عزیز علوی کے تھیسس پر "انقلابیوں" کا شور و غوغا

"عرب بہار" کے دنوں سے یہ سوال ذہن میں اٹکا ہوا ہے کہ دنیا بھر میں سوشل میڈیا کے معروف پلیٹ فارم جو دورِ حاضر کے ارب پتی سیٹھوں کی ملکیت ہیں کسی بھی ملک میں"انقلاب" برپا کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں یا نہیں۔ ذاتی تجربے نے اس کا جواب ہمیشہ نفی میں فراہم کیا۔ مجھ سے کہیں زیادہ پڑھے لکھے دوست مگر اصرار کرتے ہیں کہ مذکورہ میڈیا نے انسانوں کو اپنے حقیقی جذبات برملا بیان کرنے کی سہولت فراہم کردی ہے۔ یہ سہولت ان قوتوں کو بے نقاب کرنے کے پلیٹ فارم بھی مہیا کرتی ہے جنہوں نے "تبدیلی" کے سفر کو روک رکھا ہے۔ تبدیلی دشمن اشرافیہ مجھ جیسے پرانی وضع کے صحافیوں کو ایسے اداروں کے لئے دیہاڑی پر کام کرنے کو مجبور کرتی ہے جو ان کی جانب سے دئے اشتہاروں کی وجہ سے اپنا وجود برقرار رکھتے ہیں۔ ایسے اداروں کو نئی نسل اب حقارت سے Legacy Media پکارتی ہے۔ عجائب گھروں میں رکھنے والا میڈیا جو دورِ حاضر کے انسان کے دل ودماغ میں ابلتے خیالات کا ترجمان بننے کے قابل نہیں۔
روایتی میڈیا پر اٹھائے تنقیدی جملے سنتا ہوں توفوراََ یہ خیال آتا ہے کہ دنیا کے امیر ترین افراد کی ملکیت میں کام کرنے والے ٹویٹر اور فیس بک معاشرے میں"مثبت" یا "انقلابی" تبدیلی لانے میں کیسے مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ برطانیہ کو یورپی یونین سے الگ کرنے کے لئے برطانیہ کی سفید فارم اکثریت کے دلوں میں صدیوں سے موجود جذبات اچھالنے کے لئے سوشل میڈیا ہی تو استعمال ہوا تھا۔ اسے استعمال کرنے والوں پر منافع خورکمپنیوں نے بھی گہری نظر رکھی۔ آپ نے سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوئے جن مضامین یا خیالات کو پسند کیا یا دوسرے تک پہنچانے کے لئے شیئر کا بٹن دبایا تو مصنوعی ذہانت نے آپ کو "حصار" میں لے کر آپ کی شخصیت کا ماہرنفسیات کی طرح کھوج لگانا شروع کردیا۔ آپ کی پسند یا ناپسند دریافت کرنے کے بعد تیار ہوا ڈیٹا پھر مصنوعات فروخت کرنے والوں کو بیچ دیا گیا۔
یوٹیوب پر مثال کے طورپر آپ دو سے تین بار کسی خاص شخصیت کا یوٹیوب چینل سنیں تو چند ہی دنوں بعد آپ کے فون یا کمپیوٹر سکرین پر اس شخصیت کے خیالات سے اتفاق کرنے والے افراد کے یوٹیوب چینل آپ کی خواہش کے بغیرنمودار ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ یوٹیوب والے گویا جان چکے ہیں کہ آپ کو کونسا "دانشور" گلوکار یا شاعر پسند ہے۔ آپ کو کیسے اینکراچھے لگتے ہیں۔ ابتداء میں انسانی ذہن کی ترجیحات کو خودبخو دریافت کرنے والی اس "ایجاد" سے میں بہت متاثر ہوا۔ کئی بار اس کی بدولت ایسے شاعروں یا مشہور ادیبوں کے بارے میں تفصیل سے تیار ہوئی ڈاکومنٹریز دیکھنے کے قابل ہوا جن کے محض نام سن رکھے تھے اور خواہش تھی کہ کوئی ایسی کتاب مل جائے جو ان کے خیالات کو آسان زبان میں سمجھادے۔
بچپن سے جوانی میں داخل ہوتے ہوئے مجھے صحافی نہیں ڈرامہ نگار بننے کا جنون لاحق تھا۔ اسی تناظر میں روس کا مشہور ڈرامہ نگار چیخوف مجھے بہت پسند تھا۔ اس کے لکھے تمام ڈرامے پڑھ رکھے ہیں۔ ان میں سے Seagullمیرا پسندیدہ تھا۔ سیگل پانی کا ایک جانور ہے جس کا اردو ترجمہ مجھے معلوم نہیں۔ غالباََ مرغابی کی ایک قسم ہے۔ برحال اس ڈرامے کو میں نے کئی بار اردو میں ترجمہ کرنے کی کوشش کی۔ ترجمہ مگر درمیان ہی میں چھوڑ دیتا۔ اس کی دو وجوہات تھیں پہلا خیال یہ آتا کہ میرے ترجمہ کئے ڈرامے کو سٹیج پر لانے کے لئے رقم کون خرچ کرے گا۔ فرض کیا رقم مل بھی گئی تو چیخوف کا سٹیج پر کوئی بھی ڈرامہ دیکھے بغیر میں اسے اردو میں کیسے ڈھال سکتا ہوں۔ جب بھی لندن جانے کا اتفاق ہوا تو بہت چاؤ سے میں یہ جاننے کی کوشش کرتا کہ وہاں کسی تھیٹر میں یہ ڈرامہ چل رہا ہے یا نہیں۔ ہمیشہ ناکامی ہوئی۔
آج سے چند ہفتے قبل مگر میں نے اس ڈرامے کو یوٹیوب کے ذریعے دیکھ لیا۔ اب میں جب بھی یوٹیوب کھولتا ہوں تو "سی گل" ڈرامے کے کئی ممالک میں ہوئے شوز کی کلپس ازخود سکرین کے حاشیے پر نمایاں ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ یوٹیوب گویا جان چکا ہے کہ چیخوف کا "سی گل" میرا پسندیدہ ڈرامہ ہے۔
مذکورہ بالا حقیقت کی بنیاد پر میں حال ہی میں کشمیری حریت پسند رہ نما -یاسین ملک-کے دلی ہائی کورٹ کے حلف نامے میں ہوئے ایک دعوے کو بلاچون وچرا قبول کرنے کو مجبور ہوں کہ جولائی 2016ء میں شہید ہونے والے برہان وانی اپنے قتل سے کم از کم تین برس قبل بھارتی "سکیورٹی گرڈ" کی نگاہ میں آچکے تھے۔ ان کے زیر استعمال فون بلکہ تھورایا بھی جو کسی لوکل نیٹ ورک پر انحصار نہیں کرتا بھارتی ریاست کو آگاہ رکھتا کہ وانی شہید کس مقام پر موجود ہیں۔ وہ اس مقام سے روانہ ہوجاتے تو بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکار اس گھر کا گھیراؤ کرکے اس شخص کو گرفتار کرلیتے جو ان کا میزبان تھا۔ اس کی بدولت ان تمام افراد کی فہرست تیار کرلی جاتی جنہوں نے برہان وانی سے اس مکان میں قیام کے دوران ملاقاتیں کی تھیں۔ ان سے ہوئی گفتگو کی تفصیلات بھی یوں حاصل کرلی جاتیں۔
مقبوضہ کشمیر کے حالات کے بارے میں آندرے لیوی اور کیتھی سکاٹ -کلارک نے مل کر دو ضخیم کتابیں لکھی ہیں۔ یہ نہایت لگن سے تیار کردہ فیلڈ رپورٹس ہیں۔ یاسین ملک کے حلف نامے سے کئی ماہ قبل انہوں نے اپنی ایک کتاب میں عیاں کیا تھا کہ بھارتی "سکیورٹی گرڈ" نے کیسے برہان وانی کی سوشل میڈیا کی بدولت ہوئی شہرت کو Control Narrative یعنی بیانیہ پر کامل گرفت کے لئے استعمال کیا۔ مختصراََ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جیسے یوٹیوب یہ جان لیتا ہے کہ نصرت جاوید کو چیخوف ڈرامہ نگار کا لکھا "سی گل" پسند ہے اسی طرح ریاستی ادارے بھی سوشل میڈیا پر نگاہ رکھتے ہوئے ممکنہ "انقلابیوں" کی فہرست تیار کرلیتے ہیں جن کی "رسی" جان بوجھ کر "دراز" رکھی جاتی ہے تاکہ ان کے حلقہ اثر کا بھی کامل احاطہ ہوسکے۔ ان پر بالآخر اسی وقت ہاتھ ڈالا جاتا ہے جب وہ ریاست کے لئے واقعتا "خطرہ" بن جائیں۔
انٹرنیٹ کے متعارف ہونے سے کم از کم تین دہائی قبل پاکستان کے بہترین محقق جن کی آج بھی قدر نہیں ہوئی جناب عزیز علوی نے گہری تحقیق کے بعد ایک کتاب لکھی تھی جس نے ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ حکومتوں کے آنے اور جانے کے باوجود پاکستان کی ریاست برطانیہ کی کامل کنٹرول کی تمنا میں بنائے ریاستی ڈھانچے کی وارث ہوتے ہوئے ایک Developed Over ریاست ہے۔ اس کے خدوخال اور طریقہ کار کو سمجھے بنا پاکستان میں"انقلاب" برپا نہیں کیا جاسکتا۔ علوی صاحب کے تھیسس کو ہمارے پرامید "انقلابیوں" نے "شکست خوردہ" ذہن کی سوچ ٹھہراکررد کردیا۔ سوشل میڈیا کے شوروغوغا سے "تبدیلی" کی امید رکھنے والے ان دنوں ویسی ہی "غفلت" میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔

