دوبارہ اٹھ کھڑا ہوا قضیّہ
کاش ورلڈ کپ کے لئے پاکستان اور افغانستان کی کرکٹ ٹیموں کے مابین T-20والا میچ بدھ کی شام ہوگیا ہوتا۔ میں اپنے کمرے میں اکیلے بیٹھ کر اسے بہت غور سے دیکھتا اور جمعرات کی صبح اٹھ کر اس کی بابت کالم لکھ کر دیہاڑی لگالیتا۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔ فی الوقت جو موضوع ہمارے لوگوں کی اکثریت کے دل ودماغ کو پریشان کئے ہوئے ہے اس کے بارے میں اپنی رائے برجستہ بیان کرنے کا مجھ میں حوصلہ نہیں رہا۔ دودھ کا جلا ہوا ہوں۔ چھاچھ سے بھی خوف آتا ہے۔
سپریم کورٹ نے نواز شریف کو خائن اور جھوٹا قرار دے کر جب کسی بھی عوامی عہدے کے لئے تاحیات نااہل ٹھہرادیا تو ان سے منسوب جماعت کے شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوئے۔ پارلیمان میں ان دنوں نئے انتخابات کے لئے نامزدگی کے عمل کو آسان بنانے کے لئے قانون سازی ہورہی تھی۔ ایوان میں موجود تمام جماعتوں کی مشاورت سے ایک مسودہ قانون قائمہ کمیٹی میں کئی ہفتے زیر بحث رہنے کے بعد پارلیمان سے منظوری کے لئے پیش ہوا۔ مذکورہ قانون کے مسودے پرجب قائمہ کمیٹی میں غور ہورہا تھا تو کسی بھی جماعت کے نمائندے نے اس کے متن میں مبینہ طورپر کوئی "دین مخالف" سازش دریافت نہیں کی تھی۔ وہ مگر قومی اسمبلی میں منظوری کے لئے رکھا گیا تو راولپنڈی کی لال حویلی سے ابھرے بقراط عصر نے اس میں بنیادی خطائیں دریافت کرنے کا دعویٰ کردیا۔ موصوف مصر رہے کہ نیا قانون ایسے پاکستانیوں کو انتخاب لڑنے کے اہل قرار دے سکتا ہے جنہیں ہمارے آئین نے غیر مسلم ٹھہرارکھا ہے۔
زاہد حامد ان دنوں وزیر قانون تھے۔ پسروراور سیالکوٹ کے درمیانی رقبوں میں آباد ایک پرانے اور بااثر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد بری فوج کے سینئر افسر ہوتے ہوئے اسکندر مرزا نامی صدر کے اے ڈی سی ہونے کے بعد کئی ممالک میں ہمارے سفیر بھی رہے۔ مذہبی شناخت کے حوالے سے یہ خاندان لاہور میں دفن ایک عظیم صوفی میاں میر صاحب کا معتقد رہا ہے۔ اس خاندان کے کئی بزرگوں کی قبریں ان کے مزار کے احاطے میں آج بھی موجود ہیں۔ زاہد حامد پر لیکن الزام یہ لگا کہ انہوں نے مبینہ طورپر مغرب کو خوش کرنے کے لئے ہمارے دین کے ایک بنیادی عقیدے کے خلاف گہری سازش تیار کی ہے۔ مطالبہ ہوا کہ بطور سزا انہیں وزارت سے نکال دیا جائے۔ اس ضمن میں قضیہ سنگین تر ہوا تو شہباز شریف صاحب نے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب اپنے بڑے بھائی کی موجودگی میں ایک اجتماع میں زاہد حامد کی وفاقی کابینہ سے برطرفی کا مطالبہ کردیا۔ ان کی خواہش پر فوراََ عمل ہوا۔ مذکورہ برطرفی کے باوجود نواز شریف پر لاہور کے ایک دینی مدرسے کے اجتماع میں جوتے اچھالے گئے۔ خواجہ آصف پر سیاہی پھینکی گئی۔ احسن اقبال پر گولی چلی۔ نواز شریف اور ان کے نام سے منسوب مسلم لیگ کو دین دشمن پکارا گیا۔ عمران خان صاحب کی تحریک انصاف مذکورہ الزام کو فروغ دینے میں پیش پیش رہی۔ بالآخر راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والے فیض آباد چوک پر ایک مذہبی گروہ کے حامیوں نے دھرنا دے دیا۔
یہ دھرنا کئی دنوں تک پھیل گیا تو مجھ بدنصیب نے اپنے ٹی وی پروگرام میں اس کی وجہ سے عام شہریوں کو درپیش مسائل اجاگر کرنے کے لئے لائیو ٹی وی کالز لینا شروع کردیں۔ ان کی وجہ سے معتوب ٹھہرایا گیا۔ محض چند افراد نے اگرچہ میری نام نہاد جرأت کو دبے لفظوں میں سراہا۔ شاہد خاقان عباسی کی حکومت بالآخر دھرنے کے آگے ڈھیر ہوگئی۔ اس کے بعد اسلام آبادمیں مقیم صحافیوں کے ایک گروہ کے ہمراہ میری وزیر اعظم سے ان کے دفتر میں پہلی اور آخری ملاقات ہوئی۔ میں اس ملاقات کے دوران کامل خاموش رہا۔ شاہد خاقان عباسی کے بارہا اکسانے کی وجہ سے بالا ٓخر "تو کمزور تھا تو…" والی تقریر کو مجبور ہوگیا۔
انگریزی کا ایک محاورہ متنبہ کرتا ہے کہ تم دوسروں کی جانب جو شے پھینکتے ہو بالآخر تمہاری طرف ہی پلٹ کر آتی ہے۔ پنجابی میں ہاتھ سے لگائی گرہوں کا ذکر بھی ہے جنہیں کھولنے کے لئے بالآخر دانتوں کا استعمال ضروری ہوجاتا ہے۔ عمران حکومت کو تاریخی تناظر میں اب دانت ہی استعمال کرنا پڑرہے ہیں۔ راولپنڈ ی کی لال حویلی سے ابھرے بقراط عصر اگرچہ چند ہی دن قبل تک بہت اعتماد سے سب طے ہوجانے کی نوید سنارہے تھے۔ اب مگر وزیر اطلاعات جناب فواد چودھری صاحب کی زبانی معلوم ہورہا ہے کہ آسمان کے نیچے ہر معاملے کی خبر رکھنے والے بقراطِ عصر تو ایک ایسی جماعت سے مذکرات میں مصروف تھے جو مبینہ طورپر عسکریت پسند رحجان کی حامل ہے۔ اس کے کارکنوں کے پاس جدید ترین اسلحہ ہے اور وہ امن وامان کو یقینی بنانے والے ریاستی اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ ہمارے ازلی دشمن بھارت سے مالی سرپرستی کا الزام بھی آیاہے۔ ٹھوس حقائق تک کسی رسائی کے بغیر میں اس تناظر میں تبصرہ آرائی کے قابل نہیں۔
گورننس کا طالب علم ہوتے ہوئے اصرار کرنے کو تاہم مجبور ہوں کہ کسی بھی سنگین معاملہ پر حکومت کو شروع دن سے واضح مؤقف اختیار کرنا ہوتا ہے۔ جو قضیہ دوبارہ اٹھ کھڑا ہوا ہے اسے ماضی میں موجودہ حکومت کے بے شمار افراد نے جنونی انداز میں بھڑکایا تھا۔ اس سے دوری اختیار کرنے کے لئے مناسب وقت مل جانے کے باوجود موجودہ حکومت اس ضمن میں اپنا ذہن صاف نہ کرپائی۔ وقت گزاری کے لئے بلکہ تحریری معاہدے کرتی رہی۔ اب وہی معاہدے اس کے گلے پڑرہے ہیں۔