Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Lahore Ke Zimni Intikhab Se Tehreek e Insaf Ki Bemani La Taluqi

Lahore Ke Zimni Intikhab Se Tehreek e Insaf Ki Bemani La Taluqi

لاہور کے ضمنی انتخاب سے تحریک انصاف کی بے معنی لا تعلقی

بدھ کی رات نیند کے آگے ڈھیر ہونے سے قبل میں نے اس کالم کے لئے کوئی اور موضوع سوچا تھا۔ جمعرات کی صبح قلم اٹھانے سے پہلے گھر آئے اخبارات کے پلندے پر نگاہ ڈالی تو ایک سوال نے گمراہ کردیا۔ میرا خیال تھا کہ غالباََ اتوار کے روز قومی اسمبلی کی تحریک انصاف کے چند رہ نمائوں کو سنائی سزائوں کی وجہ سے خالی ہوئی نشستوں پر انتخاب ہونا ہیں۔ جو انتخاب متوقع ہیں ان میں سے پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی کم از کم چار نشستوں پر ہوئے انتخاب کے نتائج اہم سیاسی پیغامات کے حامل ہوسکتے ہیں۔

فقط لاہور ہی میں میاں اظہر مرحوم کی رحلت کی وجہ سے ہونے والا ضمنی انتخاب صحافتی توجہ کا تقاضہ کرتا ہے۔ کسی بھی اردو یا انگریزی اخبار میں تاہم اب تک کوئی ایسا تفصیلی مضمون دیکھنے کو نہیں ملا جو آگاہ کرے کہ میرے آبائی شہر کے ایک اہم حلقے میں آرائیں برادری کے ستون تصور ہوتے میاں اظہر صاحب کی وفات کے بعد ان کے حلقے کے لوگوں میں کیا جذبات پائے جارہے ہیں۔

لاہور شہر کے تقریباََ قلب میں واقع قومی اسمبلی کے ایک حلقے کے بارے میں صحافتی بے اعتنائی یہ سوچنے کو مجبور کررہی ہے کہ فقط مذکورہ حلقے ہی میں نہیں بلکہ پنجاب کے علاوہ خیبرپختونخواہ کے اکثریتی علاقوں میں بھی خلق خدا انتخابی عمل سے لاتعلق ہوچکی ہے۔ میرا مفروضہ درست ہے تو یہ ہماری ہائی برڈ کہلاتی جمہوریت کے لئے اچھی خبر نہیں۔ کلیدی پیغام یہ دیتی ہے کہ خلق خدا کی اکثریت موجودہ حکومتی بندوبست میں خود کو شریک محسوس نہیں کررہی۔ اس کی نظر میں یہ بندوبست فقط حکمران اشرافیہ کے مابین طاقت واختیار کی تقسیم پر مبنی ہے۔ میرے اور آپ جیسے دیہاڑی داروں اور سفید پوشوں کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔

ضمنی انتخابات کے بارے میں ہماری جمہوریت کے "ہائی برڈ" ہوجانے سے کئی برس قبل ہی یہ تاثر پھیل چکا تھا کہ انہیں عموماََ برسراقتدار جماعت کے نامزد کردہ افراد ہی جیت لیتے ہیں۔ یہ تاثر عملی زندگی میں اکثر درست بھی ثابت ہوا۔ چند ضمنی انتخابات اس کے باوجود ایسے بھی ہوئے جو ہماری سیاسی تاریخ میں سنگ میل ثابت ہوئے۔ 1970ء کی دہائی کا آغاز ہوتے ہی جب سقوط ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو ان کے خلاف اپوزیشن تتربتر تھی۔ ان کی اپنی ہی جماعت سے تاریخی اکثریت کیساتھ فیصل آباد سے قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے مختار رانا مگر "انقلابی" ہوگئے۔ انہیں گرفتاری کے بعد قومی اسمبلی کی رکنیت کے لئے نااہل کردیا گیا تو خالی ہوئی نشست پر ضمنی انتخاب ہوا۔ اپوزیشن کی بکھری جماعتوں نے یکسو ہوکر ان کی بہن کو اس نشست کے لئے بطور امیدوار کھڑا کردیا۔ انتخابی مہم میں اس کی بدولت جان پڑگئی۔ پیپلز پارٹی کو یہ نشست جیتنے کے لئے دن رات ایک کرنا پڑے۔

لاہور میں ایک ضمنی انتخاب ذوالفقار علی بھٹو ہی کی حکومت کے دوران پنجاب اسمبلی کی خالی ہوئی نشست پر بھی ہوا تھا۔ کسی زمانے میں بھٹو کے "جانشین ٹھہرائے" شیر پنجاب غلام مصطفیٰ کھر اپنے قائد سے ناراض ہوکر اس نشست پر اپوزیشن کے امیدوار بن کر کھڑے ہوگئے۔ انتخابی مہم کے دوران ہوئے ان کے ایک جلسے میں مبینہ طورپر سانپ چھوڑدئیے گئے۔ ان میں سے ایک سانپ کا سرمصطفیٰ کھرنے سٹیج پر کھڑے ہوکر اپنے ہاتھوں میں دبوچتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کو "تنبیہی پیغام" دیا۔ اس پیغام کی حدت اتنی شدید تھی کہ بطور وزیر اعظم بھٹو صاحب کو اس کا اثر زائل کرنے کے لئے قوم سے براہ راست خطاب کرنا پڑا۔

ہماری سیاسی تاریخ کا سنگ میل ہوئے ضمنی انتخابات کے کامل ذکرکے لئے کالم نہیں کتاب لکھنے کی ضرورت ہے۔ فی الوقت اصرار محض یہ کرنا ہے کہ بسااوقات صرف ایک ضمنی انتخاب کائی زدہ سیاسی جمود میں ارتعاش کا سبب بنتے ہوئے معاشرے کو متحرک بنادیتا ہے۔ میاں اظہر مرحوم کی رحلت کے باعث خالی ہوئی لاہور کی قومی اسمبلی کی نشست پر ہونے والا انتخاب اگر دلجمعی سے لڑا جاتا تو ایک حوالے سے یہ پیغام بھی دیتا کہ پنجاب کے دارالحکومت کے قلب میں واقعہ حلقے کے لوگ فروری 2024ء کے انتخاب کے بعد قائم ہوئی صوبائی حکومت کے بارے میں کیا محسوس کررہے ہیں۔

مذکورہ انتخاب کو "ریفرنڈم" کی صورت دینا اصولی طورپر تحریک انصاف کی ذمہ داری تھی۔ وہ اپوزیشن کی سب سے بڑی اور مقبول جماعت ہونے کے باوجود اس انتخاب میں خاطرخواہ دلچسپی لیتی نظر نہیں آرہی۔ عاشقان عمران کی تمام تر توانائی ان دنوں سوشل میڈیا پر ان "بکائو" صحافی اور اینکر خواتین وحضرات کی ملامت میں مصروف ہے جو ان کی دانست میں برطانوی جریدے میں چھپی جادو ٹونے والی کہانی کو دہراتے ہوئے ان کے قائد کی "باپردہ اور گھریلو خاتون" کی کردار کشی میں مصروف ہیں۔ انہیں یہ گلہ بھی ہے کہ بانی تحریک انصاف کی بہنوں کیساتھ اڈیالہ جیل کے باہر پولیس کی جانب سے اپنایا رویہ بھی نام نہاد "آزاد اور اصول پسند" صحافیوں کی توجہ حاصل نہیں کرپایا۔

سوشل میڈیا پر لعنت ملامت زمین پر سیاسی حرکیات کا متبادل ہونہیں سکتیں۔ تحریک انصاف کی قیادت اگر میاں اظہر مرحوم کی رحلت کی وجہ سے خالی ہوئے حلقے میں انتخابی مہم کے لئے متحرک ہوجاتی۔ صحافی اسے نظرانداز کردیتے تب بھی زمین پر کافی رونق لگائی جاسکتی تھی۔ اس "رونق" کا بھرپور اظہار سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارموں پر بھی ہوتا اور یوں سیاسی جمود پگھلتا نظر آتا۔ تحریک انصاف کے مقامی کارکنوں کو "ہدف" مل جاتا تو وہ پاکستان کے دیگر شہروں سے اپنے ساتھیوں کوبھی اسی حلقے میں متحرک ہونے کو اُکساسکتے تھے۔

ضمنی انتخابات میں دلجمعی سے حصہ لینے کو اُکساتے مذکورہ بالا دلائل پڑھتے ہوئے تحریک انصاف کے دلدادہ کارکنوں کی اکثریت فروری 2024ء کی یاد دلاتے ہوئے "عقل کل" کا مکو ٹھپ سکتی ہے۔ اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ تحریک انصاف کے ووٹر تمام تر دشواریوں کے باوجود فروری 2024ء کے عام انتخابات کے دوران اس جماعت کے نامزد کردہ "آزاد" امیدواروں کو کامیاب کروانے حیران کن انداز میں گھروں سے باہر نکل آئے تھے۔ مطلوبہ نتائج مگر حاصل نہ کرپائے۔ سیاسی عمل تاہم ایک لڑائی میں ہار اور جیت کے بعد ختم نہیں ہوتا۔ سیاست اپنے اہداف کے حصول کے لئے ایک طویل جنگ لڑنے کا نام ہے جس میں بارہا شکست کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ فقط ایک تجربے سے ہمت ہار کر گھر بیٹھ جانا شکست خوردہ ذہنیت کا اظہار ہے۔ یہ کسی بھی سیاسی جماعت کی توانائی برقرار نہیں رکھ سکتی۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz