Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Doha Muzakrat Aur Pak Afghan Taluqat

Doha Muzakrat Aur Pak Afghan Taluqat

دوحہ مذاکرات اور پاک افغان تعلقات

ہمسایوں کے ساتھ معمول کے تعلقات کا قیام میری دیرینہ خواہشوں میں شامل رہا ہے۔ اس تناظر میں بطور صحافی اپنے فرض سے بڑھ کر بھی حصہ ڈالنے کی ہمیشہ کوشش کی۔ ہمسایوں کے ساتھ معمول کے تعلقات استوار کرنے کی خواہش میں افغانستان بھی جاتا رہا ہوں۔ ہمارے ہمسایوں میں سے یہ واحد ملک ہے جہاں کسی بھی حکومت کے دوران مجھے سرکاری اور غیر سرکاری حلقوں سے مخاصمانہ بیگانگی کا شدت سے احساس ہوا۔ لفظ واحد، لکھتے ہوئے میں بھارت کو نظرانداز نہیں کررہا ہوں۔ 1984ء سے کم از کم دو دہائیوں تک وہاں سال میں دو سے زیادہ مرتبہ جاتا رہاہوں۔ تمام سفر پیشہ وارانہ مجبوریوں کی وجہ سے ہوئے اور مجبوری ہمیشہ اسی وقت لاحق ہوتی رہی جب دونوں ملکوں کے تعلقات کسی نہ کسی وجہ سے انتہائی کشیدہ ہوجاتے۔

بھارت ہمارا ازلی دشمن، تصور ہوتا ہے۔ اسی دشمنی کی وجہ سے بھارت کے سفر کے لیے ویزے کا حصول ناممکنات میں شامل ہے۔ کسی بھی پاکستانی کو یہ ویزا بھارت کے فقط تین شہروں کے سفر کے لیے ملتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ بھارت اترنے کے 24گھنٹوں کے اندر اندر اپنے قریب ترین پولیس اسٹیشن جاکر اپنی آمد کا اندراج کروائیں۔ مذکورہ اندراج کی اذیت مجھے فقط ایک بار نصیب ہوئی۔ اس کے بعد جتنے بھی ویزے لگے ان میں پولیس اندراج سے بطور صحافی استثنا قرار دینے کی مہر پاسپورٹ پر نصب ہوجاتی تھی۔

یہ الگ بات ہے کہ آگرہ سمٹ ناکام ہوجانے کے بعد میں منہ اٹھاکر کلکتہ چلا گیا تو وہاں کوئی ہوٹل مجھے اپنے ہاں کمرہ دینے کو تیار نہیں تھا۔ ان دنوں یہ فرض کرلیا گیا تھا کہ پاکستان مبینہ طورپر کشمیر میں گڑبڑ کے لیے دہشت گردوں، کو بنگلہ دیش سے بھارت بھجواتا ہے۔ کئی ہوٹلوں کے استقبالیہ دفاتر کے روبرو گھنٹوں ذلیل وخوار ہونے کے بعد میں نے دلی میں مقیم ایک سینئر صحافی سے بات کی۔ اس کی مہربانی سے مجھے رات دس بجے کے بعد ایک کمرہ تو مل گیا۔ اس کا کرایہ مگر میری اوقات سے بہت زیادہ تھا۔ صبح ہوتے ہی لہٰذا چیک آئوٹ کروالینے کے بعد کلکتہ سے روانہ ہوگیا۔

بھارت کا ویزا مگر آج کا موضوع نہیں۔ ذکر افغانستان کا ہورہا تھا۔ جہاد، کے دوران وہاں کئی بار گیا ہوں۔ وہاں پہنچنے کے لیے مگر مجاہدوں، کے قافلے کے ہمراہ چوروں کی طرح دراندازی اختیار کرنا پڑتی۔ عام افراد سے ملاقات بھی نصیب نہ ہوتی۔ 1987ء میں البتہ فیصلہ کیا کہ افغان سفارت خانے سے بھی ویزا ملے۔ فاروق اقدس ہمارے دوست ہیں۔ انھوں نے کوئی ایسی جگاڑ لگائی کہ ڈاکٹر نجیب کی حکومت نے اسلام آباد کے چند صحافیوں کو وفد کی صورت اپنے ہاں آنے کی دعوت دے دی۔ ہم مگر پشاور سے طورخم پہنچے تو وہاں کی سرحدی چوکی مجاہدین، کی شدید بمباری کی زد میں تھی۔ ہمارے لیے وہاں امیگریشن کے مراحل سے گزرنے کی گنجائش ہی نظر نہیں آرہی تھی۔ ہمارے دوساتھی اس کی وجہ سے ایک گھنٹہ انتظار کے بعد واپس لوٹ گئے۔ ہم مگر عصر تک انتظار کرتے رہے۔

پشاور لوٹے تو معلوم ہوا کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین بدترین تعلقات کی باوجود پشاور سے علی الصبح جی ٹی ایس والی سرکاری بس کابل جاتی ہے۔ ہمیں اس کے ذریعے جلال آباد پہنچ کر افغان حکومت کی مدد سے کابل پہنچنا چاہیے۔ آتش کی جوانی نے مذکورہ بس آزمانے کا فیصلہ کیا اور چار دیگر ساتھی بھی ایڈونچر کو تیار ہوگئے۔ ایڈونچر تو کامیاب رہا۔ افغان حکومت کو ہمارے جلال آباد پہنچنے کی اطلاع بھی مل گئی۔ ہمیں مگر جلال آباد کے سپین بولدک ہوٹل میں انتظار کا حکم ہوا۔ وہ ہوٹل تقریباً خالی تھا۔ ساری رات ہم بستروں پر کروٹیں بدلتے پہاڑوں سے بھاری بمباری کی گونج سنتے رہے۔ رات جاگتے رہنے کی وجہ سے فیصلہ ہوا کہ کابل جانے کا ارادہ ترک کرکے خیروعافیت سے گھر پہنچ جائیں۔

نائن الیون کے بعد باقاعدہ ویزا لے کر کم ازکم پانچ مرتبہ کابل گیا ہوں۔ ہر بار ویزے کے ساتھ یہ شرط لاگو تھی کہ کابل پہنچتے ہی مقامی پولیس کو وہاں پہنچنے کی اطلاع دینا ہوگی۔ اس ضمن میں صرف ایک بار استثنا ملا جب بطور وزیر داخلہ آفتاب احمد شیر پائو صاحب حامد کرزئی کی حلف برادری کی تقریب میں حصہ لینے سرکاری طیارے میں کابل گئے اور مجھے محبت میں اپنے ساتھ آنے کی دعوت دی۔ آخری مرتبہ کابل 2011ء میں گیا تھا۔ افغان حکومت نے نوروز، کی تقریبات میں شرکت کے لیے بلایا تھا۔ دعوت، کے باوجود پولیس اندراج سے استثنا نصیب نہ ہوا۔

طالبان کی پہلی حکومت کے زوال کے بعد افغانستان کے جو دورے کیے ان کے دوران دریافت ہوا کہ افغان عوام کی اکثریت پاکستانیوں سے شاکی ہے۔ شدت سے یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان سوچی سمجھی پالیسی کے تحت ان افغان عناصر کی پشت پناہی کرتا ہے جو ان کے ملک میں سیاسی واقتصادی استحکام ناممکن بنا رہے ہیں۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو افغانستان کا خیر خواہ تصور کیا جاتا تھا۔ چند پاکستانی نژاد صحافی جو عالمی اداروں کے لیے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کے لیے افغانستان جانے کو مجبور ہوتے اکثر قیام افغانستان کے دوران خود کو بھارت کے شہری، بتاکر جان چھڑالیتے۔

مجھے شکل سے ایرانی یا دری بولنے والا افغان بھی سمجھاجاسکتا ہے۔ حماقت کی حد تک مگر ضدی واقع ہوا ہوں۔ افغانستان میں قیام کے دوران ہمیشہ جان بوجھ کر کلف لگا شلوار کرتا پہنے رکھتا جو افغانستان میں پنجابی، ہونے کا اشتہار سمجھا جاتا ہے۔ اکثر اس کی وجہ سے ریستورانوں میں بیٹھا ہوتا تو مختلف میزوں پر بیٹھے چند افراد مجھے غصے سے گھورتے۔ مجھے افغان عوام کے غصے نے مگر ایک لمحے کو بھی ناراض نہیں کیا۔ 1978ء کے نام نہاد ثور انقلاب، یعنی نور محمد ترہ کئی کے لائے کمیونزم، کے بعد افغانستان میں جہاد کا مرکز پاکستان ہی رہا ہے۔ جہاد، کی وجہ سے افغانستان کی تباہی وبربادی کو میں نے کئی بار اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔

افغان عوام کے دلوں میں پاکستان کی پہلے مجاہدین اور بعدازاں طالبان، کی سرپرستی کے علاوہ اجتماعی یادداشت کی بدولت پنجابیوں، سے خصوصی محبت، ہے۔ رنجیب سنگھ کی پشاور وجمرود پر یلغار کو وہ آج تک نہیں بھولے۔ اس تناظر میں سکھ کمانڈر ہری سنگھ کا نام بھی بچے بچے کو یاد ہے۔

ذاتی طورپر میں قوم پرستی، کو انسان دشمنی شمار کرتا ہوں۔ ہوسکتا ہے میری سوچ غلط ہومگر دورِ حاضر میں قوم پرستی، بہت مقبول ہورہی ہے۔ برطانیہ کا یورپی یونین سے الگ ہونا اسی کا شاخسانہ تھا۔ ٹرمپ کی وائٹ ہائوس واپسی بھی اسی جذبے کے تحت ہوئی ہے۔ ٹی وی پر جی موہ لینے والی اٹلی کی جارجیا میلونی بھی مسولینی کی طرح قوم پرستی کے جذبات ابھارنے کی بدولت اس ملک کی وزیر اعظم منتخب ہوئی ہے۔

طالبان کو ہم احیائے اسلام، کے سپاہی ہی تصور کرتے رہے ہیں۔ فاتح بن کر 2021ء میں کابل لوٹنے کے بعد بتدریج وہ بھی مختلف وجوہات کی بدولت افغان قوم پرستی، کا بیانیہ اختیار کررہے ہیں۔ یہ بیانیہ اختیار کرتے ہوئے انھیں آج کے خیبرپختونخوا کے اکثر علاقوں میں ابھرتے جذبات سے بھی شہ مل رہی ہے۔ طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کے دورئہ دیوبند کے بعد وطن پرستانہ، جذبات میں مزید شدت آئی ہے۔

ہمارے ریگولر اور سوشل میڈیا میں لیکن اس حقیقت کا ادراک نظر نہیں آرہا۔ حالیہ دوحہ مذاکرات کے بعد بلکہ امید دلائی جارہی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان جلد ہی اسلامی اماراتِ افغانستان کے ساتھ شیروشکر ہوجائے گا۔ میں اس ضمن میں جان کی امان پاتے ہوئے چند تحفظات کا اظہار کرتا ہوں تو پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت اور چند مذہبی جماعتوں کے حامی میرے لتے لینا شروع ہوجاتے ہیں۔ خدا کرے کہ بالآخر وہ درست ثابت ہوں۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam