اسلام آباد ٹریفک پولیس کا شکریہ

جنوبی ایشیا ہی نہیں دور دراز لاطینی امریکا کے چند معاملات کے بارے میں بھی تازہ ترین، پر تبصرہ آرائی آپ نے اس کالم میں اکثر پڑھی ہوگی۔ نہایت ڈھٹائی سے سارے جہان پر نگاہ رکھنے کے دعوے دار کا اپنا عالم مگر یہ ہے کہ آج سے فقط 8دن قبل تک مجھے یہ علم ہی نہ تھا کہ اسلام آباد کی ٹریفک پولیس یکم اکتوبر2025ء سے ایک بہت بڑے آپریشن کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ اس دن سے شہر کے مختلف مقامات پر ناکے لگاکر کار اور موٹرسائیکل سواروں سے ان کے لائسنس طلب کیے جائیں گے۔ بغیر لائسنس کے گاڑی یا موٹر سائیکل چلانے والے کو فی الفور بھاری جرمانہ عائد کرنا ہوگا۔ عدم ادائیگی کی صورت جیل جانا پڑے گا۔ اس کے بعد بذریعہ وکیل ضمانت کا بندوبست وگرنہ۔۔
خبروں کی تلاش میں دربدری کی کیفیت بھگتنے کے علاوہ دن کے کئی گھنٹے موبائل فون کھول کر ٹویٹر وغیرہ کی بدولت بھی آپ ڈیٹ رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔ یکم اکتوبر2025ء سے مگر اسلام آباد میں جو ہونے والا ہے اس کے بارے میں قطعاً لاعلم تھا۔ مزید شرمندگی یہ اعتراف کرتے ہوئے بھی محسوس کررہا ہوں کہ مجھے اسلام آباد ٹریفک پولیس کے فیصلے کا ہرگز علم نہ ہوتا اگر میرے ایک صحافتی کولیگ کا سرِراہ پولیس سے واسطہ نہ پڑتا۔ غالباً انھیں ٹریفک کے کسی اصول کی پامالی پر روکا گیا تو لائسنس کی پڑتال ہوئی اور دریافت یہ ہوا کہ اسے ایکسپائر ہوئے دس سے زیادہ برس گزرچکے ہیں۔
ٹریفک کے اصول کی خلاف ورزی پر بھاری بھر کم جرمانے کی چٹ لیتے ہوئے انھیں اطلاع یہ بھی ملی یکم اکتوبر کے بعد سے انھیں ہر اس برس کا بھاری جرمانہ ادا کرنا ہوگا جس کے دوران وہ اپنے لائسنس کی تجدید کروائے بغیر دھڑلے سے اسلام آباد کی سڑکوں پر گاڑی چلاتے رہے۔ جرمانے کی جو رقم بتائی گئی تھی اس کا حساب لگاتے ہوئے فیصلہ یہ ہوا کہ لائسنس کی تجدید کے لیے میرے صحافتی ساتھی کو کم از کم 60سے 70ہزار روپے یکمشت ادا کرنا ہوں گے۔ دیانتداری کی بات مگر یہ بھی ہے کہ اپنی محدود آمدنی کے ساتھ ان کے لیے اس رقم کو یکمشت ادا کرنا تقریباً ناقابل برداشت محسوس ہورہا تھا۔
دفتر کے ساتھیوں میں سے لہٰذا ایسے کولیگ کی تلاش شروع ہوئی جو ممکنہ جرمانے کو معاف کروانے کا وسیلہ ڈھونڈسکے۔ سفارش، کے تناظر میں یہ قلم گھسیٹ نہایت نکما ہے۔ بجلی کے طویل بریک ڈائون کا سامنا کرنا پڑے تو ان جونیئر ساتھیوں کی زندگی عذاب بنادیتا ہوں جو اکثر مجھ سے شکوہ کرتے ہیں کہ جائز کاموں، کے لیے بھی نچلی سطح کے افسروں کے حضور حاضری دے کر میں انھیں شرمندہ کرتا ہوں۔ چھوٹے بھائی، ہونے کے دعوے دار ساتھیوں کو لہٰذا مجھ پہ نازل ہوئی مصیبتیں بھگتنا پڑتی ہیں۔
جس کولیگ کے کئی برسوں سے لائسنس کی تجدید نہ کروانے کی وجہ سے اوسان خطا ہوچکے تھے اس کی مدد کے لیے (جو محض جرمانے کی یکمشت ادا کرنے کے بجائے انھیں قسطوں میں ادا کرنے کو درکارتھی) دو تین دوست متحرک ہوئے تو خبر یہ ملی کہ اسلام آباد ٹریفک پولیس نے جس پیش قدمی کا فیصلہ کیا ہے اس میں رعایت کی گنجائش میسر نہیں۔ اسلام آباد ٹریفک پولیس کے اجراء کردہ لائسنسوں کا ڈیجیٹلائز ریکارڈ تیار ہوچکا ہے۔ کمپیوٹر کے ذریعے تیار ہوا سسٹم ہی فیصلہ کرے گا کہ لائسنس کی تجدید نہ کروانے والے کو کتنی رقم ہرجانے کی صورت ادا کرنا ہوگی۔
اپنے ساتھی کی مشکلات کا علم ہوا تو اس کے ساتھ معقول وجوہات کی بنیاد پر ہمدردی کے باوجود اسلام آباد پولیس کی پیش قدمی اور سسٹم، کی سخت گیری کو دل ہی دل میں سراہا۔ گھرلوٹنے کے بعد مگر جی مچلاکہ پنجابی محاورے والی ڈانگ اپنی چارپائی کے نتیجے بھی گھمالی جائے۔ 2019ء میں اگرچہ ایک حادثے کی وجہ سے گاڑی تو تقریباً تباہ ہوگئی تھی لیکن میں خوش قسمتی سے بچ گیا۔ اس کے چند ماہ بعد پڑھنے لکھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا تو نظرکا چشمہ بنانے والے مہربان نے اطلاع دی کہ میری بائیں آنکھ موتیا کی زد میں ہے۔
فی الحال مگراتنا نقصان نہیں ہوا۔ آئی ڈراپس کا باقاعدہ استعمال آنکھ کے آپریشن کو چند مہینوں کے لیے ٹال سکتا ہے۔ اس کے بعد آپریشن سے تو بچ گیا مگر شام ڈھلتے ہی گاڑی چلاتے ہوئے بتیوں کو فل بیم پر رکھ کر دیوقامت گاڑیاں چلانے والے میری آنکھیں کچھ دیر کے لیے اندھاکر دیتے۔ دن کے اوقات میں بھی اکثر کوئی بائیں ہاتھ سے اوورٹیک کرنے لگے تو گاڑی کے دروازے کے قریب لگے بیک مرر سے نظرنہیں آتا۔ موتیا کا نقصان کندھے اور کمر کی تکلیف کے ساتھ مسلسل بڑھتا رہا۔ زندگی بچانے کے لیے خود ڈرائیونگ کو خداحافظ کہہ بیٹھا ہوں۔
زندگی میں لیکن چند ناگہانی واقعات بھی ہوجاتے ہیں۔ خدانخواستہ کسی ایمرجنسی کی صورت گھر پر ڈرائیور یا میری بیوی نہ ہو تو میں یکم اکتوبر2025ء کے بعد گاڑی لے کر سڑک پر اترا تو ناگہانی صورتحال سے نبردآزما ہونے کے بجائے پولیس کے ہتھے چڑھ سکتا ہوں۔ اپنی گاڑی کھول کر ڈیش بورڈ کو لہٰذا تیزی سے پھرولا، تو ڈرائیونگ لائسنس مل گیا۔ وہ مگر 2022ء میں ایکسپائر ہوچکا تھا۔ اس کی تجدید نہ کروانے کا اگرچہ میرے پاس واجب جواز موجود ہے۔ اس جواز کے ہوتے ہوئے بھی لیکن بکری نوعیت کی رعایا کا رکن ہوتے ہوئے جرمانے سمیت تجدید کروانے کا فیصلہ کرلیا۔
اسلام آباد ٹریفک پولیس کا ہیڈکوارٹر چند ہی برس قبل تک میرے گھر کے بہت قریب تھا۔ اب راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والے فیض آباد شفٹ ہوچکا ہے۔ اس کی لوکیشن ڈھونڈی۔ وہاں سے لیکن بے پناہ ہجوم کی اطلاعات آئیں۔ ایک دوست کی مہربانی سے مگر ٹپ یہ بھی ملی کہ یہ دفتر اب رش کو ذہن میں رکھتے ہوئے یکم اکتوبر2025ء تک 24/7کام کرے گا۔ بہتر ہوگا کہ گزرے جمعہ کے بجائے ہفتے کی صبح وہاں جلد از جلد پہنچ کر لائسنس کی تجدید کروالی جائے۔
اسلام آباد کی ٹریفک پولیس کی سخت گیر پیش قدمی نے خواب غفلت سے جگایا تو ذات کے رپورٹر، کو بھی تھوڑی ہوش آئی۔ یقین مانیے کہ 28کے قریب لوگوں سے سوال کیے تو علم ہوا کہ ان میں سے کم از کم 80فیصد نے کبھی اپنی موٹرسائیکل اور کارلائسنس بنوانے کی زحمت ہی نہیں اٹھائی حالانکہ میں گزشتہ 15برس سے انھیں کاریا موٹرسائیکل چلاتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔
80فیصد کے پاس لائسنس نہ ہونے کی وجہ سے پولیس سے اب تک بچے رہنے کی وجہ جاننے کی کوشش کی تو علم ہوا کہ جب بھی ان کا چالان ہوتا ہے تو وہ لائسنس کی عدم موجودگی کا یہ کہتے ہوئے دفاع کرلیتے ہیں کہ وہ چوری، ہوجاتا ہے۔ لائسنس کے بجائے وہ اپنا شناختی کارڈ نمبربتاکر گاڑی یا موٹرسائیکل کے نمبر پر عائد جرمانہ ایزی پیسہ، کے ذریعے ادا کردیا جاتا ہے۔
لائسنس کے بغیر سڑک پر گاڑی چلانے کا تصور کسی بھی ایسے ملک میں ناقابل اعتبار ہے جہاں انسانی جان کی واقعتا قدر ہو۔ سوال اٹھتا ہے کہ ہم اس ضمن میں اتنے بے رحم کیوں ہیں۔ مجھے کامل یقین ہے کہ ابھی تک لائسنس کے بغیر برسوں سے گاڑی یا موٹرسائیکل چلانے والے اسے بنوانے کے لیے امتحان سے گزرے تو اکثریت فیل، ہوجائے گی۔ ٹریفک کے نشانات کا سمجھنا بھی ان کے لیے کافی دشوار ہوگا۔
1975ء سے اسلام آباد میں ہوں۔ رواں صدی کے آغاز سے مگر یہاں کی ٹریفک نہایت بے ہنگم اور کئی اعتبار سے خونی، ہوچکی ہے۔ اسلام آباد ٹریفک پولیس کا شکریہ کہ وہ بے قابو ہوئے اس جن کو نکیل ڈالنے کو آگے بڑھی ہے۔

