Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Bhandon Ki Riwayat Aur Daur e Hazir Ke Hukumran

Bhandon Ki Riwayat Aur Daur e Hazir Ke Hukumran

بھانڈوں کی روایت اور دورِ حاضر کے حکمران

میرے بچپن میں خوشی کی ہر تقریب میں جو فن کار کسی نہ کسی طرح گھس آتے تھے ان میں بھانڈ بھی شامل تھے۔ وہ عموماً دو افراد کی ٹولی پر مشتمل ہوتے۔ ان میں سے ایک چھوٹے سے دف نما ڈھول کو بجاتے ہوئے خوشی کا کوئی نغمہ گاتے تقریب میں شامل لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا۔ دف کی عدم موجودگی میں عموماً بھاگ لگے رہن، کی تکرار سے بھانڈوں کی انٹری، ہوتی۔ لوگوں کی توجہ حاصل کرلینے کے بعد ان میں سے ایک کسی طنزیہ فقرے کے آغاز سے شو، کا آ غاز کرتا۔ اس کا فقرہ ادا ہوتے ہی لوگ قہقہے لگانا شروع ہوجاتے۔ اس کا ساتھی مگر مصنوعی غصے سے اپنی بغل میں چھپا ایک سلیپر نما چمڑے کا ٹکڑا نکال لیتا۔ اس آلے، کو چپڑاس، کہا جاتاتھا۔ غالباً پنجابی کے لفظ چپیڑ(تھپڑ)، سے مستعار لیا گیا ہوگا۔ لوگ قہقہے لگارہے ہوتے مگر طنزیہ فقرہ ادا کرنے والے کو اس کا ساتھی درفٹے منہ، کہتے ہوئے چپڑاس سے پیٹنا شروع ہوجاتا۔ عموماً طنز کرنے والا چپڑاس کو اپنا ہاتھ آگے بڑھاکر اس کے وار، سہہ لیتا۔

میں حیران ہوتا کہ جس شخص کے ادا کیے فقرے پر لوگ بلند آواز میں قہقہے لگارہے ہیں اپنے ساتھی کے ہاتھوں چپڑاس سے پٹائی کیوں کروارہا ہے۔ نوجوانی سے بڑھاپے کی طرف سفر کرتے ہوئے کئی کتابوں اور ذاتی زندگی کے تلخ تجربات کی بدولت بالآخر سمجھ آئی کہ چپڑاس، پنجابی ثقافت کی بہت بڑی علامت ہے۔ یہ درحقیقت طنز کو تخریب کاری، بناکر پیش کرتی ہے کیونکہ وہ نازک مزاج بادشاہوں کو ناگوار محسوس ہوتی ہے۔ طنزیہ فقرے ادا کرنے والے کی چپڑاس کے ذریعے دھنائی کی بدولت اس امر کا اعتراف کیا جاتا ہے کہ کسی پر طنزیہ فقرے اچھالنا واجبِ تعزیر ہے۔ طنز کو واجبِ تعزیر تسلیم کرنے کے باوجود پنجاب کئی صدی تک بھانڈوں کو برداشت کرتا رہا۔

کم از کم گزشتہ دس برسوں سے لیکن لاہور کی جس شادی میں بھی شریک ہوا وہاں خواجہ سرا، تو ضرور گھستے مگر بھانڈ نظر نہیں آئے۔ ان کی عدم موجودگی نے مجھے پریشان کیا تو ایک دن لاہور کے ایک معروف تھیٹر اداکار سے بھانڈوں، کی گم شدگی، کا سبب جاننے کی کوشش کی۔ موصوف خود بھی تیکھے جگت باز ہیں۔ سپاٹ چہرے کے ساتھ مجھے آگاہ کیا کہ بھانڈ اب شادیوں میں نہیں جاتے۔ سٹیج ڈراموں میں حصہ لیتے ہیں۔ ان میں سے چند ٹی وی سکرینوں کے مزاحیہ شوز میں حصہ لیتے ہوئے بھی مال بنارہے ہیں۔ انھیں گلی گلی جاکر خوشی کی تقریب میں زبردستی گھس کر رزق کمانے کی مجبوری لاحق نہیں رہی۔

بھانڈ روزمرہ زندگی سے غائب ہوچکے ہیں۔ چپڑاس، مگر اپنی جگہ موجود ہے۔ سوشل میڈیا پر قابو پانے کے لیے حال ہی میں منظور ہوا پیکا ایکٹ مثال کے طورپر چپڑاس، ہی تو ہے۔ خود کو طنزیہ فقروں سے محفوظ رکھنے کے لیے نریندر مودی جیسے حکمرانوں نے اپنے مالدار دوستوں کو بھارت کے کئی مشہور چینل خریدنے کو مائل کیا۔ اسی باعث بھارتی میڈیا مودی کی گود میں بیٹھا گودی میڈیا، مشہور ہوگیا۔

روایتی میڈیا پر قابو پالینے کے بعد ٹی وی سکرینیں طنزیہ تنقید سے محروم ہوئیں تو امریکا کی نقالی میں بھارت کے دلی اور ممبئی جیسے بڑے شہروں میں لوگوں نے کامیڈی کلب، کھول لیے۔ وہاں عموماً کوئی ایک فن کار سٹیج پر کھڑے ہوکر لطیفے وغیرہ سناتا۔ اسی وجہ سے مذکورہ صنف کو Stand up Comedyکہتے ہیں۔ ایسے کامیڈین مگر اب چپڑاس، کی زد میں نہیں رہے۔ ہندو توا کی عقیدت میں مبتلا جنونی ان کے شو کے دوران ہال میں گھس کر تماشا رکوادیتے ہیں۔

منگل کے نیویارک ٹائمز میں کونال کامرہ نام کے ایک کامیڈین کا ذکر ہوا ہے۔ اس نے ممبئی کے ایک مقامی سیاستدان کا نام لیے بغیر اس کی بھداڑائی کیونکہ اس نے بلدیاتی انتخابات میں اپنی ہی جماعت کو بی جے پی کے ہاتھوں شکست دلوانے کے لیے دھڑے بندی کی سرپرستی کی۔ کونال کامرہ کی طنزیہ گفتگو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو ممبئی کی مشہور Habitatکلب میں اس کے شو کے دوران مذکورہ سیاستدان کے بھجوائے غنڈے گھس آئے۔ کلب کی عمارت میں ہتھوڑوں سے توڑپھوڑ ہوئی اور پولیس خاموش تماشائی کی صورت لاتعلق کھڑی رہی۔ کلب پر ہوئے حملے کے بعد کونال کامرہ اب بھارت کے ایک اور صوبے تمل ناڈو کے شہر پانڈی چری منتقل ہوگیا ہے۔ وہاں ایک گھر میں محصور ہوا یوٹیوب کے لیے طنزیہ پروگرام ریکارڈ کرواتا ہے۔ اس خوف کے ساتھ کہ مودی حکومت کسی روز یوٹیوب پر بھی اس کا شودبائو بڑھاکر بند کرواسکتی ہے۔ رب کا صد شکر کہ ہمارے بھانڈوں کو ایسے خوف لاحق نہیں۔ حکمرانوں کی جانب سے مسلسل برسائی چپڑاس، نے ہمیں ان کا ادب کرنے کی عادت ڈال دی ہے۔ حکمرانوں کو ہم مقدس ہستیاں تسلیم کرنا شروع ہوگئے ہیں۔

امریکا کے صدر ٹرمپ کو مگر اپنے ہاں کے مسخرے چین سے رہنے نہیں دے رہے۔ مودی کی طرح وہ رات کے آخری پہروں کے دوران ہوئے شوز میں طنزیہ فقرے اچھالنے والوں سے نجات کے لیے اپنے امیر دوستوں کو اُکسارہا ہے کہ وہ مشہور ٹی وی چینل نیٹ ورکس خریدلیں۔ اس حوالے سے پیش رفت ہوئی تو سٹیفن کولبرٹ کے مزاحیہ شو کو اگلے سال کی پہلی سہ ماہی کے بعد بند کرنے کا اعلان ہوگیا۔ اے بی سی ٹیلی وژن کے لیٹ نائٹ شو کے میزبان جمی کمل کا شو چند ہی دن قبل آف ایئر، کردیا گیا تھا۔ اس کے مداحین نے مگر ان شوز کا بائیکاٹ کرنا شروع کردیا جو جمی کمل کو ہٹانے والی کمپنیاں تیار کرتی تھیں۔ مداحین کے جوابی دبائو کی بدولت جمی کمل سکرین پر واپس لوٹ آیا ہے۔

ٹرمپ نے مگر ہمت نہیں ہاری ہے۔ اس کے مالدار دوست ماہرانہ منصوبہ بندی کے ساتھ روایتی میڈیا کے وہ تمام پلیٹ فارم منہ مانگے داموں خریدنے کو آمادہ ہیں جو ان کی نگاہ میں شہنشاہ ٹرمپ کو آزادیِ اظہار، کے نام پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ روایتی نیٹ ورکس کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے محتسب، بھی تعینات ہوناشروع ہوگئے ہیں۔ چپڑاس تو فقط جبر کی علامت تھی۔ وہ طنزیہ جملے ادا کرنے والے کو اپنا شہر چھوڑ کر کسی دوسرے شہر میں پناہ لینے کو مجبور نہیں کرتی تھی۔ رزق کھوجانے کا خوف بھی مسلط نہیں کرتی تھی۔ ہمارے بادشاہ تو کبھی اتنے خود اعتماد ہوتے تھے کہ ان کے نورتنوں میں بیربل جیسے مسخرے بھی شامل ہوتے تھے۔ شیکسپیئر کے لکھے اکثر ڈراموں میں بادشاہ یا شہزادے کا پسندیدہ جوکربھی ہمہ وقت اس کے ساتھ نظر آتا تھا۔ سنا ہے حکمران اس کے مسخرے پن، سے آداب حکمرانی سیکھتے ہوئے اپنے عوام کو مطمئن رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ دورِ حاضر کے حکمرانوں کو مگررعایا کی چاہت نہیں بلکہ غلامی درکار ہے۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan