مثبت صحافت کا تقاضہ
پیر کی صبح اُٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ قومی اسمبلی کے ہال میں گیارہ بجے کے بعد ہماری پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے چنیدہ نمائندہ ں پر مشتمل ایک کمیٹی کا اجلاس ہوگا۔ اسے قومی سلامتی کمیٹی پکارا جاتا ہے۔ حکومت کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کے سرکردہ اراکین بھی اس کے رکن ہیں۔ امید ہے کہ سینئر ترین دفاعی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے حکام اس کمیٹی کو حساس ترین معاملات کے بارے میں ایسی تفصیلات سے آگاہ کریں گے جنہیں میرے اور آپ جیسے کمی کمین اور ریاستی امور سے غافل عوام کے روبرو رکھا نہیں جاسکتا۔
داستان شاید اس برس کی 15اگست سے شروع کرنا ہوگی۔ دودہائیوں تک افغانستان کو بھرپور فوجی قوت اور بے پناہ رقوم کے استعمال سے جدید جمہوری ملک بنانے میں ناکامی کے بعد اس روز امریکہ اور اس کے اتحادی کابل ایئرپورٹ پر موجود طیاروں میں سوار ہوکر فرار ہونا شروع ہوگئے تھے۔ وہ بھاگ گئے تو خلا پیدا ہوا جسے طالبان فاتحانہ انداز میں اقتدار سنبھالنے کے بعد پر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ افغانستان کا قریب ترین ہمسایہ ہوتے ہوئے ہم طالبان کو مستحکم ہوتا دیکھنا چاہ رہے ہیں۔ اس ضمن میں کیوں اور کیسے جیسے سوالات اٹھائے جارہے تھے۔ ان سوالات کے تشفی بخش جوابات غالباََ پیر کے اجلاس میں فراہم کردئیے جائیں گے۔
اپنی اوقات کو بخوبی جانتے ہوئے میں خفیہ رکھی اس بریفنگ کی تفصیلات جاننے کی کوشش نہیں کروں گا۔ عمر کے ساتھ نازل ہوئی کاہلی کے علاوہ میری عدم دلچسپی کا اہم سبب ہمارے میڈیا کو میسر آزادی بھی ہے جو وزیر اعظم صاحب کے بقول برطانیہ جیسے ممالک کے صحافیوں کو بھی آج تک نصیب نہیں ہو پائی ہے۔ عملی صحافت کا آغاز مجھ ایسے فرسودہ شخص نے 1975میں کیا تھا۔ پرواز کے لئے ابھی اپنے پروں کو توانا بناہی رہا تھا تو جنرل ضیاء الحق کا مارشل لگ گیا۔ اس کے دوران خبر اخبار میں چھپنے سے پہلے کلیئرنس کے لئے وزارت اطلاعات بھیجی جاتی تھی۔
اس ضمن میں اڑی دکھاتے صحافی نوکریوں سے فارغ کردئیے جاتے۔ مجھے بھی بے روزگاری کے طویل وقفے برداشت کرنا پڑے۔ آزادیٔ صحافت کی خاطر چند دیوانے اگرچہ ٹکٹکی سے بندھے کوڑے کھانے کو بھی آمادہ ہوگئے۔ ان افراد میں ناصر زیدی نام کا ایک صحافی بھی تھا۔ حال ہی میں لیکن وہ حکومت کی جانب سے بلائے صحافیوں کے ایک اجلاس میں شریک ہوا تو وزیر اطلاعات جناب فواد چودھری صاحب نے اس کی شناخت کی بابت سوال اٹھائے۔ یہ جاننے میں دیر لگائی کہ وہ صحافی ہے۔ مذکورہ اجلاس میں گھس بیٹھیا نہیں۔
جنرل ضیاء کا دور ختم ہوا تو مجھ جیسے صحافی مبینہ طورپر چور اور لٹیروں کو سیاست دان تصور کرنا شروع ہوگئے۔ اکتوبر1999میں اقتدار سنبھالنے کے بعد جنرل مشرف نے ایک بار پھر ہمیں نیک راہ پر چلانا چاہا۔ ان کے نوبرس بھی لیکن کم از کم مجھے پختہ صحافی بنانے میں ناکام رہے۔ بالآخر چوروں اور لٹیروں کے دس سال ختم ہوجانے کے بعد اگست 2018میں عمران خان صاحب برسراقتدارا ٓئے۔ سیاست دانوں سے لفافے لے کر جھوٹی خبریں پھیلانے والے صحافیوں سے انہوں نے میرے پیشے کو آزاد کروادیا ہے۔ سرکار کے دئے ڈیکلیریشن اور پیمرا کے جاری کردہ لائسنس کے ذریعے چھپنے والے اخبارات اور لش پش کرتی سکرینوں کے ذریعے اب مثبت صحافت ہورہی ہے۔
مثبت صحافت کا تقاضہ ہے کہ حساس ترین موضوعات پر خفیہ رکھی بریفنگ میں بیان ہوئی تفصیلات عوام کے روبرو نہ لائی جائیں۔ میں اس تناظر میں ذمہ دار رہنے کا عہد باندھے ہوئے ہوں۔ ربّ کریم مجھے اس پر ڈٹے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جھکی ذہن کو مگر ایک سوال پریشان کئے جارہا ہے اور وہ یہ کہ جو بریفنگ ہونا ہے اس میں وزیر اعظم صاحب خود بھی تشریف لائیں گے یا نہیں۔
ابھی تک قومی سلامتی کے نام پر اراکین پارلیمان کی جو بریفنگ ہوئی ہیں ان میں عمران خان صاحب نے کبھی شرکت گوارہ نہیں کی۔ اقتدار میں آنے سے قبل ہی انہیں ہمارے سپریم کورٹ نے صادق وامین قرار دیا تھا۔ ان کے برعکس اپوزیشن جماعتوں کے جو سرکردہ رہ نما ان دنوں کی پارلیمان میں بیٹھے ہیں ان کی کافی تعداد نیب کے تحت چلائے مقدمات کا سامنا کررہی ہے۔ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد شہباز شریف بھی ایسے ملزموں میں شامل ہیں۔ عمران خان صاحب کی اصول پسند شخصیت کو سنگین مالی جرائم کے الزامات میں ملوث سیاست دانوں کے ساتھ ریاستی امور سے مشاورت کے نام پر ہوئے اجلاسوں میں بیٹھنا منافقانہ محسوس ہوتا ہے۔
ہمارے قانون کا تقاضہ تھا کہ موجودہ چیئرمین نیب کی معیادِ ملازمت ختم ہونے سے قبل وہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سے مشاورت کے بعد نئے چیئرمین کا انتخاب کرلیتے۔ شہباز شریف سے مشاورت کے بجائے مگر انہوں نے مذکورہ قانون ہی تبدیل کردیا۔ مشاورت کا بوجھ اب صدر پاکستان نے اٹھانا ہے۔ سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ جس شخص سے وزیر اعظم صاحب خود ہاتھ ملانا بھی گوارہ نہیں کرتے اس سے تحریک انصاف کی صفوں سے ایوان صدر گئے ڈاکٹر عارف علوی بھی مشاورت کیوں کریں۔
وزیر اعظم صاحب کے اصولی مؤقف کو نگاہ میں رکھیں تو سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ جن لوگوں سے عمران خان صاحب ریاست کے عمومی امور کے بارے میں بھی گفتگو کرنا پسند نہیں کرتے انہیں قومی سلامتی سے جڑے حساس معاملات کے بارے میں اعلیٰ ترین ریاستی اداروں کی جانب سے دی بریفنگ میں کیوں مدعو کیا جاتا ہے۔ یہ سوال مگر شہباز شریف یا بلاول بھٹو زرداری کو اٹھانا چاہیے۔ وہ اس کے بارے میں فکر مند نہیں تو میں دو ٹکے کا صحافی اس کے بارے میں فکر مند کیوں ہوں۔