Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Media Par Nazar Andaz Hui IMF Ki Report

Media Par Nazar Andaz Hui IMF Ki Report

میڈیا پر نظر انداز ہوئی آئی ایم ایف کی رپورٹ

میری جھکی نگاہ سے دیکھیں تو عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے نگہبان آئی ایم ایف نے اپنے جیسے دوسرے نگہبان یعنی ورلڈ بینک کے ساتھ مل کر پاکستان کی معیشت کے بارے میں جو رپورٹ تیار کی ہے اس میں کچھ بھی نیا نہیں۔ ایک حوالے سے یہ اوون بینٹ جونز کی دی اکانومسٹ کے گپ شپ والے ضمیمہ کے لئے لکھی اس طویل کہانی کے مطابق ہے جو گزشتہ ہفتے ہمارے ریگولر اور سوشل میڈیا پر لامتناہی بحث کا سبب رہی۔ اس میں بیان کردہ "سنسنی خیز" سچے اور جھوٹے واقعات سے ہم پہلے ہی سے آگاہ تھے۔

آئی ایم ایف کی تیار کردہ رپورٹ نے البتہ اپنے "خشک" موضوع کی وجہ سے سوشل میڈیا کے علامتی ہجوم میں جادو ٹونے والی کہانیوں جیسی مقبولیت حاصل نہیں کی ہے۔ اس کے اخبارات میں چھپے محض چند اقتباسات کو ہمارے سیاسی فریقین نے اپنی پسند اورترجیح کے مطابق اجاگر کیا۔ اس کے بعد معاملہ ٹھس ہوا نظر آرہا ہے۔

جو رپورٹ شائع ہوئی ہے وہ 186صفحات پر مشتمل ہے۔ میں یہ اصرار کرنے کو مجبور ہوں کہ اس کے بارے میں نتھنے پھلاکر فریق مخالف کی لعن طعن کرنے والوں کی اکثریت نے آئی ایم ایف کی ویب سائٹس پر جاکر ان صفحات کو ڈائون لوڈ کرلینے کے بعد نہایت توجہ سے نہیں پڑھا ہے۔ اسی باعث حکومت مخالف عناصر یہ الزام دہرائے چلے جارہے ہیں کہ مذکورہ رپورٹ نے شہباز حکومت پر 5کھرب روپے سے زیادہ کرپشن کا الزام لگایا ہے۔ شہباز حکومت فرشتوں پر مشتمل نہیں ہوگی۔ جس خطیر رقم کا مگر رپورٹ میں ذکر ہوا ہے وہ گزشتہ دو مالیاتی سالوں کے دوران کرپشن پر نگاہ رکھنے والے ادارے -نیب- نے اپنی زد میں آئے ملزمان/مجرمان سے بازیاب کی ہے۔ مذکورہ رقم کا تذکرہ "دیگ کے ایک دانے"کی طرح ہوا ہے۔ مقصد لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ اگر دو مالیاتی برسوں میں اتنی خطیر رقم کا سراغ لگاکر بازیاب کروایا جاسکتا ہے تو ہمیں سوچنا ہوگا کہ گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے ہاں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کرپشن کی بدولت خیرہ کن رقم کی کتنی مالیت بدعنوان طبقات نے اپنے لئے خفیہ طورپر ہتھیالی ہوگی۔

طویل صفحات پر مشتمل رپورٹ تیار ہو تو اسے عوام کے روبرو لانے سے قبل اس کی تلخیص مصروف اور بڑے لوگوں کے لئے "ایگزیکٹو سمری" کے نام سے تیار کی جاتی ہے۔ آئی ایم ایف کی جس رپورٹ کا ذکر ہوا ہے اس کی تلخیص کے پہلے پیرے ہی میں یہ اطلاع دی گئی ہے کہ پاکستان جب اپنی معیشت کو سنبھالادینے کے لئے آئی ایم ایف سے 7ارب ڈالر سے زائد مالیت کا پیکیج لینے کا طلب گار ہوا تو اس کی حکومت نے عالمی معیشت کے نگہبان ادارے سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ ماہرین کی مدد سے یہ پتہ بھی لگائے کہ ہمارے نظام حکومت کو کیا مسائل درپیش ہیں اور ہمارے ہاں کرپشن کی "تشخیص" کی کوئی صورت موجود ہے یا نہیں۔ آئی ایم ایف سے ہماری حکومت نے مگرایسے مریض کی طرح رجوع کیا تھا جو مختلف بیماریوں کا شکار ہونے کے باوجود یہ طے کرنے کے قابل نہیں تھا کہ اسے کونسے امراض لاحق ہیں۔

سٹی سکین اور ایم آر آئی لہٰذا استعمال ہوئے۔ دوبار آئی ایم ایف کا وفد "مریض" کی براہِ راست تشخیص کے لئے پاکستان بھی آیا۔ بالآخر8 مہینوں کی محنت کے بعد جو رپورٹ تیار ہوئی اسے ستمبر کے مہینے میں عوام کے روبرو لے آیا جانا چاہیے تھا۔ ہماری حکومت مگراسے میرے اور آپ جیسے ذلت کے مارے لوگوں کے لئے شائع کرنے کو تیار نہیں تھی۔ حکومت کا اس تناظر میں رویہ ایسے ہی تھا جیسے میں خدانخواستہ مختلف فرائض کے خوف سے گھبراکر اپنا خون ٹیسٹ، سٹی سکین اور ایم آر آئی کرواؤں۔ ان کے نتیجے میں یہ پیغام مل جائے کہ میں کسی موذی مرض کا شکار ہوں کہ اپنے علاج پردوستوں اور قریبی عزیزوں کی مدد سے توجہ دینے کے بجائے "سب اچھا" کی دکھانے کی حماقت کا ارتکاب کروں۔

"دنیا کیا کہے گی؟" کے خوف سے آئی ایم ایف کی رپورٹ کو دبا دیا گیا۔ آئی ایم ایف اس کو پبلک کرنے پر زور دیتا رہا۔ ہم نظرانداز کرتے رہے تو بہت ہی مہذب انداز میں ہمیں دھمکی دی گئی کہ اگر کرپشن اور نظام حکومت کی خامیوں کے بارے میں آئی ایم ایف کی تیار کردہ رپورٹ عوام کے سامنے نہ لائی گئی تو دسمبر میں پاکستان کو 7 ارب ڈالر کے پیکیج سے وابستہ 1 ارب 20 ملین ڈالر کی قسط ادا نہیں کی جائے گی۔ مذکورہ دھمکی کے باوجود ہمارے کئی نابغوں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ساتھ اپنے پرانے رشتوں کو بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ اسلام آباد کے باخبر حلقے دعویٰ کررہے ہیں کہ جو رپورٹ چھپی ہے اس کا کم از کم ایک چوتھائی حصہ شائع نہ کرنے کیلئے عالمی اداروں کو قائل کر دیا گیا۔ بالآخر جو سامنے آیا وہ اصل رپورٹ کا 3/4 حصہ ہے۔

غصے بھرے دل سے حکومتوں اور اس سے متعلق افراد کی ملامت ہم بدنصیبوں کا مقدر ہے۔ مذکورہ رپورٹ کی تفصیلات اس کے باوجود روایتی میڈیا کو قسط وار چھاپنا چاہیے۔ وہ مکمل صورت میں عوام کے سامنے آئیں گی تو عوام جان پائیں گے کہ کم از کم 2005ء سے ہماری ہر حکومت خواہ جنرل مشرف کے سائے تلے کھڑی شوکت عزیز کی حکومت ہو یا اس کے بعد آئی "جمہوری" حکومتیں اپنا اقتدار واختیار بتدریج عوام کے سپرد کرنے کے بجائے اشرافیہ کے چند خصوصی طبقات کے حوالے کرتی رہی ہیں۔ اس ضمن میں سرکار کے تحت چلائے معاشی اور صنعتی اداروں نے اجارہ داروں جیسی قوت اختیار کرلی ہے۔

نجی شعبہ ان کی مسابقت کے قابل ہی نہیں رہا۔ نجی شعبے نے لیکن جب موقعہ ملا تو خود کو دیگر سرمایہ داروں کے چند گروپوں کے ساتھ مل کر اپنے حصے میں آئے شعبوں میں اجارہ داری قائم کرلی۔ "شوگر کارٹل" کا اس ضمن میں آئی ایم ایف کی رپورٹ میں خصوصی ذکر ہوا ہے۔ گنے کی قیمت کے تعین سے لے کر اسے کسانوں سے خریدنے کے لئے اختیار کردہ "ہوشیاری" کے علاوہ کئی برسوں سے یہ بھی معمول بن چکا ہے کہ "اچانک" شوگر ملیں یہ دہائی مچانا شروع ہوجاتی ہے کہ ان کے ہاں بازار کی ضرورت پورا کردینے کے بعد بھی فاضل جنس کے انبار جمع ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ "غیر ملکی زرمبادلہ" کو ہمیشہ تڑپتے پاکستان کی مدد کے لئے لہٰذا انہیں چینی برآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔

حکومتیں سو طرح کے "نخرے" دکھانے کے بعد بالآخر شوگر ملوں کو چینی برآمد کرنے کی اجازت دے دیتی ہیں۔ چینی برآمد ہونے کے چند ہی ہفتوں بعد لیکن پاکستانی منڈی میں چینی کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں۔ چینی پیداوار کرنے والے کارٹل کے اکثر اراکین 2005ء سے قائم پاکستان کی تقریباََ ہر حکومت میں اہم ترین عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ خود ہی "وکیل، منصف اور مدعی" بنا پاکستان کا "شوگر کارٹل" آئی ایم ایف رپورٹ میں ایک اہم ترین مثال کی صورت پیش کیا گیا ہے۔ شوگر کارٹل کے چہروں پر میں اس کے باوجود شرمندگی کے آثار تک دیکھتا نظر نہیں آرہا۔

افتخار چودھری کی آصف زرداری کی سابقہ حکومت میں اپنے منصب پر بحالی کے حوالے کے بعد عدلیہ منتخب وزرائے اعظموں کو کرپشن کے الزامات کے تحت گھر اور جیل بھیجتے ہوئے ہم سادہ لوح افراد کو "ستی ساوتری" نظر آیا کرتی تھی۔ اسی باعث ہم صحافیوں کی اکثریت اس مبینہ لگام سے خود کو ناخوش محسوس کرتی ہے جو موجودہ حکومت نے 26ویں اور 27ویں ترمیم کے ذریعے عدلیہ کی آزادی کو مبینہ طور پر "سلب" کرنے کے لئے تیار کی ہے۔ آئی ایم ایف رپورٹ مگر کسی استثناء کا ذکر کئے بغیر عدلیہ کی بحیثیت ادارہ مذمت کرتی سنائی دیتی ہے۔ اس کی نگاہ میں لوگوں کو انصاف فراہم کرنے کے بجائے عدلیہ خود اندرونی کرپشن کا شکار ہونے کے علاوہ کھوکھلی بھی ہوچکی ہے۔ مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی اکثریت نے آئی ایم ایف سے گفتگو کرتے ہوئے اصرار کیا ہے کہ موجودہ عدالتی نظام کے ہوتے ہوئے وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے قبل سوبار سوچیں گے۔

مختصر الفاظ میں آئی ایم ایف کی رپورٹ ہمیں امید کی تھپکیاں دے کر سلانے کی بجائے خواب غفلت سے جگانے کی ایک کوشش ہے۔ یہ کوشش مگر سوشل میڈیا پر چسکہ فروشوں کے ہتھے چڑھ کر اپنی اہمیت کھوبیٹھی ہے۔ کاش مذکورہ رپورٹ کو روایتی میڈیا نے سنجیدہ انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہوتی۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam