوانی یاد آجاتی ہے۔ جوانی بھول جائوں تب بھی کئی مشاہدات ذہن میں امڈنا شروع ہوجاتے ہیں۔ نیپال میں چند ہی دن قبل جین زی(Gen-Z)کے لائے انقلاب، نے بھی ذہن میں اس ملک کے حوالے سے یادوں کا سیلاب برپا کررکھا ہے۔

فی الوقت اس کالم میں ذکر 2002ء کے برس کی 4جنوری کی ایک دوپہر کا کرنا ہے۔ اس برس کے پہلے ہفتے میں نیپال کے شہر کھٹمنڈو میں عرصہ سے معطل ومفلوج ہوئی جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم سارک کی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ بطور صحافی اس کانفرنس کے بارے میں بہت متجسس تھا کیونکہ اس کانفرنس کے انعقاد سے چند ماہ قبل بھارتی شہر آگرہ میں پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف اور بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی جنوبی ایشیا کے دو ازلی دشمن تصور ہوتے ممالک کے مابین دیر پا امن کی تلاش کے لیے ملنے والے تھے۔ آگرہ سربراہی کانفرنس شروع ہونے سے بہت پہلے مجھ جیسے صحافیوں کو دونوں ممالک کے انتہائی باخبر تصور ہوتے اعلیٰ سطحی ریاستی وحکومتی اداروں نے یہ امید دلائی تھی کہ واجپائی اپنے مرنے سے قبل پاکستان کے ساتھ دائمی امن کا بندوبست یقینی بناناچاہ رہا تھا۔ موصوف کی یہ خواہش تھی کہ ان کی کاوش تاریخ میں ویسے ہی یاد رکھے جیسے نکسن کا چین سے دوستانہ تعلقات کے لیے قدم بڑھانا یاد رکھا جاتا ہے۔

مذکورہ خواہش نے انھیں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں بس میں بیٹھ کر لاہور آنے کو اُکسایا تھا۔ بے تحاشا مبصرین اس خیال پر اتفاق کرتے ہیں کہ لاہور میں نواز شریف اور واجپائی کے مابین جن دور رس اقدامات کے بارے میں لوگوں سے خفیہ رکھی ہم آہنگی نے جنم لیا اسے ان دنوں کے آرمی چیف جنرل مشرف نے کارگل آپریشن کے ذریعے خاک میں ملادیا تھا۔ جنرل مشرف کو کارگل کا ذمہ دار، ٹھہرانے کے باوجود بالآخر واجپائی تاریخ میں زندہ رہنے کی خاطر ان ہی کو خط لکھنے کو مجبور ہوا جو نواز حکومت کا تختہ الٹ کر پاکستان کے صدر بن گئے تھے۔

پاکستان اور بھارت کے اعلیٰ سطحی افسران و ریاستی اور حکومتی نمائندوں سے آف دی ریکارڈ بریفنگ، کے کئی سلسلوں میں شمولیت کے بعد مجھ جیسے صحافیوں نے یہ طے کرلیا کہ واجپائی نے کارگل کے باوجود پاکستان کے فوجی صدر کو آگرہ میں ملاقات کے لیے مدعو کرنے سے قبل سوبار سوچا ہوگا۔ ان دونوں کے مابین ملاقات سے قبل ٹریک ٹو، یا غیر رسمی روابط کی بدولت دونوں ممالک نے شاید اس اعلامیے کے خدوخال بھی طے کرلیے ہوں گے جو آگرہ سمٹ کے اختتام پر جاری ہونا تھا۔ واجپائی-مشرف ملاقات کے آغاز سے قبل مگر پاکستانی صدر کی بھارتی صحافیوں سے ہوئی کھلی ڈلی، گفتگو دونوں ممالک کے ٹی وی چینلوں پر براہ راست نشر ہوگئی اور دائمی امن کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔

بے تحاشا امیدیں فروخت کرنے کے بعد مایوس کن خبروں سے اُکتایا میرا ذہن نیپال میں ہوئی سارک سربراہی کانفرنس کی کوریج کو تیار نہیں تھا۔ میری خوش قسمتی یابدقسمتی کہ سارک سمٹ کے آغاز سے دو دن قبل ہی کھٹمنڈو میں جنوبی ایشیا کے صحافیوں کی ہوئی ایک کانفرنس میں موجود تھا۔ اس کانفرنس کے دوران ایک باخبر بھارتی صحافی نے نہایت اعتماد سے دعویٰ کیا کہ سارک کانفرنس میں پاکستانی صدر بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ ڈرامائی انداز، میں مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے دونوں ممالک کے مابین پائی جانے والی سرد مہری دور کرنا چاہیں گے۔ و ہ خود تو دہلی واپس لوٹ رہے تھے لیکن مجھ سے اصرار کرتے رہے کہ مجھے سارک کانفرنس میں شرکت کے لیے کھٹمنڈورک جانا چاہیے۔ خبر کے لالچ میں رک گیا۔ 3جنوری 2002ء کی شام سارک سربراہی کانفرنس کی کوریج کے لیے بنائے میڈیا سنٹر چلاگیا تاکہ مجھے اس کانفرنس کی رپورٹنگ کے لیے رجسٹرکرلیا جائے۔

اپنا نام رجسٹر کروانے کے بعد کانفرنس میں شمولیت کے لیے ضروری شناختی کارڈ وغیرہ حاصل کرلیے تو میرے باہر نکلنے کے بعد ایک درمیانی عمر کے نیپالی نے مجھے ہیلو کہا۔ اس کے ساتھ تین چار نوجوان لڑکیاں موجود تھیں۔ اس نے کہا کہ کھٹمنڈو کے تاریخی مقامات، دیکھنے کے لیے میں ان میں سے کسی بھی لڑکی کو بطور گائیڈ حاصل کرسکتا ہوں۔ میں غیر ملکوں میں ایسے گائیڈ، فراہم کرنے والے افراد سے ہمیشہ کنی کتراتا ہوں۔ اس شام مگر اس شخص کی نیت پر دھوکا نہ ہوا۔ میں نے اسے ایمانداری سے بتایا کہ اب تو میں بہت تھک چکا ہوں۔ دوسرے دن کی صبح سے سہ پہر تک البتہ فارغ ہوں گا۔

اس کے پاس موجود گائیڈ، لڑکیوں میں سے کوئی ناشتے کے بعد میرے ہوٹل آجائے تو میں شہر کے سیاحتی مراکز کا چکر لگاسکتا ہوں۔ میری بات سن کر وہ مجھے ان بچیوں کے پاس لے گیا۔ ان میں سے دو کے مابین اچھی انگریزی، بولنے کا مقابلہ شروع ہوگیا۔ ایک بچی البتہ نہایت خاموشی سے میری صورت امید بھری نگاہوں سے دیکھتی جارہی تھی۔ میں نے اسے براہ راست مخاطب کرتے ہوئے اس کا نام پوچھا۔ اس نے بتادیا تو میں نے اس سے کچھ سوالات کیے۔ جن کے جوابات کی بدولت مجھے انداز ہوا کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے کھٹمنڈو آئی ہے اور غیر ملکی سیاحوں کی رہنمائی کے ذریعے کچھ رقم کما کر اپنے اخراجات پورے کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کا لہجہ اور زبان بہت دیانتدارانہ تھے۔ میں نے اسے دوسرے دن اپنے ہوٹل آنے کا کہہ دیا۔

دوسرے دن وہ طے شدہ وقت پر ہوٹل آگئی۔ ہم دونوں باہر نکلے تو کئی ٹیکسیوں کو ہائر کرنے کی کوشش کی۔ میری گائیڈ نیپالی زبان میں ان سے بھائوتائو کرنے کے بعد انھیں فارغ کردیتی۔ بالآخر میں اسے یہ کہنے کو مجبور ہوا کہ اگراس کا رویہ ایسا ہی رہا تو ہم کہیں بھی نہیں جاپائیں گے۔ اس کے خیال میں شہر کا چکر لگانے کے لیے جو رقم مناسب ہے اگر کوئی اس سے دس یا پندرہ فیصد بھی زیادہ مانگ لے تو اسے ٹھکرانے کے بجائے ہائر کرلیا جائے۔

میری خواہش کے باوجود اس نے تین مزید ٹیکسوں کو انکار کرنے کے بعد ایک ٹیکسی کے ڈرائیور سے طویل کج بحثی کے بعد اس کی گاڑی میں بیٹھنے کا فیصلہ کرلیا۔ بیٹھتے ہی انگریزی میں لیکن سرگوشیانہ آواز میں مجھے بہت غصے سے بتایا کہ نیپال کبھی ترقی نہیں کرسکتا کیونکہ یہاں کے لوگ سیاحوں کو لوٹتے، ہیں۔ جس ٹیکسی کو اس نے میرے لیے ہائر کیا ہے وہ بھی واجب داموں سے کم از کم پانچ فیصد زیادہ پر ہمیں کھٹمنڈو گھمانے کو آمادہ ہوا ہے۔ مجھے اس کی دیانت اور اصول پسندی بہت بھائی۔ میں نے اس کی ذات کے بارے میں سوالات کیے تو معلوم ہوا کہ وہ مائونواز کمیونسٹ پارٹی کی متحرک رکن بھی ہے اور اس کے خیال میں چین جیسا انقلاب ہی نیپال کے عوام کی قسمت بدل سکتا ہے۔

ٹیکسی میں بیٹھتے ہی اس نے ڈرائیور کو دربارچوک، جانے کا کہا۔ وہ ایک کھلامیدان تھا۔ ٹیکسی سے باہر نکل کر اس نے بتایا کہ یہاں کے فلاں مندر میں ایک کماری، رہتی ہے۔ 3سے12برس کے درمیان والی عمر کی اس کماری، کو ہندومت کے کئی پیمانوں سے گزرکر درگادیوی کی زندہ مثال، تصور کیا جاتا ہے۔ مون سون کا سیزن ختم ہوجائے تو کماری کی آشیرواد کے لیے لوگوں کا ایک ہجوم چوک میں جمع ہوجاتا ہے۔ کارنیوال اور میلے ٹھیلے کا ساماں بندھ جاتا ہے۔ جس تہوار کا اس نے نام لیا اسے مقامی زبان میں ین یا، کہا جاتا ہے۔ یہ اندرا سے منسوب ہے۔ مقامی روایات کے مطابق اندرا کی ماں کو ایک پھول بہت پسند تھا جو مون سون کی بارشیں ختم ہوتے ہی نیپال کی وادیوں میں ازخود کھل جاتے تھے۔ اندرا ایک دہقان کا روپ دھارے ان پھولوں کو کسی امیر کبیر آدمی کے باغ سے توڑرہا تھا تو پکڑا گیا۔ خود کو انسانی پکڑ، سے بچانے کے لیے اندرا نے سفید ہاتھی، کا روپ دھارلیا۔ مون سون کی بارشوں کے بعد کھٹمنڈو کے دربار چوک میں منایا تہوار، اس واقعہ کی یاد میں نہایت دھوم دھام کے ساتھ تقریباً چار سوسال سے منایا جارہا ہے۔

ہفتے کی صبح نیویارک ٹائمز، پڑھتے ہوئے علم ہوا کہ جس تہوار کا 4جنوری 2002ء کی دوپہر نیپالی گائیڈ نے ذکر کیا تھا وہ چند روز قبل 11ستمبرکو منایا گیا ہے۔ نیویارک ٹائمز کے رپورٹر نے مذکورہ تہوار کی تفصیل تو نہیں بتائی مگر حیرت سے رپورٹ کیا کہ فوج کے لگائے کرفیو کے باوجود سینکڑوں افراد 13ستمبر بروز جمعرات مذکورہ تہوار منانے کھٹمنڈو کے دربارچوک، پہنچ گئے تھے۔ فوج نے ہجوم کو نظرانداز، کیا مگر اسے کماری، کے نزدیک آنے نہیں یا۔ جین زی نے جو انقلاب، برپا کیا تھا اس کی وجہ سے سنگین جرائم میں سزا یافتہ ہوئے کئی قیدی بھی جیلوں سے فرار ہوگئے ہیں۔

فوج کو خوف تھا کہ مفرور قیدیوں میں سے کوئی کماری، کو قتل کردینے کے بعد خاک وخون کی آگ دوبارہ بھڑکاسکتا ہے۔ کماری، تو ہجوم سے بچالی گئی۔ جین زی، کے انقلابیوں نے مگر 73سال کی سشیلاکرکی کو واٹس ایپ پر ہوئی ووٹنگ، کے ذریعے نیپال کا عارضی وزیر اعظم نامزد کروالیا ہے۔ اس کے انتخاب میں جین زی تحریک کے تقریباً ایک لاکھ کارکنوں نے حصہ لیا۔ موصوفہ سپریم کورٹ کی سابق جج رہی ہیں اور کرپشن کے مقدمات میں کوئی رعایت دینے سے صاف انکار کردیتی تھیں۔ غالباً اسی باعث وہ نئی نسل کے لائے انقلاب، کی پسندیدہ ثابت ہوئیں۔ کماری، اب کے برس نجانے کیا سوچ رہی ہوگی۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan