Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. National Newspapers Readership Day Par Qareen Ko Mera Ajizana Salam

National Newspapers Readership Day Par Qareen Ko Mera Ajizana Salam

نیشنل نیوز پیپرز ریڈر شپ ڈے پر قارئین کو میرا عاجزانہ سلام

شرمندہ ہونے کے باوجود بطور صحافی اطمینان میسر ہوا ہے۔ بدھ کے روز چھپے کالم کی ہیڈلائن میں"عزیز علوی کے تھیسس" کا ذکر تھا۔ ہیڈلائن بنانے والے نے مگر یہ نام میرے لکھے کالم ہی سے لیا تھا۔ اس کالم میں ذکر تھا ہر شے پر نگاہ رکھتی ریاست کا۔ بات مشہور کشمیری رہ نمایاسین ملک کے دلی ہائی کورٹ میں جمع کروائے حلف نامے سے شروع ہوئی۔ مذکورہ حلف نامے میں برہان وانی کا ذکر بھی تھا۔ یہ جواں سال کشمیری 15برس کی عمر میں گھر سے غائب ہوگیا تھا۔

"پہاڑوں" میں پہنچ کر "مجاہدین" سے مل گیا۔ تقریباََ ہر ہفتے کشمیر کے کسی قصبے کی پہاڑی پر ہاتھ میں کلاشنکوف لے کر سیلفی بناتا اور اسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کردیتا۔ ٹویٹر، انسٹاگرام اور فیس بک وغیرہ پر چھپی اس کی تصاویر نے سادہ لوح عوام کی اکثریت کو اس گماں میں مبتلا رکھا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں سکیورٹی کے نام پر مختلف ریاستی اداروں کے ہزاروں اہلکار تعینات کرنے کے باوجود برہان وانی کا پتہ لگانے میں ناکام ہورہا ہے۔ کشمیر کے شمال اور جنوب کے تقریباََ ہر قصبے میں اس کی موجودگی بلکہ برہان وانی کو چھلاوے کی صورت ابھارکر پیش کرتی۔

کشمیر پر تحقیق کرنے والے دو لکھاریوں نے مگر اس کے پولیس کے ہاتھوں قتل ہوجانے سے قبل ایک تفصیلی کتاب لکھی۔ Spy Gamesیعنی جاسوسی اداروں کے بچھائے جال اس کا موضوع تھے۔ ان دونوں نے عینی شاہدوں کے بیانات کی روشنی میں یہ انکشاف کیا کہ بھارت کے ریاستی ادارے برہان وانی کے "مجاہد" ہونے کے چند ماہ بعد ہی اس کی Movement(حرکات وسکنات) کے بارے میں باخبر رہنا شروع ہوگئے تھے۔ اسے مگر گرفتار کرنے سے سوچی سمجھی سکیم کے تحت گریز کیا گیا۔

اس پر کڑی نگاہ رکھتے ہوئے درحقیقت یہ جاننے کی کوشش ہوتی کہ مختلف کشمیری گھرانے یا نوجوان کیا سوچتے ہوئے اسے اپنا ہیرو تصور کرتے ہیں۔ وہ کیا وجوہات وجذبات ہیں جو برہان وانی کے لئے کشمیر کے ہر قصبے میں پناہ گاہ فراہم کردیتے ہیں۔ اسے پناہ دینے والوں کو برہان کے وہاں سے نکل جانے کے بعد گرفتار کرلیا جاتا۔ بہیمانہ تشدد کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش ہوتی کہ اسے کون لوگ ملے اور اس سے ہوئی ملاقاتیں آزادی کی تحریک کو نئے جہادی فراہم کررہی ہیں یا نہیں۔ اس سارے عمل کو Control Narrative کا نام دیا گیا یعنی بیانیہ پر کامل گرفت۔

برہان وانی جب شہرت کے عروج کو پہنچ گیا تو اسے جولائی 2016ء میں شہید کردیا گیا۔ پولیس کے ہاتھوں اس کے قتل نے ہزاروں کشمیریوں کو مشتعل کیا۔ اس کے لئے مقبوضہ کشمیر کے تمام اہم شہروں اور قصبوں میں غائبانہ نماز جنازہ کا اہتمام ہوا۔ نماز کے بعد مشتعل ہوئے نوجوان ہنگامہ آرائی میں مصروف ہوجاتے۔ ان پر قابو پانے کے لئے لاٹھی، گولی اور آنسو گیس کے علاوہ ایسے بم بھی پھوڑے جاتے جن کا دھواں سرخ مرچوں سے دی دھونی میں بدل جاتا۔ ان کی وجہ سے سینکڑوں افراد بینائی سے محروم ہوئے۔ وانی کی شہادت کے نتیجے میں جو ہنگامے ہوئے ان پر قابو پانے کے لئے بھارت کے سکیورٹی اداروں کو 150کے قریب کشمیری شہید کرنا پڑے۔

آندرے لیوی اور سکاٹ کیتھی کی لکھی کتاب نے جس Control Narrative کا ذکر کیا اس نے مجھے "عرب بہار" اور اس کا انجام یاد دلایا۔ وہ یاد آئی تو ترکی نڑاد امریکی لکھاری زینب توفیقی کی اس موضوع پر لکھی کتاب "آنسو گیس اور ٹویٹر" کا ذکر بھی کرنا پڑا۔ نکتے کو نکتے سے ملانے کا اصل مقصد اس سوال کا تسلی بخش جواب حاصل کرناتھا کہ دورِ حاضر کا سوشل میڈیا "آزادی اظہار" کو یقینی اور برملا بناتے ہوئے معاشروں کو تبدیلی یا انقلاب کی جانب دھکیل رہا ہے یا نہیں۔

میری عاجزانہ رائے میں اس کا جواب نفی میں ہے۔ مختلف تحقیقی مضامین نے بلکہ یہ سمجھایا ہے کہ دورِ حاضر کی ریاست جدید ترین آلات کی مدد سے سوشل میڈیا پر کڑی نگاہ رکھتی ہے۔ اسے غچہ دینا ممکن نہیں۔ رعایا کے ہر فرد پر کڑی نگاہ رکھنے والی ریاست کا ذکر کرتے ہوئے پاکستان میں سوشل میڈیا کی وجہ سے ہوئی "تبدیلی" بھی یاد آگئی جومیری دانست میں بالآخر واہمہ ہی ثابت ہوئی۔ ریاست کا کنٹرول 2022ء کے بعد سے بتدریج توانا سے توانا تر ہورہا ہے۔ پیکا ایکٹ نافذ ہوچکا ہے۔ عدالتیں 26ویں آئین ترمیم میں جکڑی جاچکی ہیں۔

ریاستی طاقت کا ذکر ہوا تو یاد دلانا پڑا کہ جدید ترین آلاتِ جاسوسی کے بغیر بھی برطانوی سامراج سے ورثہ میں ملا ریاستی ڈھانچہ ہمارے ہاں"تبدیلی" یا انقلاب" کی راہ میں بنیادی رکاوٹ رہا ہے۔ اس ڈھانچے کی حقیقی پہچان گہری تحقیق کے بعد 1970ء کی دہائی میں مشہور ماہر سماجیات ومعیشت جناب حمزہ علوی نے کروائی تھی۔ حمزہ صاحب نے اس حوالے سے جو کتاب اور مضامین لکھے ان میں پاکستان کی ریاست کو بلکہ State developed Over بتایا۔ مرتے دم تک وہ اصرار کرتے رہے کہ اس ریاست کے حقیقی خدوخال اور قوت وطاقت کے مراکز کو سمجھے بنا تبدیلی کی کاوشِ فرہاد کی طرح جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

روانی میں محض یادداشت کی بنیاد پر لکھتے ہوئے لیکن حمزہ علی مرحوم کے بجائے "عزیز علوی" لکھ دیا۔ بدھ کی صبح اٹھتے ہی کالم کے عنوان پر نگاہ پڑی تو شرمندگی سے سرپکڑلیا۔ غلطی مگر سرزد ہوچکی تھی۔ اس کا ازالہ فوری طورپر ممکن نہیں تھا۔ جی کو البتہ یہ کہتے ہوئے حوصلہ دینے کی کوشش کی کہ ان دنوں اخبار کتنے لوگ پڑھتے ہیں۔ جو پڑھتے ہیں وہ ریاستی ڈھانچے جیسے خشک موضوعات میں دلچسپی کیوں لیں۔ انہیں شاید حمزہ علی کی خبر بھی نہ ہوگی۔ بستر سے نکل کر اپنے کالم کو مگر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے لئے لیپ ٹاپ کھولا تو میرے ٹویٹر اکائونٹ پر تین سے زیادہ افراد میری غلطی کی نشاندہی کرچکے تھے۔

میں نے ان مہربانوں کی آئی ڈی کو چیک کیا تو وہ میری طرح کے بڈھے نہیں بلکہ 30سے 45سال کے درمیان والی عمر کے افراد محسوس ہوئے۔ ان کی سوشل میڈیا شناخت نے یہ وہم بھی دور کردیا کہ متوسط طبقے کے پاکستانی اب اخباروں میں چھپی باتوں پر توجہ نہیں دیتے۔ میں نے Xپر اپنی غلطی کا دیانتدارانہ شرمساری سے اعتراف کیا۔ اس کے باوجود کافی لوگ میری تصحیح میں مصروف ہیں۔ آج ان کی "ڈانٹ" میرے لئے اطمینان بخش تھی۔

خوشی یہ دریافت کرنے کی وجہ سے ہوئی کہ ہمارے وطن سے سوچنے سمجھنے والے تمام افراد "ہجرت" نہیں کرگئے۔ وہ اخبارات بھی پڑھتے ہیں اور ریاستی ڈھانچے کے بارے میں ہوئے فکری مباحث میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ کالم کے اختتام پر اتفاقاََ یاد یہ بھی آگیا کہ 25ستمبر کو نیشنل نیوز پیپرز ریڈر شپ ڈے کے طورپر منایا جارہا ہے۔ کالم کے آغاز کے وقت اس کے بارے میں لا علم تھا۔ اپنے قارئین کو لہٰذا اس دن کی مناسبت سے عاجزانہ سلام۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali