Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Marhoom Adeel Akbar Ki Maut Se Sabaq Seekhne Ki Zaroorat

Marhoom Adeel Akbar Ki Maut Se Sabaq Seekhne Ki Zaroorat

مرحوم عدیل اکبر کی موت سے سبق سیکھنے کی ضرورت

اسلام آباد پولیس کے جو افسر چند روز قبل فوت ہوئے ہیں میں ان سے ایک بار بھی نہیں ملا۔ صحافت کے ابتدائی دنوں میں بہت چائو سے کرائم رپورٹ کرتا تھا۔ اس کی بدولت کئی پولیس افسران سے روزانہ کی بنیاد پر ملاقاتیں ہوتیں۔ اسلام آباد اُن دنوں واقعتا"کرائم فری" شہر تھا۔ 1976کے برس اس کے ایف6 سیکٹر سے ایف سیون تک جانے کے لئے آپ ٹیکسی پر انحصار کو مجبور ہوتے۔ "فقرا" ہونے کے ناطے میں البتہ ویگن سے اتر کر پیدل ہی ایف سیون کی جانب چلنا شروع ہوجاتا جہاں ایک گھر کا نچلا حصہ کرایے پر لے رکھا تھا۔ تقریباََ آدھے گھنٹے کے اس سفر میں فقط جانوروں کے غول کے سوا کسی اور شے سے کوئی خطرہ محسوس نہ ہوتا۔

1990کی دہائی سے بتدریج یہ شہر مگر پھیلنا شروع ہوا تو ہائوسنگ سوسائٹیز کی بدولت قبضہ گیروں پر مشتمل مافیا بھی وجود میں آنے لگے۔ اس کے علاوہ سنگین جرائم میں مطلوب پاکستان کے تقریباََ ہر شہر سے خطرناک مجرمان اس شہر کے دور دراز علاقوں میں واقع "فارم ہائوسز" میں قیام پذیر ہونے لگے۔ 2014سے یہاں سیاسی دھرنوں کا رواج بھی شروع ہوگیا جس کی بدولت اکثر یہ شہر سیاسی لشکروں کی یلغار کے نرغے میں رہتا ہے۔

1990کی دہائی سے بتدریج نمودار ہوئی تبدیلیوں کی وجہ سے اسلام آباد پولیس اب مستقل حکمرانوں کے دبائو تلے رہتی ہے۔ کئی وجوہات کی وجہ سے لہٰذا اسلام آباد کو پولیس افسران کی تعیناتی کے حوالے سے "ہارڈاسٹیشن" پکارا جاسکتا ہے۔ حال ہی میں بلوچستان سے اسلام آباد ٹرانسفر ہوئے مرحوم عدیل اکبر کے بارے میں لہٰذا یہ فرض کرلینے میں لوگوں نے عجلت دکھائی کہ وہ بلوچستان میں "ہارڈ" ڈیوٹی سرانجام دینے کے بعد اسلام آباد میں بھی ذہنی دبائو کی زد میں تھے۔ اس سے نجات پانے کے لئے خود کشی کو مجبور ہوئے۔

روایتی صحافت کو خبر دینے سے پہلے ذمہ دار ذرائع سے مصدقہ معلومات درکار ہوتی ہیں۔ ان کا حصول وقت کا تقاضہ کرتا ہے۔ سوشل میڈیا مگر ایسی قدغنوں سے آزاد ہے۔ اس کی بدولت فوراََ یہ خبر پھیل گئی کہ موصوف اپنی جان لینے سے قبل ٹیلی فون پر کسی سینئر ترین افسر سے گفتگو کررہے تھے۔ مرحوم کے بارے میں یہ بات بھی پھیلائی گئی کہ وہ خود کو ڈینگی کا مریض تصور کررہے تھے اور اس سے صحت یاب ہونے کے لئے چھٹی کے طلب گار تھے۔ ان کے سینئر افسر نے چھٹی فراہم کرنے سے انکار کردیا اور وہ اپنی جان لینے کی حد تک مشتعل ہوگئے۔ یہ دعویٰ اگرچہ سچا ثابت نہیں ہوا۔ سوشل میڈیا پر لیکن ایسی خبریں فی الفور "مصدقہ" مان لی جاتی ہیں جو حکومت کے کسی نہ کسی سینئر افسر یا وزیر کو "ویلن" کے طورپر پیش کریں۔ لوگوں کے دلوں میں ہمارے نظام حکمرانی کے خلاف برسوں سے ابلتا ہوا غصہ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی خبروں کو فی الفور "مصدقہ" بنادیتا ہے۔

روایتی میڈیا نے اس رحجان کا پیشہ وارانہ انداز میں مقابلہ کرنے کے بجائے ہاتھ اٹھا کر اپنی شکست کا اعلان کررکھا ہے۔ صحافت کو عشق کی طرح اپنانے کی وجہ سے میں شکست خوردگی کے اظہار سے بہت شرمندہ محسوس کرنا شروع ہوگیا ہوں۔ کاش نوجوانی کی توانائی کی کچھ رمک باقی رہ گئی ہوتی تو پوری لگن سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا کہ روایتی میڈیا ہی وقت اور ایڈیٹرز کی چھلنیوں سے گزرنے کے بعد آپ کو مصدقہ خبریں فراہم کرسکتا ہے۔ اس حوالے سے اگرچہ میں ان "علاقوں" کے بارے میں بڑھک لگانے سے گریز کروں گا جنہیں ہماری ریاست نے "حساس" قرار دے کر دو ٹکے کے رپورٹروں کے لئے ممنوعہ بنادیا ہے۔

ہمارے سینئر ہمیشہ خبروں کے Follow Up(فالواپ) پر زور دیتے رہے۔ اس کے بغیر اہم ترین خبر لمحاتی طورپر سنسنی پھیلانے کے بعد "رات گئی بات گئی" کی طر ح لوگوں کے ذہنوں سے نکل جاتی ہے۔ عدیل اکبر مرحوم کے بارے میں اب تک اخباروں میں جو چھپا ہے اس کا بغور جائزہ لینے کے بعد یہ کہاجاسکتا ہے کہ وہ ایک ذہین ترین طالب علم رہے ہوں گے جنہوں نے مقابلے کے امتحان میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے کے بعد پولیس میں شمولیت اختیار کی۔ کہا جارہا ہے کہ ان کی بیوہ بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر ہیں اور ان دونوں کی ایک چار سالہ بچی ہے۔ مرحوم کے بارے میں یہ علم بھی ہوا کہ وہ فل برائٹ سکالر شپ کے لئے چند ہفتوں بعد امریکہ جانے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔

سوشل میڈیا کے ذریعے کہانی البتہ یہ پھیلی ہے کہ مرحوم مبینہ طور پر افسردگی اور مایوسی کے مسائل سے بھی دو چار تھے۔ ذہنی صحت کے مسائل کے حل کیلئے انہوں نے ایک نفسیاتی معالج سے بھی رجوع کیا تھا جنہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ وہ خودکش سوچ کے دبائو میں آسکتے ہیں۔ ذہنی دبائو کو ہمارے ہاں تسلیم کرنا باعث شرم شمار ہوتا ہے۔ ہم آج تک لوگوں کو سمجھا نہیں پائے ہیں کہ ذہنی دبائو یا نفسیاتی مسائل "پاگل پن" نہیں۔ یہ ویسے ہی قابل علاج امراض ہیں جو "جسم "کو لاحق ہوجاتے ہیں۔ امریکہ میں تقریباََ ہر چوتھا شخص زندگی میں کئی بار نفسیاتی معا لجین سے رجوع کرنے کو مجبور پاتا ہے۔

مرحوم عدیل اکبر اگر ذہنی دبائو کا شکار تھے تو مبینہ طورپر اس کی تشخیص ہوجانے کے بعد انہیں ایکٹو ڈیوٹی سے ہٹاکر کچھ دنوں کی رخصت دے کر علاج پر توجہ دینے کو اکسانا ضروری تھا۔ ذہنی دبائو اور مایوسی کا بچپن سے شکار ہوا شخص مگر نہایت لگن اورمحنت سے مقابلے کا امتحان قابل رشک انداز میں پاس کرنے کے بعد پولیس میں نہیں جاتا۔ پولیس میں شمولیت کے بعد مزید ترقی کی خواہش میں فل برائٹ سکالر شپ کے لئے تگ ودو بلکہ یہ عندیہ دیتی ہے کہ وہ زندگی اور اپنے پیشے سے پیار کرتے تھے۔

ہوسکتا ہے کہ زندگی سے پیار کرنے والا عدیل اکبر بلوچستان میں "ہارڈ ڈیوٹی" دینے کے دوران افسردگی کی لپیٹ میں آگیا ہو۔ ایک اخبار میں دعویٰ ہوا ہے کہ بلوچستان سے اسلام آباد ٹرانسفر ہونے کے بعد وہ اکثر خود کو "خطرے" میں محسوس کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ بلوچستان میں تعیناتی کے دوران وہ دہشت گردی کے خلاف نمایاں انداز میں اپنے فرائض سرانجام دیتے ر ہے ہوںگے۔ اس کی وجہ سے ان کے ذہن میں شاید یہ خدشہ براجمان ہوگیا کہ جن گروہوں کو وہ قانون کی زد میں لائے وہ ان سے اسلام آباد پہنچ کر "بدلہ" لینا چاہیں گے۔

پاکستان کے حکمران گزشتہ چند مہینوں سے وطن عزیز کو "ہارڈ اسٹیٹ" بنانا چاہ رہے ہیں۔ "ہارڈ اسٹیٹ" کی اصل تعریف کیا ہے اس کے بارے میں متفقہ رائے ڈھونڈنا دشوار ہے۔ "ہارڈ" اور "سافٹ" کی بحث میں الجھے بغیر مگر ہمیں یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ پولیس کی کمانڈ دن بدن "ہارڈ" سے "ہارڈتر" حالات کا سامنا کررہی ہے۔ یہ پولیس افسران کو مسلسل ذہنی تنائو کے عالم میں رکھ رہی ہوگی۔ پولیس افسران کے ذہنی تنائو سے نبردآزما ہونے کے لئے ایک واضح حکمت عملی درکار ہے۔

اعلیٰ تعلیم یافتہ اور نہایت تجربہ کار ماہرینِ نفسیات پر مشتمل ایک بورڈ کا فی الفور قیام اشد ضروری ہے۔ پولیس ا فسران کو ہر سال یا دو سال کے بعد اس کے تیار کردہ امتحانوں سے گزرنا لازمی قرار دینا ہوگا۔ ذہنی دبائو تلے آئے افسروں کو فارغ کرنے کے بجائے ایسے انتظام کی ضرورت ہے جو نہایت توجہ سے انہیں "نارمل" حالات میں واپس لائے۔ ایسا نہ ہوا تو "ہارڈ" فرائض سرانجام دیتے افسر اپنی ذات ہی کے لئے نہیں بلکہ معاشرے کے لئے بھی خطرناک ہوسکتے ہیں۔ وہ مجرمان کو سزائیں دلوانے کے بجائے ان کی اذیت سے لطف اٹھانا شروع ہوسکتے ہیں۔

مرحوم عدیل اکبر کی موت کی وجوہات کا تعین کرنے کے لئے تین ڈپٹی انسپکٹرجنرل پولیس پر مبنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ امید ہے کہ یہ کالم چھپنے کے دن اس کی رپورٹ تیار ہوجائے گی۔ اسلام آباد پولیس کی ساکھ برقرار رکھنے کیلئے لازمی ہے کہ تیار شدہ رپورٹ کو فی الفور بغیر کسی ردوبدل کے عوام کے روبرو پیش کردیا جائے۔ عدیل اکبر جیسے ذہین وجیہ پولیس افسر کو واپس تو نہیں لایا جاسکتا ہے۔ ان کی موت سے لیکن پولیس سروس کے لئے بھی چند اہم سبق سیکھے جاسکتے ہیں۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan