Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Awami Numaindon Ki Aeen Mein Mujawza Tabdeelion Se Lailmi

Awami Numaindon Ki Aeen Mein Mujawza Tabdeelion Se Lailmi

"عوامی نمائندوں" کی آئین میں مجوزہ تبدیلیوں سے لاعلمی

آئین میں ترمیم عمومی واقعہ نہیں ہے۔ اس کے ذریعے آپ عوام اور حکمرانوں کے درمیان ہوئے نام نہاد "سماجی معاہدے"کی چند بنیادی شقوں میں تبدیلیاں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ "سماجی معاہدے" کا ذکر چلا تو جھکی ذہن میں سوال یہ بھی اٹھاکہ پاکستان کے عوام اور حکمرانوں کے درمیان "سماجی معاہدہ" کب تشکیل پایا تھا۔ ذہن پر بہت زور دیا تو ایسا کوئی دن یاد نہ آیا جب مبینہ جی ہاں مبینہ سماجی معاہدہ ہوا تھا۔ قیامِ پاکستان کے قریب قائد اعظم نے دستور ساز اسمبلی سے اپنے خطاب کے ذریعے ممکنہ سماجی معاہدے کے خدوخال اگرچہ بیان کردئیے تھے۔

ان کی وفات کے بعد مگر "اسلام کو بچانے" کے نام پر علماء کے ایک گروہ سے ایک معاہدہ ہوا۔ آئین سازی میں اس کے باوجود بہت دیرلگادی گئی۔ محلاتی سازشوں کے ذریعے البتہ ہم وزرائے اعظم وقفوں سے بدلتے رہے۔ بالآخر 1953ء میں آئین بنالیا گیا۔ اس آئین نے صوبوں کی شناخت ختم کرکے ان دنوں کے مغربی پاکستان کو "ون یونٹ" کے نام پر "ایک" کردیا۔ مشرقی پاکستان کی آبادی جو مغربی پاکستان سے زیادہ تھی آئین میں "برابر"کردی گئی۔ صوبائی شناخت اور مشرقی پاکستان کی عددی اکثریت سے انکار نے ہمارے ہاں علیحدگی پسندی کے جذبات کو فروغ دیا۔ ریاستی ڈھانچہ ان پر قابو پانے میں ناکام ہوا تو 1958ء میں فیلڈ مارشل ایوب خان نے مارشل لاء لگادیا۔

مارشل لاء لگانے کے بعد ممتاز قانون دان منظور قادر صاحب کو "پاکستانی عوام کے مزاج کے مطابق" آئین تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ انہوں نے جو آئین تیار کیا اس کے ذریعے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب نہیں ہوتے تھے۔ عام پاکستانی مقامی سطح پر ہمارے اور آپ کے بھی "ووٹر"بن کر80ہزار کے قریب بی ڈی ممبروں کے ذریعے صدرکے علاوہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین بھی چن لیتے۔ 1967ء میں نافذ ہوئے اس آئین میں صدرِ پاکستان حتمی اختیارات کا حامل تھا۔

صدرِ پاکستان پر اس کی وجہ سے فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی پھبتی لگی اور حبیب جالب مرحوم نے اسی آئین کے بارے میں "میں نہیں مانتا" کی دہائی مچاتے ہوئے کئی بار پولیس کے ہاتھوں لاہور کی سڑکوں پر اپنے سرپرلاٹھیاں کھاتے ہوئے خون بہایا۔ 1962ء میں ایک شخص کا کامل اختیارواقتدار یقینی بنانے والا آئین مگر 1969ء میں عوامی تحریک کی نذر ہوگیا۔ اس آئین نے یہ طے کیا تھا کہ اگر کسی وجہ سے صدرِ پاکستان استعفیٰ دینے کو مجبور ہوجائے تو وہ اقتدار قومی اسمبلی کے سپیکرکے حوالے کردے گا۔ ایوب خان نے مگر اپنے ہی متعارف کردہ آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے استعفیٰ دینے کے بعد ان دنوں کے آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کو حکومت سنبھالنے کی دعوت دی۔ اقتدار سنبھالتے ہوئے یحییٰ خان نے مارشل لاء لگادیا۔

مارشل لاء کے باوجود اس حقیقت کو تسلیم کرلیا گیا کہ پاکستان اپنے قیام کی دو دہائیاں گزرنے کے باوجود "سرزمینِ بے آئین" ہے۔ اسی باعث دستور ساز اسمبلی کیلئے عام انتخاب ہوئے جن میں ہمارے عوام کو "ون مین ون ووٹ" یعنی ہر بالغ شہری کو اپنے نمائندے کے چنائو کے لئے براہ راست ووٹ کا حق ملا۔ اس حق کا مگر مشرقی پاکستان میں جس ا نداز میں استعمال ہوا اس نے راولپنڈی کو گھبرادیا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے۔

حال کی طرف لوٹیں تو ہمارے ہاں اب نظر بظاہر آئین کی عمل داری ہے۔ موجودہ حکومتی بندوبست مگر اس کی چند شقوں سے مطمئن نہیں۔ انہیں تبدیل کرنے کے لئے آئین میں 27ویں ترمیم کرنا چاہ رہا ہے۔ اصولی طورپر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیر اعظم قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر یا قوم سے براہ راست خطاب کرتے ہوئے عوام کو یہ بتاتے کہ آئین کی فلاں فلاں شق 2025ء میں ابھرے تقاضوں سے نبردآزما ہونے کی گنجائش فراہم نہیں کررہی۔ ان میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ عوام کو زحمت دینے سے ہمارے مہربان وزیر اعظم مگر گریز کرتے ہیں۔ ویسے بھی روزمرہّ مسائل میں گھرے اور شہریوں کے حقوق وفرائض سے "غافل اور جاہل" عوام کو علمی بحثوں میں الجھنے کے قابل ہی نہیں سمجھاجاتا۔

حکمرانی دن بدن عوام کے منتخب نمائندوں کے بجائے "ٹیکنوکریٹس" کے حوالے ہورہی ہے جو مختلف امور کے ماہر تصور ہوتے ہیں۔ عقل کل شمار ہوئے ٹیکنوکریٹس نے آئین میں خاموشی سے چند خامیاں تلاش کرکے ان کے حل کے لئے ترامیم بھی تیار کرلی ہیں۔ وہ ترامیم مگر عمومی بحث کے لئے لوگوں کے روبرو نہیں لائی گئیں۔ سرگوشیوں میں لیکن نہایت ہوشیاری سے صحافیوں کو اس امر پر اُکسایا گیا کہ وہ لوگوں کو 27ویں ترمیم کی منظوری کیلئے تیار کریں۔ 27ویں ترمیم مگر کیا چاہتی ہے اس کے بارے میں ہمیں قطعی لاعلم رکھا گیا ہے۔

کامل لاعلمی کے تناظر میں رواں ہفتے کے آغاز کے ساتھ ہی بلاول بھٹو زرداری نے سوشل میڈیا کے ایکس پلیٹ فارم پر لکھے ایک پیغام کے ذریعے قوم کو آگاہ کیا کہ وزیر اعظم شہبازشریف نے کچھ لوگوں کے ہمراہ ان سے صدرِ پاکستان کی موجودگی میں ملاقات کی ہے۔ مذکورہ ملاقات کے دوران پیپلز پارٹی سے تقریباََ سات نکات پر مبنی آئینی ترمیم کے لئے تعاون کی تمنا کا اظہار ہوا۔ پیپلز پارٹی کے جوان سال رہ نما نے فقط ان موضوعات کا ذکر کیا جہاں تبدیلی کی خواہش کا ذکر ہوا۔ اس خواہش کو عملی جامہ کس انداز میں پہنایا جائے گا اس کے ذکر سے البتہ گریز کیا۔

بلاول بھٹو زرداری کے گریز کے باوجود روایتی اور سوشل میڈیا نظر بظاہر 27ویں ترمیم کا پورا مسودہ اپنے تئیں "تیار" کرچکا ہے۔ قیاس آرائیوں کے طوفان کی توجہ اگرچہ ان تبدیلیوں پر مرکوز ہے جو ریاست کے منتخب اور عسکری عہدوں کے مابین آئین میں اب تک لکھی تقسیم کو مبینہ طورپر بدل ڈالیں گی۔ اس کے علاوہ عدالتوں کو "قابو" میں لانے کے لئے مزید اقدامات لینے کی گفتگو بھی ہورہی ہے۔ فیصلہ سازی کے مراکز سے عرصہ ہوا دور ہونے کے سبب میں ہرگز اس قابل نہیں کہ روایتی اور سوشل میڈیا پر آئین کی 27ویں ترمیم کے ذریعے جن تبدیلیوں کا ذکر ہورہا ہے ان کی صداقت کی تصدیق یا تردید کرسکوں۔ رعایا کا ایک بے وقعت رکن ہوتے ہوئے اس ضمن میں قطعاََ بے خبر ہوں۔

حکومتی فیصلہ سازی کے حوالے سے میری بے وقعتی اور لاعلمی سمجھی جاسکتی ہے۔ حیرت مگر ان لوگوں سے گفتگو کے بعد ہوتی ہے جو حکمران جماعت کے پھنے خان سنائی دیتے اراکین پارلیمان ہیں۔ ان سے آئین کی 27ویں ترمیم کی تفصیلات معلوم کرنے کی کوشش کرو تو شرمندہ ہوئے بغیرکندھے اچکاتے ہوئے لاعلمی کا اظہار کردیتے ہیں۔ "عوامی نمائندوں" کی ایسی لاعلمی اور بے وقعتی یقین مانیں 1985ء میں "غیر جماعتی انتخاب" کی بدولت قائم ہوئی قومی اسمبلی اورسینٹ کے اراکین میں بھی نظر نہیں آئی تھی جو جنرل ضیاء کی چھتری تلے کام کررہے تھے۔

موجودہ دور میں "عوامی نمائندوں" کی آئین میں مجوزہ تبدیلیوں کے بارے میں لاعلمی کا ذمہ دار مگر موجودہ حکومتی بندوبست ہی کو ٹھہرایا نہیں جاسکتا۔ عمران خان کے دور میں "ایک پیج" کا رواج شروع ہوا تھا۔ ان دنوں پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) کی گرے لسٹ سے نکلوانے کے لئے دس سے زیادہ قوانین کا بھاری بھر کم پلندہ تیارہواتھا۔ ٹی وی سکرینوں اور قومی اسمبلی کے فلور پر ایک دوسرے کے جانی دشمن نظر آنے کے باوجود حکومت اور ا پوزیشن کے اراکین سورج ڈھلنے کے بعد ان دنوں قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کے سرکار کی جانب سے فراہم کردہ گھرمیں جمع ہوکر اپنے سامنے رکھی شقوں پر اتفاق رائے تلاش کرتے رہے۔

رات کے اندھیرے میں ہوئے "اتفاق رائے" کے باوجود قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاسوں میں شاہ محمود قریشی اور ڈاکٹر شہزاد جیسے بلند آہنگ وزراء مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی کو طعنے دیتے کہ وہ "غلاموں" کی طرح نواز شریف اور آصف علی زرداری کی مبینہ طورپر کرپشن کی دولت سے غیر ملکوں میں خریدی جائیداد کے تحفظ کے لئے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلوانے والے قوانین کی منظوری میں تاخیر سے کام لے رہے ہیں۔ اپنی مسلسل توہین کے باوجود مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی نے "وسیع تر مفاد" کی خاطر طے شدہ قوانین پر انگوٹھے ثبت کردئیے۔ نام نہاد "عوامی نمائندے" اپنے فرائض دیگر اداروں کے ٹیکنوکریٹس کو آئوٹ سورس (Source Out)کرچکے ہیں۔ ان سے خیر نہیں بلکہ "خبر" کی توقع بھی کیا رکھنا؟

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan