Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Islamabad Ab Pur Aman Model Shehr Nahi Raha

Islamabad Ab Pur Aman Model Shehr Nahi Raha

اسلام آباد اب "پرامن ماڈل شہر" نہیں رہا

دو بچیوں کو پالنے کی ذمہ داری کی وجہ سے ہم میاں بیوی خوش تھے کہ بیگم صاحبہ کو اسلام آباد کے عین مرکز میں واقع F-8سیکٹر میں لب سڑک ورثے میں ایک مکان مل گیا۔ وہاں عموماََ پولیس کا بھاری بھر کم ناکہ بھی لگارہتا ہے۔ اس کے باوجود ہم نے شوق کے علاوہ اپنا تحفظ یقینی بنانے کے لئے کتے بھی پالے اور 6کیمرے نصب کرواکے خود کو مزید محفوظ سمجھنے کا اہتمام کیا۔ منگل کی صبح اٹھتے ہی لیکن احساس ہوا ہے کہ "تحفظ" یقینی بنایا ہی نہیں جاسکتا۔

منگل کی صبح گہری نیند سورہا تھا تو 8 بجے کے قریب بیوی نے میرے کمرے کا دروازہ کھولتے ہی پریشان کن آواز میں اطلاع دی کہ ہمارے ہاں چوری ہوگئی ہے۔ آنکھیں ملتا بستر سے باہر نکلا۔ نام نہاد پڑھے لکھے ہونے کے باوجود ہم دونوں میاں بیوی کو علم ہی نہیں کہ گھر میں نصب شدہ کیمروں کو Mode Reverse میں لے جاکر گھر میں گھسے افراد کا پتہ کیسے لگایا جاسکتا ہے۔ پریشانی میں چھوٹی بیٹی کو اٹھایا جس نے لیبارٹری میں بیٹھے سائنس دان کی طرح کچھ وقت لگاکر نہایت توجہ سے بالآخر سراغ لگایا کہ منگل کی صبح تقریباََ چار بج کر 40منٹ پر ہمارے مین گیٹ کے ساتھ نصب ہوئے ایک چھوٹے گیٹ کو جسے اکثر تالہ لگادیا جاتا ہے پردے میں چھپے کسی شخص نے باہر سے انگلی لگاکر کھول دیا تھا۔ جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا ہمارے کتوں نے غیر معمولی شدت سے بھونکنا شروع کردیا۔

ہمیں اپنے کتوں کے ضرورت سے زیادہ بھوکنے کی عادت ہوچکی ہے۔ عموماََ رات گئے وہ ہمارے گھر کے اندر گھسی کسی بلی پر بھی بے تحاشہ شورمچانا شروع ہوجاتے ہیں۔ ہمارے گیٹ کے باہر گلی میں غیرمعمولی نقل وحرکت بھی انہیں چونکا دیتی ہے۔ کتوں کے بھونکنے سے بوکھلاکر اندر آئے شخص کی چادر اتر گئی تو ایک کیمرے نے اس کا چہرہ پورٹریٹ کی صورت ریکارڈ کرلیا۔ اس کی وجہ سے حیران کن دریافت یہ تھی کہ اندر داخل ہونے والی شخصیت مرد نہیں عورت تھی۔ اس کا اطمینان قابل رشک تھا۔ چند ہی لمحوں میں اس نے سمجھ لیا کہ کتوں کے ہوتے ہوئے اس کا ہمارے گھر میں داخلہ ممکن نہیں۔

تھوڑا انتظار کرنے کے بعد اس نے ہمارے گھر کے باہر بنی بیس منٹ کا رُخ کیا۔ اس کی سڑھیاں اترکر اس کمرے میں گئی جہاں ہمارا دیرینہ ملازم اپنی بیوی کے ہمراہ سورہا تھا۔ ان دونوں نے اپنے کمرے کی چٹخنی نہیں لگارکھی تھی۔ دبے پائوں دروازے کے باہر آئی عورت نے اطمینان سے دروازے کو تھوڑا کھولا اور اندر گھس گئی۔ ملازم کا موبائل چارجر پر لگا تھا اسے اٹھانے کے بعد اس کی بیوی کا پرس اٹھایا اور کمرے سے باہر نکلتے ہوئے اس دروازے پر لٹکی ملازم کی قمیض سے اس کا بٹوہ بھی نکال لیا۔ ہمارے ملازم نہایت غریب اور مشکل زندگی گزاررہے ہیں۔ ان کے ساتھ چوری کی جو واردات ہوئی وہ ان کی کمر توڑدینے کے مترادف تھی۔ وہ دونوں بچائی ہوئی رقم کے علاو ہ اپنے ٹیلی فونوں اور شناختی کارڈوں سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔

چور کی ہمارے گھر آمد ورفت کا ریکارڈ بیٹی نے کیمروں سے چھان کر ریکارڈ کرلیا تو اس کی ریکارڈنگ کے ساتھ ملازم کو ڈرائیور سمیت مارگلہ تھانے رپٹ کروانے بھیجا۔ سچی بات ہے ان دونوں کو تھانے بھیجنے سے قبل میں نے کسی بااثر دوست سے سفارش نہیں کروائی تھی۔ چند لمحوں بعد ملازم گھر لوٹ آیا تو مجھے شبہ ہوا کہ پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے سے اپنی "شہرت" کے مطابق انکار کردیا ہے۔ خوش گوار خبر مگر یہ تھی کہ ملازم کو پولیس نے چوری ہوئے ٹیلی فون کا ڈبہ لانے واپس بھیجا تھا تاکہ اس کے ذریعے چوری ہوئے فون کا IMEIنمبر معلوم کیا جاسکے۔

تھوڑی دیر بعد مارگلہ تھانہ کے انچارج ایس ایچ او بھی بذاتِ خود جائے وقوعہ کا جائزہ لینے پہنچ گئے۔ مجھے ان کی فرض شناسی اور شائستگی نے بہت متاثر کیا۔ ان سے گفتگو کی بدولت علم ہوا کہ گزشتہ چند دنوں سے اسلام آباد میں ایک ایسا گروہ متحرک ہے جو کسی "متمول" دِکھتے گھر میں کسی نہ کسی صورت داخل ہونے کے بعد "سرونٹ کوارٹرز" کارخ کرلیتا ہے۔ واردات کے لئے وقت کا چنائو مجرموں کی متاثر کن ہوئی "تحقیق" کا عندیہ دیتا ہے۔ صبح کے تین بجے سے پانچ بجے کے بعد اکتوبر کی سردی شروع ہوتے ہی لوگ عموماََ گہری نیند کے سپرد ہوجاتے ہیں۔ اس وقت دبے پائوں سرونٹ کوارٹر میں گھس کر تین سے پانچ منٹ میں چوری چکاری کی واردات ڈالی جاسکتی ہے۔

نظر بظاہر ہم "خوش نصیب"ثابت ہوئے کیونکہ گھر کے مین گیٹ سے اندر داخل ہوجانے کے بعد چور نے ہمارے گھر کا دروازہ کھولنے سے گریز کیا۔ کتوں کی مسلسل نگہبانی نے اسے دروازہ کھولنے کی جرأت سے محروم کردیا۔ دوسری خوش نصیبی گھر میں داخل ہوئی خاتون کی ڈھٹائی تھی جو اپنے سر سے اتری چادر کے بعد کیمرے کی آنکھ میں جھانکتے ہوئے اپنا چہرہ عیاں کررہی تھی۔ اس کے ایک پوز نے تو "پاسپورٹ سائز" مارکہ تصویر بنادی ہے۔

براہ راست ڈاکے سے محفوظ رہنے کے باوجود مگر جی سے تحفظ کا احساس چلاگیا ہے۔ اسلام آباد یقیناََ اب "پرامن ماڈل شہر" نہیں رہا۔ یہ چوری چکاری کے عادی گروہوں کی زد میں ہے۔ ایسے حالات میں شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے پر توجہ دینے کی بجائے اسلام آباد پولیس کو اکثر اسلام آباد کی یلغار پر ڈٹے سیاسی یا مذہبی گروہوں کو روکنے کے لئے پورے شہر کو کنٹینروں سے محصور کرنے کے بعد اسلام آباد میں داخل ہونے کے مقامات پر توجہ مرکوز رکھنا پڑتی ہے۔

منگل کی صبح ہمارے گھر میں داخل ہوئی عورت کی پاسپورٹ سائز تصویر شاید اس کا سراغ لگانے میں مددگار ہو۔ صرف یہ امید باندھتے ہوئے ہی خود کو تسلی دے سکتا ہوں۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali